تحریر: مولانا سراج الدین ندوی
آج (۹/ذی الحج مطابق 28/جون 2023)بعد مغرب سوشل میڈیا کے ذریعہ خبر ملی کہ مترجم قرآن مولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب نہیں رہے۔میں نے نماز جمعہ کے بعد حاضرین کو یہ خبر دی،مولانا کے کے لیے دعائے مغفرت کی۔اس وقت ہماری مسجد میں بعد فجر مولانا کی تالیف کردہ حدیث کی کتاب کلام نبوت کا حصہ دوم پڑھا جارہا ہے۔میں نے وہ کتاب اٹھاکر دکھائی اور کہا کہ مولانا فاروق خاں ؒ صاحب نے اس کو سات جلدوں میں مرتب کیا ہے۔مولانا کی وفات کی خبر تحریکی حلقوں میں غم و اندوہ کی لہردوڑا گئی۔مولانا اگرچہ بہت ضعیف ہوچکے تھے،ان کی عمر نوے سال تھی،لیکن ایسا نہیں تھا کہ وہ چل ہی بسیں،آج ہی تو وہ اپنے پاؤں پر چل کر دہلی سے لکھنو پہنچے تھے۔یعنی پانچ سو کلومیٹر کا سفر طے کیا تھا۔رات بھر ٹرین میں رہے تھے۔بخیریت اپنے بیٹے کے یہاں صبح پہنچے چکے تھے۔پھرایسا کیا ہوا کہ پھر فرش سے عرش تک کا راستہ لمحوں میں طے کرلیا،مگر یہ راستہ ہی ایسا ہے جو چند ثانیوں میں طے ہوجاتا ہے۔بقول شاعر
ہستی سے عدم تک نفس چند کی ہے راہ
دنیا سے گزرنا سفر ایسا ہے کہاں کا
انسان نہیں جانتا کہ وہ جہاں جا رہا ہے موت اس کا انتظا رکررہی ہے۔گزشتہ دنوں ٹائٹنک جہاز کلا ملبہ دیکھنے کی خواہش رکھنے والے دنیا کے تین ارب پتی افراد تین ہزار میٹر گہرے سمند رمیں موت سے ہم آغوش ہوگئے۔مولانا فاروق خاں ؒ صاحب جو ساری عمر قرآن میں غوطہ زن رہے،انھیں کیا معلوم تھا کہ لکھنو کی شام ان کی زندگی کی شام بن جائے گی۔سائنسی تحقیقات کے زور پر انسان نے بہت سے راز ہائے سربستہ پرسے پردہ ہٹادیا ہے،مگر ابھی کچھ راز ایسے ہیں جن کا انکشاف شاید کبھی نہ ہوسکے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ:
وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَکْسِبُ غَدًا۔وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۔اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(لقمان 34) اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بیشک اللہ علم والااور باخبر ہے۔
مولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب سے میری پہلی ملاقات ڈاسنہ ضلع غازی آباد میں اجتماع جماعت اسلامی ہند علاقہ میرٹھ میں ہوئی تھی۔یہ 1973کی بات ہے۔عصر کے بعد وقفہ تھا۔میں نے جناب مولانا کوثر یزدانی ندوی ؒ سے کہا کہ چلئے کہیں چائے پیتے ہیں۔مولانا میرے عہد طفولیت میں کانتی کی توسیع کے لیے میرے گاؤں آچکے تھے،اس لیے میری ان سے اچھی شناسائی تھی۔مولانا بولے چلئے،انھوں نے اپنے ساتھ ایک رفیق کو اور لے لیا،میں انھیں جانتا نہیں تھا،وہ لمبے قد کے تھے،انھوں نے چوڑے پائینچوں والا پائجامہ اور ڈھیلا ڈھالا کرتا پہن رکھا تھا،پاجامے کا ایک پائینچا اونچا اور ایک نیچا تھا،عجیب دہقانی سے لگ رہے تھے،مجھے حیرت تھی کہ مولاناکوثر یزدانی ندوی صاحب نے کس دہقانی آدمی کو اپنے ساتھ لے لیا۔خیر ہم نے چائے پی۔اس کے بعد میں نے مولانا سے ان صاحب کا تعارف چاہا،مولانا کوثر یزدانی صاحب نے کہا:۔”ارے آپ انھیں نہیں جانتے،یہ مترجم قرآن مولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب ہیں۔“
اس کے بعدمولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ سال میں دو چارملاقاتیں ضرور ہوجاتی تھیں،اس لیے کہ میرا دہلی بکثرت جانا ہوتا تھا،مولانا سے ملاقات کے وقت میں اس بات کا ضرور خیال رکھتا کہ ان کا زیادہ وقت نہ لوں،کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک مصنف کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے جب کہ وہ مطالعہ یا تحریر میں منہمک ہو،اس لیے کہ ذہن میں بہت سے خیالات و نکات گردش کرتے رہتے ہیں،جو ملاقاتی کے آنے سے ڈسٹرب ہوجاتے ہیں،بعض مرتبہ تو میں اسی احتیاط کی بنا پر ان سے بغیر ملاقات کیے واپس چلا آتا تھا۔
مولانا سے میرے مراسم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا نے میری کئی کتابوں پر مقدمے لکھے۔ان کا مطالعہ وسیع تھا،نظر گہری تھی،کسی کتاب پر ان کا مقدمہ اس کتاب کو سند اعتبار بخشتا تھا۔مولانا تصنیفی بورڈ کے بھی رکن تھے،جس کی سفارش پر مرکزی مکتبہ سے کتابیں شائع ہوتی تھیں،چنانچہ انھوں نے میری کئی کتابوں کے لیے سفارش بھی کی۔میں نے اپنے ایک دوست کی فرمائش پر جب روزہ و رمضان لکھی تو اس کا مسودہ مولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب کے پاس گیا۔مولانا نے مجھ سے کہا کہ آپ نے بہت اچھے انداز سے روزے کے فضائل،مسائل اور مقاصد پر روشنی دالی ہے،میری خواہش ہے کہ باقی ارکان دین پر بھی اسی انداز سے کتابیں تحریر فرمائیں۔آپ ہی کے مشورے پر میں نے عبادات نامی کتاب تصنیف کی،جسے علمی حلقوں میں خاصٰ پذیرائی حاصل ہوئی۔
جب تک مرکز و مکتبہ چتلی قبر میں رہا،تو مولانا کی رہائش بھی وہیں رہی،بلکہ مولانا تو وہاں سے جب منتقل ہوئے جب کہ چتلی قبر کی عمارت کو توڑنے کا سلسلہ شروع ہوا،مولانا کو پرانی دہلی سے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ ابوالفضل آنا ہی نہیں چاہتے تھے،یہاں آکر بھی وہ مہینہ میں ایک بار پرانی دہلی ضرور جاتے تھے،وہاں ان کے بہت سے عقیدت مند تھے، انھوں نے برسوں جامع مسجد دہلی اور چتلی قبر دفتر جماعت اسلامی میں درس قرآن دیا تھا۔درس قرآن کی بات سے یاد آیا کہ مولانا کا درس سونے والوں کو جگا دیتا تھا،ان کی آواز کا زیر بم،کسی ایٹم بم سے کم نہیں تھا۔وہ قرآن کے ایسے رموز بیان کرتے تھے کہ سننے والے فرط حیرت سے مولانا کا منہ تکتے رہ جاتے تھے۔قرآن کے بارے میں وہ اکثر کہا کرتے تھے:””قرآن کا معجزہ ہے کہ یہ کتاب عوام کے لیے بھی ہے، خواص کے لیے بھی اور خواص الخواص کے لیے بھی۔ آدمی جتنا گہرا ہوگا کتاب اتنی گہری ہوتی جائے گی اور آدمی جتنا بلند ہوگا کتاب اتنی بلند ہوتی جائے گی اور آدمی جتنا سادہ ہوگا کتاب اتنی ان کے لیے سادہ ہوتی جائے گی۔“
ان کی دل چسپی کا سب سے ترجیحی میدان قرآن تھا،جماعت اسلامی کے لیے قرآن پاک کا سب سے پہلے ہندی ترجمہ انھوں نے اس وقت کیا جب مرکز جماعت رام پورمیں تھا،اس کے بعد ایک اور ترجمہ کیا،پھر مولانا مودودی ؒ کے اردو ترجمہ کا ہندی ترجمہ کیا،انھوں نے ہندی میں قرآن کی تفسیر بھی لکھی،ان کے پاس قرآن مجید کے نادر اور،قدیم نسخے بھی تھے،اور تراجم قرآن بھی بڑی تعداد میں تھے،ان کی ذاتی لائبریری کا بڑا حصہ قرآنیات پر مشتمل تھا۔ہر وقت قرآن میں غورو فکر کرنا ان کا مشغلہ تھا،وہ کم گو تھے،زیادہ تر خاموش رہتے تھے،بے نیازی ان کی صفت تھی،چلتے پھرتے بھی ایسا لگتا جیسے کہ کچھ سوچ رہے ہوں،شاید قرآن کی کسی آیت کی پرتیں کھول رہے ہوں۔
ان کا دوسرا میدان ہندو مذہبی کتابیں اورہندوؤں کی مقدس شخصیات سے وابستہ تھا۔اس موضوع پر انھوں نے کئی تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔وہ ہندی ساہتیہ ٹرسٹ،مدھر سندیش سنگم سے بھی وابستہ تھے،وہ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑ ھ کی صدر رہ چکے تھے۔ہندی میں وہ اپنے زمانے کے ایم اے تھے۔برادران وطن میں دعوتی کام اور ان سے انسانی تعلقات کے قیام پر وہ ہمیشہ توجہ دلاتے رہتے تھے،خود بھی بڑے بڑے آچاریوں اورشنکرآچاریوں سے بھینٹ کرتے رہتے تھے،ان کے درمیان اسلام کا پیغام پہنچا تے تھے،ان کی گفتگو سے ہندو مذہبی شخصیات بہت متاثر ہوتی تھیں۔
مولانا محمد فاروق خاں ؒ صاحب شاعر بھی تھے،فرازؔ ان کا تخلص تھا،ایک مجموعہ ’حرف و صدا‘ کے نام سے اور دوسرا ’کلیات فراز‘ کے نام سے منظر عام پر آچکے ہیں۔میرا احساس ہے کہ شاعری ان کی خانگی زندگی کی تلخیوں کا نتیجہ تھی۔میرے اس ا حساس کا ثبوت خود ان کا یہ شعر ہے:
کچھ زمانے سے کچھ اپنے سے گلہ تھا جس میں
شاعری اپنی وہ الہام ہوئی جاتی ہے
ان کی شادی مولانا وحید الدین خاں ؒ صاحب کی صاحب زادی سے ہوئی تھی،وہ جامعہ ملیہ میں پروفیسر تھیں،کہتے ہیں (واللہ اعلم)کہ مولانا وحید الدین خان صاحب نے زبردستی اپنی بیٹی کو طلاق دلوائی تھی،جس کا مولانا کو تاعمر قلق رہا،انھوں نے دوسری شادی نہیں کی،ظاہر ہے ہر انسان کو ایک شریک حیات کی ضرورت ہوتی ہے۔پھر مولانا کی اولاد مولانا سے دور رہتی تھی،مولانا اپنا زیادہ تروقت اکیلے بسر کرتے تھے۔جب کمزور ہوئے توپرانی دہلی میں ان کا ایک عقیدت مند ان کی خدمت کرتا تھا۔ابوالفضل مرکز جماعت میں ملازمین ان کی دیکھ بھال کرتے تھے۔مولانا خادموں کو ضرورت بھر ہی تکلیف دیتے تھے،ان کا یہ مزاج نہیں تھا کہ ہر وقت کوئی خادم ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا رہے،بلکہ وہ تنہائی کو اپنے لیے زیادہ بہتر خیال کرتے تھے،اس لیے کہ غورو فکر اور تصنیف و تالیف کا کام تنہائی ہی میں ہوسکتا ہے۔
مولانا کی شاعری پر میرا تبصرہ کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔میں ان کے مجموعہ کلام ’حرف و صدا‘ مطبوعہ 1991کے صفحہ 15سے پروفیسر ملک زادہ منظور کا اقتباس نقل کرتا ہوں،پروفیسر صاحب کا تعلق نہ جماعت اسلامی سے تھا اور نہ ادارہ ادب اسلامی سے،وہ خالص غزل کے شاعر تھے۔اس لیے ان کی گواہی ادبی دنیا کے لیے جس قدر معتبریت کا درجہ رکھتی ہے،شاید اس قدر ہم فکر افراد کی نہ رکھتی ہو۔ملک زادہ منظور لکھتے ہیں:
”غزل اگر اپنی روایتی بنیادوں پر قائم رہتے ہوئے عصری تقاضوں کو پورا کرے اور ان تمام اعلیٰ و ارفع قدروں کو آئینہ دکھلائے جو ماضی نے ہمارے سپرد کی ہیں تو میرے لیے وہ اک اچھی غزل ہے۔میں نے محمد فاروق خاں ؒ فراز سلطان پوری کا کلام جستہ جستہ پڑھا ہے اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ ان کے کلام کے اندر روایت کے صنم کدوں کا نور،عصر حاضر کی تمازت،اور اخلاق و معارف کے ساتھ ساتھ بصائر و تاملات کے بھی بہت سے پہلو نکلتے ہیں اور وہ زندگی اور ادب کی ان قدروں کے شارح اور وصاف ہیں جنھیں انسانیت نے ہر دور میں عزیز رکھا ہے۔وہ فن کی قدیم اور مستحکم بنیادوں پر غزل سرا ہوتے ہیں اور ان کی آواز صدیوں کا سینہ چیرتی ہوئی جب ہمارے کانوں تک پہنچتی ہے تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری اچھی ادبی روایتوں اور ہمارے عہد کی ملی جلی بازگشت ہے اور اسی لیے یہ بات بڑے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ فاروق خاں ؒ فرازؔقصہ قدیم و جدیدسے بالا تر ہوکر ہمارے عہد کے ایک خوش فکر شاعر ہیں جو فن کے تمام لوازمات اوار لتزامات سے نہ صرف باخبر ہیں بلکہ انھیں سلیقے سے برتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔۔۔۔۔“(حرف و صدا صفحہ 15)
مولانا بذلہ سنج انسان تھے،ان کی تقریر اور دروس میں بھی یہ بذلہ سنجی دیکھنے کو ملتی تھی،کبھی کبھی لوگ خوب ہنستے تھے،لیکن اگلے ہی پل وہ محفل میں سنجیدگی پیدا کردیتے تھے،ان کے پاس بیٹھیے تو وقت کا پتا ہی نہیں چلتا تھا،ایک کے بعد ایک قصے سناتے،بزرگوں کے واقعات پیش کرتے،قرآن و حدیث کی کوئی انوکھی بات بتاتے،کبھی اپنے اشعار بھی سنا کر محظوظ کرتے،اسی کے ساتھ مہان نوازی بھی کرتے،ان کے پاس جو الیکٹرک کیتلی تھی اس میں پانی ہر وقت گرم رہتاتھا،اپنے ہاتھ سے دم چائے بنا کر پلاتے تھے۔
مولانا کسی عہدے کے خواہش مند کبھی نہیں رہے۔ادارہ تحقیق و تصنیف کی صدارت سے بھی از خود الگ ہوگئے تھے۔ان کے ذوق کا جو میدان تھا میرا خیال ہے کہ عہدے اور مناصب کے ذوق کی تسکین کے لیے سد راہ تھے۔مناصب سے دور رہنے کا نتیجہ تھا کہ مولانا سو سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ان کی زیادہ تر کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی سے شائع ہوئی ہیں۔
ہر شخص کو ایک دن جانا ہی ہے،لیکن بعض لوگوں کا رخصت ہونا قلب و جگر پر گراں گزرتا ہے،ان ہی میں سے ایک مولانا فاروق خاں ؒ صاحب کا بھی جانا ہمارے لیے تکلیف کا باعث ہے۔مولانا سے میرے تعلقات کم و بیش پچاس سال پر محیط ہیں،میں نے ان کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے اور براہ راست ان کے دروس و خطابات سے بھی،جماعت کے اہم پروگراموں میں مولانا ہی کا درس ہوتا تھا۔وہ ہماری دنیا سے رخصت ہوگئے،لیکن مجھے امید ہے کہ حدیث ”ورَجُلان تَحَابَّا فی اللَّہِ، اجْتَمَعَا عَلَیْہِ، وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ(متفق علیہ)کے مطابق ان شاء اللہ ہم ان سے جنت میں ملیں گے۔اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے۔جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے۔آمین