۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

جامع مسجد بنارس گیان واپی، پروپیگنڈا مہم، سچ کیا ہے؟

مولانا عبدالحمید نعمانی 

مسجد گیان واپی کا اصل نام جامع مسجد بنارس ہے، اس لحاظ سے اس فریب آمیز مغالطے میں کوئی دم نہیں ہے کہ گیان واپی میں مسجد ہونے کا کیا مطلب ؟گزشتہ کئی صدی سے گیان واپی کوئی خاص مقام نہیں ہے بلکہ وہ بہ طور محلہ کے متعارف ہے، تاریخی و علمی شعور و ادراک کی کمی و فقدان کے سبب آر ایس ایس، بی جے پی کے نمائندے اور دیگر ہندوتو وادی عناصر، گیان واپی کے نام سے لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام کرتے رہتے ہیں، ہمیں آر ایس ایس، بی جے پی میں کوئی ایک فرد بھی نہیں ملا جو معتبر تاریخی استناد کے ساتھ منصفانہ بحث و گفتگو کر  کے سچائی کو ایمانداری اور دیانت داری سے سماج کے سامنے رکھنے کی کوشش کرے، اسکند پران کے کاشی کھنڈ میں گیان واپی کا ذکر ہے لیکن وہاں کاشی وشو ناتھ مندر اور اس کا مسجد کی جگہ  ہونے کا کوئی ذکر و امکان نہیں ہے اکثریت کے   ہندوتو وادی سماج پر مفروضہ کہانیوں و توہمات کا اس قدر اثر و غلبہ ہے کہ اسے شیو، رام، کرشن جیسے بڑے ناموں سے نفرت و محبت کا جذبہ پیدا کر کے کچھ بھی باور کرایا جا سکتا ہے ڈاکٹر کرشن ورما نے مسجد کی جگہ کاشی وشو ناتھ مندر ہونے کا انکار کرتے ہوئے پرانوں کو  مستند قدیم تاریخ اور کاشی کھنڈ کو سچی تاریخ بتایا ہے لیکن اس سے کسی طرح بھی جامع مسجد بنارس گیان واپی کی تعمیر کے وقت میں کاشی وشو ناتھ مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے، مزید یہ بھی کہ پرانوں سے تاریخی معاملے پر حتمی وو ضح فیصلہ کرنا ممکن نہیں ہے، اسے "کاشی کا اتہاس” کے مصنف ڈاکٹر موتی چندر نے بھی تسلیم کیا ہے، اسکند پران کے دو اڈیشن ہیں لیکن ایک اڈیشن دوسرے اڈیشن سے موافق نہیں ہے، 20/ہزار سے زائد شلوک کی کمی بیشی اور فرق ہے، مزید یہ کہ لالہ لاجپت رائے نے اپنی کتاب مہاراج شری کرشن میں پرانوں کو مستند تاریخ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے، انھوں نے لکھا ہے :

"ہم بلا تامل یہ کہتے ہیں کہ موجودہ پرانوں کو تاریخی منزلت حاصل نہیں ہے، موجودہ پرانوں میں خود اندرونی شہادت اس امر کی موجود ہے کہ وہ پرانے لٹریچر کے پران اتہاس(تاریخ )نہیں ہے بلکہ آریا قوم کے  زمانہ تاریک کی تصنیفات ہیں، ان میں سے بہت سی تو اس وقت کی لکھی ہوئی پستکیں ہیں جب کہ ہندو آریا پولیٹیکل آزادی کھو کر، دھرم نشٹ کرچکے تھے اور جب ان کو اپنے دھرم کو، اپنی عورتوں کے دامن عصمت کو محفوظ کرنے اور مقدس رواجوں کے قائم کرنے کے لیے اس قسم بدعتیں ایجاد کرنے کی ضرورت پڑی، ہر تعلیم یافتہ ہندو جانتا ہے کہ پرانوں کی تعداد 18/ہے اور ان کے علاوہ ایک کثیر تعداد  ایسی پستکوں کی ہے جو اپ پرانوں کےنام سے مشہورہیں اور یہ کتابیں اس قسم کے قصے، کہانیوں اور گپاسٹک سے پر ہیں کہ کوئی ذی ہوش معقول طریقے سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتا ہے کہ جو روایات ان میں مندرج ہیں وہ بعینہ صحیح ہیں،عموما ان کا بڑا حصہ تو خلاف عقل و نقل اور خلاف قانون قدرت، نیچر اور خلاف فہم اور خلاف قیاس تذکرات سے پر ہیں۔(دیکھیں مہاراج شری کرشن، از لالہ لاجپت رائے، مطبوعہ لالہ لاجپت اینڈ سنسس،تاجران کتب دہلی آٹھواں اڈیشن 1946’کتاب کے صفحات 12سے 28 تک قابل مطالعہ ہیں)

یہ بھی پڑھیں:

اس تناظر میں پرانک روایات اور کہانیوں کا تاریخی واقعات و حقائق کے سامنے کوئی زیادہ درجہ نہیں رہ جاتا ہے، جن کئی سارے ہندوتو وادی لکھنے والوں کی طرف سے اسکند پران کے کاشی کھنڈ کی تفصیلات کے مد نظر جس طرح جامع مسجد بنارس گیان واپی کی جگہ، ویشیشور مندر  باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور آج کی تاریخ میں بھی کی جا رہی ہے وہ سراسر غیر متعلق اور مفروضہ کہانی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے، ظاہر ہے کہ ایک موجود زندہ حقیقت، مسجد کے مقابلے میں کوئی دم و دلیل نہیں رکھتی ہے اسکند پران کے حوالے کو زیر بحث لانے کے معاملے میں راقم سطور کی کتاب، "جامع مسجد گیان واپی، حقیقت اور کہانی "میں خاصی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، اسکند پران کی تاریخی حیثیت کے تعین کے قطع نظر اس میں درج تفصیلات سے بھی دور دور تک کہیں سے اور کسی طرح سے بھی جامع مسجد بنارس گیان واپی کی تعمیر کے وقت اس کی جگہ کاشی وشو ناتھ مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے اور اس کا تو اور بھی دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے کہ اورنگزیب نے کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر اس کی جگہ اس کے باقیات سے جامع مسجد گیان واپی کی تعمیر کی تھی، بی بی سی ہندی کے سابق اڈیٹر جناب شیو کانت شرما نے 4/اگست 2024 کو ایک کثیر الاشاعت ہندی روزنامہ کے ادارتی صفحہ کے اپنے آرٹیکل میں بڑے بڑے دعوے کر کے قارئین کو گمراہ کن سمت میں لے جانے کی کوشش کی ہے، انھوں نے یہ بڑا دعوٰی کیا ہے :” تمام تر تاریخی تفصیلات، گیان واپی کا مندر کے روپ میں وجود کو ثابت کرتی ہیں لیکن ایسے ثبوتوں کو مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے "

مولانا عبدالحمید نعمانی

یہ صرف لفظوں کا گورکھ دھندہ اور گمراہ کن مغالطہ انگیز دعوے ہیں، پوری تحریر میں انہوں نے تمام تاریخی ثبوتوں کی بات تو دور، ایک بھی معتبر و واضح تاریخی ثبوت پیش نہیں کیا ہے جس سے شاہی احاطہ، جسے بعد میں گیان واپی کہا جانے لگا میں واقع جامع مسجد بنارس گیان واپی کے متعلق ثابت ہو کہ اسے اورنگزیب نے کاشی وشو ناتھ یا ویشیشور مندر کو توڑ کر تعمیر کی تھی ،پہلی بات تو یہی ثابت نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر اورنگزیب نے کی ہے، کسی بھی معاصر تاریخی شہادت سے  ثابت نہیں ہے کہ اس نے کاشی وشو ناتھ مندر کو منہدم کیا تھا، اب تک تمام تر دستیاب تفصیلات سے زیادہ سے زیادہ یہ سامنے آیا ہے کہ اورنگزیب نے سرکاری مقاصد اور حکومت وقت کے منشاء کے خلاف گمراہ کن نا پسندیدہ تعلیمات اور سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے کچھ نامعلوم عام قسم کے معابد(مندر، پوجا گھر )کو منہدم کرا دیا تھا اور پہلے سے تعمیر کردہ مندروں کو تحفظ فراہم اور پجاریوں کو کسی طرح پریشان نہ کرنے کا فرمان جاری کیا تھا، غلط سر گرمیوں میں ملوث عام قسم کے معابد کو کاشی وشو ناتھ، ویشیشور مندر کا نام دے کر مہم چلانے کے پس پشت یہ مقصد نظر آتا ہے ہندو سماج کو مشتعل و جذباتی بنا کر فرقہ وارانہ ماحول بنایا جائے، ماثر عالمگیری کے اصل فارسی متن میں کہیں بھی مخصوص و مذکور کاشی وشو ناتھ یا ویشیشور مندر توڑنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ،انگریزوں کے صوبہ متحدہ جات اور بنارس پر قبضے اور اورنگزیب کے انتقال 1707 کے بہت بعد کے دنوں میں اس کی طرف سے کاشی وشو ناتھ مندر توڑے جانے کا غلط پروپیگنڈا شروع کیا گیا، اس سے مسلم غیر مسلم دونوں طرف کے کچھ تاریخ نگاروں نے سرکاری مقاصد کے خلاف ناپسندیدہ سر گرمیوں میں لگے عام قسم مندر  توڑنے کو کاشی وشو ناتھ مندر توڑنے کا عنوان دے دیا، ظاہر ہے کہ یہ غلط نتیجہ اخذ کرنے کا معاملہ اور اصل متن کے خلاف بے بنیاد بات ہے، لیکن ان میں سے بھی کسی نے بھی مع جدو ناتھ سرکار کے،عام مندر کی جگہ یا کاشی وشو ناتھ مندر کی جگہ مسجد تعمیر کی بات نہیں کہی ہے، کسی لغت اور زبان میں عام انہدام کو خاص انہدام اور محض انہدام کا  لازما معنی تعمیر نہیں لکھا ہے اور عام مندر کا مطلب خاص  مخصوص مندر نہیں ہوتا ہے، ہم نے مندر فریق کے وکیل وشنو شنکر جین سے کئی بار پوچھا کہ کون سی معاصر تاریخ کی کتاب میں کاشی وشو ناتھ مندر توڑ کر موجودہ جامع مسجد بنارس گیان واپی کی تعمیر کا ذکر ہے تو وہ نہیں بتا سکے، سوامی دیپانکر نے ماثر عالمگیری کے ہندی ترجمہ میں یعنی ڈال کر اپنی بات بنانے کی کوشش کی، ہم نے اصل فارسی ماثر عالمگیری دکھاتے ہوئے دریافت کیا کہ اس میں کہاں پر کاشی وشو ناتھ مندر توڑنے کا ذکر ہے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے، ماثر عالمگیری میں نہ تو وشو ناتھ مندر کے انہدام کا ذکر ہے اور نہ اس کی جگہ جامع مسجد بنارس گیان واپی کی تعمیر کا ذکر ہے۔

مطلب یہ ہے کہ گمراہ کن، مغالطہ انگیز پروپیگنڈا اور مفروضہ کہانیوں سے جامع مسجد بنارس گیان واپی کو اجودھیا کی بابری مسجد انہدام کی راہ پر لے جانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے، اس کے پیش نظر ضرورت ہے کہ جامع مسجد گیان واپی کے سلسلے میں حقائق کو پیش کرنے پر پوری توجہ دی جائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: