مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ،نائب ناظم امارت شرعیہ ، پٹنہ
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھار کھنڈ کے نائب ناظم ،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری، مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی چیوٹ، قاضی نو رالحسن میموریل اسکول پھلواری شریف اور دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے سکریٹری مولانا سہیل احمد ندوی کا25؍جولائی 2023 مطابق 6محرم الحرا م 1445بروز منگل کٹک سے120کلو میٹردور بالو گاؤں مسجد میں ظہر کی سنت ادا کرتے ہوئے دوسری رکعت کے دوسرے سجدہ میں 1بج کر16منٹ پرانتقال ہو گیا،جنازہ کی ایک نماز بعد نماز عصر بالو گاؤ ں مسجد کے صحن میں مولانا صبغت اللہ قاسمی معاون قاضی امارت شرعیہ کٹک نے پڑھائی ،دوسری نماز جنازہ بعد نماز مغرب ٹوٹی پارہ، اڈیشہ میں ادا کی گئی ،پٹنہ میں جنازہ کی نماز 12بج کر 15 منٹ پر امارت شرعیہ پھلواری شریف کے احاطے 26جولائی کو قائم مقام ناظم امارت شرعیہ مولانا محمد شبلی قاسمی نے پڑھائی اس کے بعد جنازہ ان کے آبائی گاؤں بگہی،تھانہ دیوراج ،بلاک لوریا موجودہ ضلع مغربی چمپارن لے جایا گیا، آخری نماز جنازہ کی امامت حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نائب امیر شریعت نے کی، دونوں جگہ علی الترتیب مفتی وصی احمد قاسمی، مفتی محمد سہراب ندوی قاسمی ، حضرت نائب امیر شریعت اور قائم مقام ناظم نےجنازہ کی نماز سے قبل خطاب فرمایا، جنازہ کے بعد آبائی قبرستان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں تدفین عمل میں آئی۔پس ماندگان میں اہلیہ دو لڑکے اور ایک لڑکی کو چھوڑا۔ امارت شرعیہ کے تمام شعبے اور اس کے ذیلی ادارے ہوسپٹل ،ٹکنیکل،دارالعلوم الاسلامیہ اور المعھد العالی کے ذمہ داران، کارکنان،اسا تذہ ،طلباءاور مسلمانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔مجھے بھی دونوں جگہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔
مولانا سہیل احمد ندوی بن شکیل احمدبن وکیل احمد بن شیخ عدالت حسین جالیاکی پیدائش بگہی گاؤں کے ایک زمین دار اور متمول گھرانے میں سرکاری کاغذات کے مطابق ۵؍ جون 1962ء کو ہوئی، ان کے پردادا شیخ عدالت حسین جالیا،مجاہد آزادی اورگاندھی جی، مولانا ابوالمحا سن محمد سجادؒ وغیرہ کے رفقاء میں تھے،ابتدائی تعلیم گاؤ ں کے مکتب سے حاصل کرنے کے بعد حفظ قرآن کے لئے جامعہ اسلامیہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن میں داخل ہوئے اور وہیں سے حفظ کی تکمیل کی،1976 میں مدرسہ اسلامیہ بتیا آگیے اور عربی وفارسی کے ابتدائی درجات کی تعلیم یہاں پائی، 1979میں دار العلوم دیو بند میں داخلہ لیا اور عربی ششم کی تعلیم کے بعد قضیہ نامرضیہ کے زمانے میں وہ دارالعلوم چھوڑ کر ندوۃ العلماء لکھنؤ چلے آئے اور یہیں سے 1987میں امتیازی نمبرات سے فضیلت کی سند حاصل کی، دوران طالب علمی وہ جمعیۃ الاصلاح کے سکریٹری بھی رہے، فراغت کے بعد حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ( جو ان دنوں ناظم امارت شرعیہ تھے ) کے حکم سے دفتر نظامت میں بیٹھ کر مبلغین حضرات کی رپورٹ کی اصلاح کرکے نقیب میں دینے کی ذمہ داری تفویض ہوئی، تین ماہ تک نقیب میں اللہ کی باتیں اور رسول اللہ کی باتیں بھی لکھتے رہے، پھر حضرت امیر شریعت رابع ؒ کی اجازت سے دفتر نظامت میں کارکن کی حیثیت سے بحال ہوئے۔