۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مولانا سہیل احمد ندوی

ویراں ہے مے کدہ خم وساغر اداس ہے

شاہدعادل قاسمی ،پرنسپل مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ

"پیہم دواں ہر دم جواں "جیسی شخصیت کی روح قفس عنصری سے دنیا کی سب سے خیر والی جگہ مسجد میں دوارن سجدہ پرواز کر گئ،قابل رشک موت کی خبر سے جہاں دلی صدمہ پہونچا وہیں بارگاہ خداوندی کے قرب کی یقین بھی مستحکم ہوا،ملک میں یونیفارم یکساں سول کوڈ کی ہم واری کے لیے حکومت کمر بستہ ہے،لاءکمیشن آف انڈیا نے باشندگان ملک سے اپنی اپنی راۓ کو پیش کرنے کا اعلان بھی جاری کردیا ہے،14/جولائی 2023ءسے توسیع کرکے 28/جولائی 2023ءطے کردی گئی ہے،حکومت ہند کاآئین اور دستور کے خلاف اس بل کی حمایت پر ملک کے سیکولر اور جمہوریت پسند لوگ سراپا احتجاج بن چکے ہیں،ملک کی مختلف تنظیمیں اس بل کے نفاذ پر اپنی ناراضگی ظاہر کر چکی ہے،باوجود اس کے "لا کمیشن آف انڈیا” نے عوام الناس سے راۓ طلب کیا ہے،ملت اسلامیہ کو اپنی راۓ دہی کے لیے جہاں کافی ساری مسلم تنظیمیں پابند عہد بنا رہی ہیں، وہیں” امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ” نے بھی اس تحریک میں کلیدی رول ادا کیا ہے،امارت شرعیہ نے اس تحریک کو گاؤں گاؤں اور گھرگھر تک پہنچانے کی پوری کوشش کی ہے، امارت شرعیہ کا فرد فرد نے اس مہم میں مکمل حصہ داری کے لیے عوام سے رابطہ کیا ہے،چوک،چوراہے،نکڑ اور بازار سے لے کر مسجد کے منبر ومحراب تک سے اس پیغام کو عام کیا ہے،پرسنل لازپر اٹیک اورمداخلت کے اس گھناؤنے عمل کو خلاف قانون بتایا ہے،جس دن سے” لاکمیشن” نے راۓ طلبی کا مطالبہ کیا ہے، اسی دن سے امارت شرعیہ نے "یونیفارم سول کوڈ” کے نفاذ کےخلاف میں اپنی تحریک کو زمین پر مکمل تیاری کے ساتھ اتاردیا ہے،ٹیکنالوجی اور آپسی ملاقات سے اس بل کے خلاف اپنی راۓ دہی کے عمل کو آسان اور مفید بنایا ہے،اسی تحریک کی مضبوطی اور ملت اسلامیہ کی راۓ دہی کے لیے آپ اڑیسہ کے سفر پر ہیں، وقت ظہر قریب ہے،فرض کی ادائیگی بروقت ہو اسی ارادے سے آپ ایک عبادت خانہ کا رخ کرتے ہیں،حضور رب سرگوشی کرتے ہوۓ بہ حالت سجدہ آپ اپنے مالک حقیقی کے حوالے ہوجاتے ہیں،اس نیک فال موت پر ہمیں قرآن کریم کی یہ آیت برجستہ یاد آجاتی ہے* اذاجآء اجلھم لایستقدمون ولا یستاخرون *

ایسی موت پربھلا کون رشک نہ کرے،ایسی موت کی تمنا بھلا کون نہ کرے،ایسی موت پر بھلا کون خامہ فرسائی یا لب کشائی نہ کرے،ایسی بانصیب موت جسے نصیب ہوئ ہے ہم انھیں حصرت مولانا سہیل احمد ندوی سے جانتے ہیں ،جوامارت شرعیہ کے نائب ناظم،امارت شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئرٹرسٹ،اور مولانا سجاد میموریل ہسپتال کے سکریٹری ہیں،دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ کے جنرل سکریٹری اور المعہد العالی امارت شرعیہ کےاہم رکن ہیں،جن کا گاؤں مشرقی چمپارن( بتیا)میں ” بگہی ” ہےجو دیوراج حلقہ میں آتا ہے،جن کی پیدائش5/جون 1962ءمیں ایک متمول اور معروف تاریخی گھرانے میں ہوئ ہے،جن کے والد محترم "شکیل احمد” اور دادا "وکیل احمد "علاقے کے بااثر لوگوں میں سے ہیں،جن کے پردادا”شیخ عدالت حسین صاحب ” مجاہدین آزادی میں سے ہیں،جن کے دادا کو پورا علاقہ سماجی خدمات کی وجہ سے” سر سید ثانی” سے موسوم کیا کرتے تھے، اکابرین اور بزرگان دین سے آپ کےگھرانے کا رشتہ کافی قدیم ہے، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی،حضرت مولانا ابوالکلام آزاد،حضرت مولانا  ابو المحاسن محمد سجاد رحمہم اللہ  اور آنجہانی مہاتماگاندھی کی بیٹھک آپ کے گھرانے ہوا کرتی تھی،امارت شرعیہ سے انسلاک آپ کے گھرانے کا برسوں ہے،امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی مجایدالاسلام قاسمی رحمتہ اللہ علیہ سے آپ کے آباواجداد کا گہرا مراسم رہے ہیں ، آپ در اصل حضرت قاضی صاحب اور امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید محمد نظام الدین صاحب قاسمی کی دریافت ہیں،آپ کی ابتدائ تعلیم پہلے گاؤں میں ہوئ، بعدہ مدرسہ اسلامیہ قرآنیہ سمراہا چمپارن میں آپ نے حفظ مکمل کیا،حفظ کی تکمیل کے بعد” مدرسہ اسلامیہ بتیا "میں آپ نے ابتدائ فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی، 1979ءمیں دارالعلوم دیوبند میں آپ  داخل ہوۓ،دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے بعد جو قضیہ نامرضیہ پیش آیا اس نے آپ کو وطن لوٹا دیا،حالات کافی بگڑ چکے تھے،طلباء کو پی اے سی کے ذریعہ دارالاقامہ سے باہر کردیا گیاتھا،آپ گھر واپس آگئے، پھر میٹرک کی تیاری میں مصروف ہوگئے،ایک بار پھر آپ رخت سفر باندھ چکے تھے اور "ندوۃ العلماء  لکھنؤ "میں داخل درس ہوگئے،1986ءمیں امتیازی نمبرات سے آپ نے ندوہ سے سند فضیلت حاصل کی،فضیلت کے بعد آگے قدم بڑھانے سے قبل آپ قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی محمد مجاہدالاسلام قاسمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید محمد نظام الدین صاحب قاسمی رحمتہ اللہ علیہ سے مشورہ طلب کیا،حسب مشورہ آپ کو دفتر نظامت میں عارضی طورپرکارکن کی  حیثیت سے بٹھا دیا گیا،دفتر نظامت میں مبلغین کی طرف سے موصول کراۓ گئے رپورٹس کو نقیب میں شائع کرانے کی ذمہ داری آپ کے ذمے  سونپی گئی،تین ماہ کے بعد مذکورہ عہدہ پر مستقل بہ حال کرلیاگیا، اس بیچ آپ” نقیب” میں "اللہ کی باتیں” اور "رسول اللہ "کی باتیں بھی خوب لکھتے رہے،معمولی عہدے سے اعلی منصب پر فائز رہ کر امارت کی زندگی کو آپ نے نوکری نہیں بل کہ دینی زندگی سمجھ کر کاٹ لی، اپنی فعالیت اور جہد مسلسل سے آپ نے امارت کی ترقی میں بے مثال قربانی پیش کی،امیرشریعت رابع حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی،قاضی شریعت حضرت مولانا قاضی مجایدالاسلام صاحب قاسمی،امیر شریعت خامس حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید محمد نظام الدین صاحب قاسمی،امیر شریعت سابع حضرت مولانا  سید محمد ولی رحمانی صاحب، رحمہم اللہ، امیر شریعت ثامن حضرت مولانااحمد ولی فیصل رحمانی اورسابق ناظم امارت شرعیہ حضرت مولانا محمد انیس الرحمن صاحب قاسمی دامت برکاتہم العالیہ جیسے نابغہ روزگار شخصیتوں اور دوراندیشوں کے ساتھ اپنے مفوضہ فریضے کو دیانت داری سے انجام دیاہے، پوری زندگی آپ کی مخلصانہ رہی ہے، گلستان امارت کے خوب صورت پھولوں میں سے ایک نام آپ کا بھی ہوگا،حق گوئی،حق شناسائی،بے باکی، دلیری آپ کی فطرت ثانیہ تھی،جہاں آپ اخلاص وعمل کی علامت تھے؛ وہیں ایمانی فراست کے نادر مثال بھی تھے،جہاں آپ تعمیری فکر اورمجاہدانہ عزیمت کے سرچشمہ تھے، وہیں آپ ناقابل تسخیر قوت کے مجسمہ بھی تھے،جہاں آپ ذکاوت وذہانت کے پیکر تھے، وہیں آپ ہمیشہ ادارے کے اعلی ذمہ داروں کے دست وبازو بھی رہے،نئے حالات،نئے مسائل،نئے چیلینجز نئے اور پرانے دلوں کو صیقل  بھی کرلیا کرتے تھے۔

ہر اعتبار سے معمور شخص مکمل سادہ اور اخلاص کا دیوتا تھا،بناوٹ ہے نہ کوئ تصنع،ہنک ہے اور نہ ہی کوئ ٹھسک،اکڑ ہے نہ ہی کوئ گھمنڈ،بڑائی ہے اور نہ ہی کوئ کبریائی، جب بھی ملے مکمل خندہ پیشانی سے،ہشاش اور بشاش والے انداز سے، اپنائیت اور انسانیت والی ڈھال سے، ہر چھوٹے بڑے کو اپنا گرویدہ بناۓ رکھے،بےضرر اور مخلص بن کر زندگی جئے،گٹ بازی اور گروہ بندی سے کوسوں دور رہے،حق اور اہل حق کے لیے لڑتے رہے،عہد اور ایفاۓ عہد کی جیتی جاگتی تصویر رہے،ہاؤ بھاؤ اور ہٹو بچو سے بچتے رہے،امارت شرعیہ کی خدمات کو وسیع سے وسیع کرنے میں ہاتھ بڑھاتے اور بٹاتے رہے،جس شعبے کی ذمہ داری ملی اس میں ایمان داری سے مصروف عمل رہے،امارت کے پیغام کو جہاں جہاں لے جانے کی ذمہ داری ملی اسے بہ سرو چشم  قبول کرتے رہے بالآخر اسی مشن کی جدوجہد میں آج اپنی جاں جان آفریں کے حوالے کر گئے،باغباں ہی نہیں بل کہ کوہ گراں اور مکمل سماں کو بھی رلاگئے۔

آج آپ کی جسد خاکی امارت شرعیہ کے آنگن میں موجود ہے،سینکڑوں شیدائ اور منتسبین آخری دیدار سے عقیدت کے پھول نچھاور کررہے ہیں، قائم  مقام ناظم امارت شرعیہ حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب کی امامت میں نماز جنازہ پڑھی جارہی ہے،دوسری جماعت کے لئے آبائ گاؤں کا اعلان ہے،یہاں بھی خلقت کا ہجوم ہے،وسیع میدان میں دور دور تک انسانی سروں کا سیلاب ہے،حضرت نائب امیر شریعت مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی دامت برکاتہم العالیہ کا درد انگیز اور سحر انگیز خطاب جاری ہے،شکستہ دل اور نڈھال جسم سے جدائیگی پر اشکبار ہیں،سچے ساتھی اور رازونیاز والے ہمراز  کی مفارقت پر کلیجہ کو ہتھیلی پر لیے عوام الناس سے رو بہ رو ہیں،درد اور غم کا مداوا کیسے ہو؟خدا سے اس کی بھیک مانگ رہے ہیں، رحمت، مغفرت، بخشش،  ترقئ درجات اور کروٹ کروٹ جنت کی نصیب آوری کے لیے دست مبارک آسمان کی جانب کئےفریاد رس ہیں اور ہم سبھوں کی زبان پر بس یہی جاری ہے ۔

ویراں ہے مے کدہ خم وساغر اداس ہے 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: