تحریر: مسعودجاوید
سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم یہ ایک بے لگام ذرائع ابلاغ ہے جس کے توسط سے جھوٹی خبریں آڈیو ویڈیو اور تحریف کی ہوئی تصویروں سے عام لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے، نفرت پھیلائی جاتی ہے، کسی کی شبیہ داغدار کی جاتی ہے اور کسی کی عزت نیلام کی جاتی ہے۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے اور اگر اعتراض درج بھی کرایا جائے تو اس وقت تک تیر کمان سے باہر ۔۔ اب اگر ایسی پوسٹ ڈیلیٹ بھی کیا جائے تو اس کا کیا حاصل اس لئے کہ برق رفتار میڈیا لوگوں تک وہ زہر آلود خبر پہنچا چکا ۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ نشر کو انگریزی اصطلاح میں آن ایر کہتے ہیں یعنی ہوا کے دوش پر۔۔۔ اور ہوا کو کوئی روک نہیں سکتا ۔ ہوا میں آکسیجن ( مفید ہوا) بھی ہوتا ہے اور کاربن ڈائ آکسائڈ (مضر ہوا) بھی ۔ مضر ہوا کو کم کرنے کے لئے ہم مفید ہوا کی مقدار بڑھاتے ہیں اپنے ارد گرد ایسے پیڑ پودے اور گھروں میں زیادہ آکسیجن چھوڑنے والے پلانٹ گملوں میں لگاتے ہیں ۔
آج ہمارے ملک کی ہوا مسموم ہے ۔ بعض بلکہ اکثر مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا بالخصوص وہاٹس ایپ یونیورسٹی سالہا سال سے میسر صاف ستھری فرحت بخش ہوا اور پر امن فضا میں فرقہ واریت کا زہر گھول رہے ہیں ۔ جس طرح آکسیجن کی مقدار بڑھا کر کاربن ڈائی آکسائیڈ ہم ختم کرتے ہیں اسی طرح مسموم فضا کو ختم کرنے کے لئے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے:
- ہم معاشرہ کے لئے آکسیجن بنیں ہم اپنے اور اپنے دین کے انسانی پہلو سے دنیا کو بتائیں کہ ہم مضر نہیں مفید ہیں۔
- عزلت نشینی الگ تھلگ gheto میں رہنا قطعاً مفید نہیں ہے۔ صرف مسلم ایشو پر بات کرنے کی بجائے ملک کو درپیش مسائل بالخصوص مظلوموں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
- سنجیدہ ، سیکولر مزاج اور انسان دوست برادران وطن کے ساتھ رابطہ بڑھائیں۔
- ہم کسی پارٹی کے ورکر نہیں ہیں اور نہ ہمیں کسی کی طرف سے کسی کو ٹرول کرنے کے لئے ہر ٹرول کے عوض روپے دو روپے ملتے ہیں تو پھر سوشل میڈیا پر ہم ان موضوعات پر اتنے ایکٹیو کیوں رہتے ہیں! کیوں ” مدعی سست گواہ چست” کا کردار ادا کرتے ہیں!
مسلمانوں کے مسائل سے ملک و بیرون ملک لوگوں کو باخبر کرنے کے لئے ایک انگریزی اخبار کی ضرورت تھی اور ہے لیکن کیوں نہیں ہے اور ملی تنظیمیں میڈیا کی ضرورت اہمیت اور افادیت سے اس قدر لاپرواہی کیوں برتتی ہیں اس بابت بار بار لکھنے سے رنج و غم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
دو تین سال قبل بعض دانشوروں نے ملی ٹی وی چینل کے لئے تعاون کی اپیل کی تھی ۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا ؟ رہنے دیں ۔۔ بے خبری میں سکون ہے !
لیکن درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو لکھ دیتے ہیں ۔
ملک گیر سطح پر شائع ہونے والے انگریزی اخبار کی اشاعت تو مسلمانان ہند کا خواب ہی رہا ۔اب کم از کم سوشل میڈیا پر ہماری ملی تنظیمیں متحرک ہوں۔
فیک نیوز اس وقت بہت بڑا مسئلہ ہے اور ایسی ایسی ٹیکنالوجی مہیا ہیں کہ جن کے توسط سے سونے کو مٹی اور مٹی کو سونا بنا کر ایسا پیش کیا جاتا ہے کہ نقلی جعلی فیک اور جھوٹ کا گمان تک نہیں ہوتا ہے۔
اس کے لئے بعض نیٹ ورک جیسے محمد زبیر کا آلٹ نیوز وغیرہ قابلِ ستائش ہیں جو اپنے ریسرچ سے فی الفور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے پبلک ڈومین میں رکھ دیتے ہیں ۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کے لئے فیک نیوز کا استعمال ہوتا ہے اس کا دفاع کا بہترین وسیلہ تو ٹی وی چینل تھا لیکن اگر اس کے قیام میں ناکام رہے تو کم از ہماری ملی تنظیمیں ہر زبان میں یوٹیوب چینلز کے نشر واشاعت سے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانیوں کا دفاع کر سکتی ہیں ۔ ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔
"کون اس شہر میں سنتا ہے فغان درویش” !
اس وقت اعداد وشمار جمع کرنا پہلے کی بہ نسبت بہت آسان ہو گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب آنے سے ہر کام آسان ہوتا جا رہا ہے۔ کسی تنظیم کے پاس وژن ہو اور عزم مصمم اور بس ۔
معاشرہ کے کسی بھی طبقہ کی تعمیر وترقی کے لئے اس کے احوال و کیفیات جاننا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کیا کسی مرکزی تنظیم کے پاس ایسا کوئی شعبہ ( فعال برائے نام نہیں) ہے جس کے پاس ملک کے طول وعرض میں پھیلے مسلمانوں کے احوال و کیفیات پر مبنی ڈیٹا بینک ہو ؟-