پہلے معاون ناظم،پھر نائب ناظم ،اس کے بعد ٹرسٹ کے سکریٹری منتخب ہوئے،مفتی جنید صاحب کے بعد دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے ناظم بنائے گئے اور زندگی کی آخری سانس تک ان عہدوں کے تقاضے کو پورا کر تے رہے،کٹک کا سفر بھی یو نیفارم سول کوڈکے خلاف بیداری مہم کے لئے کیا تھا،راور کیلا سے وہ ۲۵؍جولائی کو کٹک پہونچے تھے،120کلو میٹر دوربالو گاؤں میں انہیں ایک اجتماع کو خطاب کرنا تھا، ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا،سنت کی نیت باندھی ایک رکعت مکمل کیا اور دوسری رکعت کے دوسرے سجدے میں چل بسے،دین کے کام کے لئے سفر،مسافرت کی موت اور وہ بھی سجدے میں سبحان اللہ العظیم کہتے ہوئے، مغفرت اور بخشش کے کتنے اشارے اللہ نے جمع کر دئیے ہیں۔
مولانا کی ذاتی زندگی انتہائی سادہ تھی، جتنے عہدے ان کے پاس امارت شرعیہ کے تھے اس میں وہ چاہتے تو ہر جگہ چار چکہ سے جاتے، ان کے شعبہ میں گاڑیاں دستیاب بھی ہیں، اور خود ان کے پاس اپنی گاڑی بھی تھی لیکن انہوں نے اپنا چلن اور روش نہیں بدلی اور نہ کبھی بڑے عہدوں پر فائز ہو نے کی وجہ سےاپنا سماجی اسٹیٹس بڑھانے کی کوشش کی، وہ ایک بائیک رکھے ہوئے تھے، ہر جگہ اسی سے دوڑ لگاتے ، گاڑی کا استعمال شاید بایدہی کبھی کرتے، بڑے عہدے پر متمکن ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم عہدوں کے اعتبار سے دوسروں سے بڑے ہیں، وہ سب سے گھل کر ملتے، مزاج میں ظرافت تھی، اس لیے مجلس کو باغ وبہار بنائے رکھتے، جنازے میں امنڈنے والی بھیڑ اور تعزیتی پیغامات سے لوگوں کو معلوم ہوا کہ وہ کس قدر مقبول تھے، دفتر سے زیادہ ان کے گاؤں جا کر معلوم پڑا کہ گاؤں ہی نہیں قرب وجوار کے لوگ بھی ان سے کس قدر محبت کرتے تھے۔
وہ جلد سونے اور سحر خیزی کے عادی تھے، قرآن کریم بہت اچھا پڑھتے تھے اور یاد بھی اچھا تھا، زمانہ تک امارت شرعیہ میں تراویح میں قرآن سنایا کرتے تھے اور ان کے پیچھے قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا سید نظام الدین صاحب رحمھما اللہ جیسی عبقری شخصیت ہوا کرتی تھی، بعد میں تلاوت کا معمول تو باقی رہا ، مگر امارت کے بیت المال کے استحکام اور دارالعلوم الاسلامیہ کی مالیاتی ضرورت کے لیے ہونے والے اسفار کی وجہ سے تراویح میں قرآن سنانے کا معمول جاتا رہا، وہ رات کے حصہ میں روزانہ بلا ناغہ سورۃ یٰسین اور سورہ واقعہ پڑھا کرتے تھے، سفر میں بھی یہ معمول باقی رہتا تھا۔
میں آج سے کوئی 20؍سال قبل مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی سے حضرت امیر شریعت سادس کے حکم پر امارت شرعیہ آیا اس زمانے میں وہ معاون ناظم ہوا کرتے تھے،انہوں نے زمانہ دراز تک قاضی نورالحسن میموریل اسکول کے سکریٹری کی حیثیت سے کام کیااور ابھی بھی وہ اس عہدہ پر متمکن تھے،وہ جری،ملنسار،اور انتظامی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے، پلاننگ، منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآوری کی شکلوں پر ان کی گہری نظر تھی،کئی لوگ انہیں دفتر میں ’’بھیا ‘‘کہا کرتے تھے۔ایڈ جسٹمنٹ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی،وہ ہر دور میں امراء شریعت کے معتمد رہے،دفتر کے ذمہ داران اور کارکنان ان کی صلاحیت کے قائل تھے،راقم الحروف سے ان کے تعلقات مخلصانہ تھے،امارت شرعیہ کے کاموں کو آگے بڑھانے میں ہم ایک دوسرے کے معاون ہوا کرتے تھے اور مشاورت سے کام آگے بڑھتا تھا،انتقال کے دن بھی ہم لوگوں نے صبح8؍بجے دیر تک زوم(ZOOM) پر مشورہ کیا تھا ،کیا معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی،اللہ مغفرت فرمائے پس ماندگان کو صبر جمیل اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔الوداع ،الوداع،الوداع انشاءاللہ اب قیامت میں ملاقات ہوگی۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین