جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول
جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں بقائے باہم کے اصول ✍️ مسعود جاوید ___________________ پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا […]

انس بجنوری

عدل کی تاریخ کا روشن نشاں فاروق ہے!

انس بجنوری 

سیدنا عمر فاروق ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن سے مجھے شدید تر روحانی عقیدت ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی مسلمان آپ کی شخصیت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا…. کیسے آپ نے اسلام کا پرچم، عدل و انصاف اور حق آشنا تلوار کے ساتھ دنیا میں پھیلایا اور اسلامی سلطنت کی بنیادیں وسیع کیں۔حضرت عمر کی شخصیت پر میرے نزدیک مصر کے محمد حسین ہیکل کی کتاب "سیدناعمر فاروق” اور علامہ شبلی کی "الفاروق” دونوں بہترین کتابیں ہیں…الفاروق اگرچہ میں ایک بار پڑھ چکا تھا ؛ مگر برادر مکرم مولانا محمود الرحمن حفظہ اللہ کی تحریض پر ایک بار پھر "الفاروق” کی ورق گردانی کا موقع ملا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسلام کے وہ عظیم کردار ہیں کہ جن پر پیغمبر خدا ﷺ کے بعد شاید سب سے زیادہ لکھا گیا اور مسلسل لکھا جا رہا ہے۔ اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی علامہ شبلی نعمانی کی "الفاروق” بھی ہے جو اپنے موضوع پر ایک گراں قدر تصنیف سمجھی جاتی ہے۔ شبلی کو اپنی کتابوں میں الفاروق سب سے زیادہ پسند تھی، اسے وہ اپنی غزل مرصع کہتے تھے۔الفاروق ایک ایسی کتاب ہے کہ جس پر علامہ شبلی بہت زیادہ فخر کرتے تھے،یہ کتاب ان کی محققانہ نظر،علمی دیانت داری اور مؤمنانہ ذہانت و فراست  کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ایسا بالکل نہیں کہ علامہ شبلی نے اس میں جو کچھ بیان کیا وہ صد فی صد درست ہے اور اس سے ذرہ برابر اختلاف کی گنجائش نہیں؛ مگر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس موضوع پر اتنی جامع،اتنی علمی اور تاریخی اعتبار سے اتنی تحقیقی کتاب ابھی تک بازار میں دستیاب نہیں۔

الفاروق تاریخ کی اہمیت،تاریخ کے آغاز اور فن تاریخ کے وجود پر روشنی ڈالتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور سیدنا عمر کی پیدائش،سلسلۂ نسب،قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے حالات بتاتے ہوئے خلافت عمری کے زریں دور پر جا پہنچتی ہے۔یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے، پہلے حصے میں تمہید کے علاوہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ولادت سے وفات تک کے واقعات اور فتوحات ملکی کے حالات ہیں۔دوسرے حصے میں ان کے ملکی و مذہبی انتظامات اور علمی کمالات اور ذاتی اخلاق اور عادات کی تفصیل ہے اور یہی الفاروق کا دوسرا حصہ مصنف کی سعی و محنت کا تماشا گاہ ہے۔”الفاروق” سیدنا عمر ؓ کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو اور آپ کے نظام حکومت کے مختلف اجزاء کو بڑی خوب صورت انداز میں بیان کرتی ہے۔الفاروق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے دوسرے فاتحین اور سیدنا عمر کی فتوحات میں کتنا فرق ہے،الفاروق ہمی بتاتی ہے کہ حضرت عمر نے بہت سی چیزوں میں حیرت انگیز نکھار پیدا کیا،مثلا: ٹیکس کے انتظامات، عدالت کا مکمل نظام، بیت المال کا شعبہ، بڑے شہروں کی آبادکاری، فوج کا شعبہ اور اس میں اصلاحات، علم کا شعبہ اور علم کے فروغ کی کوششیں، ذمی رعایا کے حقوق، غلامی کا رواج کم کرنا، سیاسی فیصلے، سیاست و تدبیر کے ساتھ عدل و انصاف کا نظام۔ ان کے علاوہ کتاب یہ بھی بتاتی ہے کہ سیدنا عمر ؓ نے انتظامی امور میں مسلمانوں کے اندر، عرب دنیا میں اور عمومی دنیا میں کیا اور کونسی نئی چیزیں متعارف کروائیں جو ان سے پہلے نہیں پائی جاتی تھیں۔اس سوانح کو مرتب کرنے کے لیے مولانا شبلی نے نہ صرف ہندوستان کے کتب خانوں سے استفادہ کیا؛ بل کہ روم ،مصر اور شام کے کتب خانوں کو بھی چھان مارا ہے!

عمر فاروق کے شان دار دور خلافت کا جو نقشہ شبلی نے اپنے قلم سے کھینچا ہے۔ وہ خود اپنی مثال ہے،سیدنا عمر فاروق جہاں ایک باہمت،نڈر،بےخوف اور ناقابل یقین رعب و دبدبے کے مالک تھے؛ وہیں ایک بے مثال منتظم اور قابلِ رشک حکیم و نباض بھی تھے،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بائیس لاکھ مربع پر خلافت کا جھنڈا گاڑا اور کہیں سے بھی اندرونی بغاوت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔وہ افراد ساز بھی تھے اور انسانی نفسیات سے بھی بھرپور واقف تھے،جس کا اندازہ علامہ شبلی کے اس اقتباس سے لگ سکتا ہے: 

"یہ بات عموماً مسلم ہے کہ جوہر شناسی کی صفت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سب سے بڑھ کر تھی۔ اس کے ذریعہ سے انہوں نے تمام عرب کے قابل آدمیوں اور ان کی مختلف قابلیتوں سے واقفیت پیدا کی تھی اور انہی قابلیتوں کے لحاظ سے ان کو مناسب عہدے دیے تھے۔ سیاست و انتظام کے فن میں تمام عرب میں چار شخص اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن سمیہ۔ چنانچہ ان سب کو بڑی بڑی ملکی خدمتیں سپرد کیں اور درحقیقت ان لوگوں کے سوا شام و کوفہ و مصر پر اور کوئی شخص قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔

جنگی مہمات کے لیے عیاض بن غنم، سعد وقاص، خالد،نعمان بن مقران وغیرہ کا انتخاب کیا۔ عمرو معدی کرب اور طلحہ بن خالد اگرچہ پہلوانی اور سپہ گری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے؛ لیکن فوج کو لڑا نہیں سکتے تھے۔ اس لیے ان دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ ان کو کسی حصہ فوج کی افسری نہ دی جائے۔۔ زید بن ثابت و عبد اللہ بن ارقم انشاء و تحریر میں مستثنیٰ تھے۔ ان کو میر منشی مقرر کیا۔ قاضی شریح، کعب بن سور، سلمان بن ربیعہ، عبد اللہ بن مسعود فصل قضایا میں ممتاز تھے۔ ان کو قضا کی خدمت دی۔ غرض یہ کہ جس کو جس کام پر مقرر کیا وہ گویا اسی کے لئے پیدا ہوا تھا۔ اس امر کا اعتراف دیگر قوموں کے مؤرخوں نے بھی کیا ہے۔”۔

اسی طرح سیدنا عمر فاروق کی بے مثال کامیابی کی وجہ ذکر کرتے ہوئے علامہ شبلی نے لکھا کہ:

"سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول عام بنایا اور جس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت احکام کو بھی گوارا کر لیتے تھے، یہ تھی کہ ان کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا۔ جس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات سے ناراض ہوتے کہ وہ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کا مطلق پاس نہیں کرتے؛ لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ خاص اپنی آل و اولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتاؤ ہے تو لوگوں کو صبر آ جاتا تھا۔

ان کے بیٹے ابو شحمہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے اسے 80/ کوڑے مارے اور اسی صدمہ سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ (ابو شحمہ کے قصے میں واعظوں نے بڑی رنگ آمیزیاں کی ہیں۔ لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ان کو شرعی سزا دی اور اسی صدمہ سے انہوں نے انتقال کیا۔ (دیکھو معارف قتیبہ ذکر اولاد عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ)۔ قدامتہ بن مظعون جو ان کے سالے اور بڑے رتبے کے صحابی تھے۔ جب اسی جرم میں ماخوذ ہوئے تو علانیہ ان کو 80/ درے لگوائے۔”

 تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ لیں! عمر بن خطاب رض جیسا حکمران زمین نے آج تک نہ دیکھا ہوگا، آپ کی شخصیت بھی کیا کرشماتی ہوگی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا کر کے آپ کو نور ہدایت سے آشنا کروایا. اور اس کفر کے ماحول میں عمر رض کتنے بارعب تھےکہ آپ رض کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں نے کھلم کھلا اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ جلیل القدر صحابی ہیں جن کے عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں سے آج بھی تاریخ اسلام لالہ زار ہے….دنیا نے ہزارہا انقلاب دیکھے ہوں گے مگر وہ زبردست اور ہمہ گیر انقلاب کو مجموعی طور پر عمرفاروق کی خلافت سے وجود پزیر ہوا اس کی مثال کہاں مل سکتی ہے بھلا…؟ 

ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ بےخوف حکمران ﺗﮭﮯ ﮐﮧ انھوں ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ  ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ سپہ سالاری سے ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ منٹوں میں ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔

دنیا کو ایک نیا نظام دینے والے اس مرد جری کی شہادت کا واقعہ بھی اتنا ہی الم ناک اور عبرت انگیز ہےحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی وجہ صرف ان پہ ایک مجوسی غلام کا قاتلانہ حملہ نہ تھی بلکہ وہ تو صرف ایک مہرہ تھا اس تمام سازش کا جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف کی گئی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اس تحریک کے نتیجے میں ہوئی جو فارس ایران سے ان کے خلاف اٹھی۔ صدیوں سے قائم ناقابل تسخیر سلطنت فارس جنگ قادسیہ میں شکست اور دارالحکومت مدائن کی فتح کے بعد اپنے تمام تر عراقی مقبوضات کھو بیٹھی۔ فارسی شہنشاہ یزدگرد ایران بھاگ گیا اور مسلمان لشکر ایران کی سرحد تک پہنچ گئے تھے مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ایرانیوں کی شر انگیزیوں کے باعث ایک دفعہ آپ نے فرمایا تھا کہ ممکن ہوتا ایران اور ہمارے درمیان ایسی اونچی دیوار ہوتی کہ نہ وہ ادھر آسکتے اور نہ ہم ادھر جا سکتے۔ کچھ عرصہ تو مسلمانوں نے ایران میں پیش قدمی نہ کی مگر اب ایرانی افواج ایران میں یزدگرد کے گرد جمع ہوکر مسلمانوں سے پھر عراق واپس لینے کی تیاریوں میں مصروف تھیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمان افواج کو ایران میں داخل ہونے کا حکم فرمایا۔ 642ء میں جنگ نہاوند اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں ایرانیوں کے مضبوط قلعے تستر کی فتح کے بعد فارسیوں کی قوت ٹوٹ گئی یزدگرد مرو کی طرف بھاگ گیا اور بعد ازاں قتل ہوگیا جبکہ ایرانیوں کا اہم کمانڈر ہرمزان جو تستر کے دفاع پہ مامور تھا گرفتار ہوگیا یوں قدیم سلطنت فارس کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔۔۔۔بلاشبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت محض ایک ایرانی غلام کا ان پہ قاتلانہ حملہ نہیں بلکہ ایران پہ اسلامی فتح کے جواب میں وہاں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف اٹھنے والی اس تحریک کے نتیجے میں ہوئی جس کی جڑیں ایرانی تہذیب و ثقافت میں بہت گہری تھیں۔بے شک ایران فتح ہوگیا تھا وہاں کی اکثریت نے اسلام قبول کیا مگر وہاں سے ساسانی سلطنت کا اثرو رسوخ اتنی جلدی گیا نہیں اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر ان کی شہادت کی منصوبہ بندی کی۔

زندگی کی آخری سانسیں تھیں جب عمر نے اپنا چہرہ زمین پر رکھ دیا ۔ پھر یہ جملے کہتے کہتے جان دے دی:

"عمر اور اس کی ماں تو ہلاک ہو گئے اگر اللہ عمر پر رحم نہ کرے”

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک رکھا ہوا تھا جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے:

"عمر! اللہ تم پر رحم کرے ۔ تم نے اپنے بعد کوئ ایسا شخص نہیں چھوڑا جسے دیکھ کر مجھے تمنا ہوتی کہ اس جیسے اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں”۔

لوگوں کے پاس وصال عمر کی خبر پہنی تو اہل مدینہ نے صدا لگائی: ان القیامۃ قد قامت(بیشک آج قیامت قائم ہوگئ) ۔ ابن عباس اہل مدینہ کے حال معلوم کرنے نکلے تو کہنے لگے:

"کوئ گھر ایسا نہیں جسے میں غم سے نڈھال روتا ہوا نہیں پاتا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اکلوتا بیٹا فوت ہو گیا ہو” عبداللہ ابن مسعود شدت غم سے ایسے روئے کہ زمین تر ہو گئ ۔ پھر آخری الفاظ یہی کہے :

"عمر تم تو اسلام کا قلعہ تھے ، تم تھے تو لوگ اس میں داخل ہوتے تھے ۔ تمہارے جانے نے اس قلعے میں شگاف ڈال دیا اور لوگ اسلام سے نکلنے لگے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: