Slide
Slide
Slide

فرقہ پرستی کی آندھی، کانگریس اور علماء کی تساہلی

مسعودجاوید

اس ملک میں یوں تو ہندو مسلم فرقہ وارانہ کشیدگی اور تصادم کی تاریخ بہت قدیم ہے غالباً ١٩٢٠ سے ہی  فرقہ پرست عناصر کا ایک فرقہ گائے کو تو دوسرا فرقہ خنزیر کو ذریعہ بنا کر ایک دوسرے سے لڑتے آئے ہیں بسا اوقات معاملہ خونی تصادم اور کیس مقدمہ جیل تک پہنچتا تھا اور ہے۔  مسجد کے احاطہ میں یا دروازہ پر خنزیر کا گوشت یا غیر مسلم محلے میں گائے کا گوشت فساد بھڑکانے کے لئے شرپسندوں کا بہترین ذریعہ ہوتا تھا ۔ کم و بیش یہی پیٹرن آج تک استعمال میں ہے۔ 

15 اگست 1947 کو  وطن عزیز برطانوی استعماریت سے آزاد ہوا اور آزاد ہندوستان کے معماروں نے اس متعدد مذاہب اور متنوع ثقافتوں والے ملک کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل یعنی آئین بنایا جس میں ہر مذہب اور ثقافت کے لوگوں کے مذاہب، تہذیبوں اور رسم ورواج کا لحاظ رکھا گیا۔  

مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا لحاظ اور احترام کا نام ہی سیکولرازم ہے۔ سیکولرازم یعنی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا یعنی ریاست کسی مذہبی فرقہ اور کسی مخصوص مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہبی فرقہ اور کسی مذہب کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گی ۔ ہر شہری کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کرے دوسروں کے مذاہب کی اہانت کئے بغیر ۔ جو شہری کسی مذہب کو نہیں ماننا چاہے اسے اس کی بھی آزادی ہے بشرطیکہ وہ دوسروں کے مذاہب اور دینی شعائر کی توہین نہ کرے۔ 

آئین ہند کی اہمیت افادیت اور ضرورت کا احساس ہر شہری کو ہے اور ہونا چاہیے اس لئے کہ وہ ہمارے حقوق اور ذمہ داریوں کو طے کرنے والا ایک مقدس عہدنامہ ہے جس کا  ” ہم بھارت کے لوگ ”  نہ صرف عہد کرتے ہیں بلکہ اس کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ 

اس دستور کی بنیادی خصوصیات :

  • – سماجی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر ہر ایک شہری کو برابر حق
  • – نظریہ اور رائے کا حق  اور اظہار رائے کی آزادی ، عقیدہ کی آزادی، اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کی آزادی اور عبادت کی آزادی ۔ 
  • – مساوات ؛ ہر شہری ، بلاتفریق علاقہ ، مذہب، ذات برادری ، عورت مرد، دیہی شہری،  برابر ہیں اور ہر ایک کے لئے ہر میدان میں یکساں مواقع ہوں گے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا ۔ 
  • – ہم ہندوستانی عوام دستور ہند کے بموجب اور بحیثیت ذمہ دار شہری ہر فرد کی عزت نفس اور وطن عزیز کے اتحاد اور سالمیت کے لئے کام کرنے کے پابند ہیں ۔ 

دنیا کے بیشتر ممالک دنیا میں رائج مختلف نظریات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ متعدد مذاہب اور کثیر ثقافتوں والے ملک کے لئے بہترین نظریہ سیکولرازم ہے  اور بہترین نظام حکومت جمہوریت ہے۔ 

یوں تو صدیوں سے رواداری اس ملک کی شناخت رہی ہے لیکن مابعد آزادی دستور ہند نے ہم سب کو بقائے باہم کے لئے رواداری کا پابند بنایا ہے۔‌ یہی وجہ ہے کہ نئے ہندوستان میں سیکولرازم کا نظریہ فروغ پایا۔ لیکن وقت کے ساتھ سیکولرازم مخالف عناصر بھی خاموشی کے ساتھ سیکولرازم کے خلاف زمین بناتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:

 معماران ہند کی وفات کے بعد سیکولرازم کا تحفظ اور فروغ کی ذمہ داری برسر اقتدار رہنماؤں پر عائد ہوئی لیکن افسوس جس طرح نالائق اولاد باپ دادا کی جائداد خرد برد ہوتے دیکھ کر بھی متنبہ نہیں ہوتا اور قیمتی ورثہ کو پامال ہوتے دیکھتا رہتا ہے کانگریس پارٹی کے رہنما بھی سیکولرازم کو کمزور ہوتے دیکھتے رہے اور  اقتدار میں باقی رہنے کے لئے سیکولرازم مخالف فرقہ پرست عناصر کی سرگرمیوں کو نظر انداز کرتے رہے۔  انہوں نے اقتدار میں رہنے کے باوجود عوامی سطح پر سیکولرازم کی افادیت اہمیت اور ضرورت کو پوری طاقت سے گھر گھر پہنچانے کے لئے کوئی میکانزم ایجاد نہیں کیا۔ نتیجتاً  ٢٠١٣ سے ہی سیکولرازم کے خلاف آوازیں اٹھنی لگیں اور بعض متعصب دانشوروں نے اسے سک لرزم یعنی بیمار نظریہ کہنا شروع کردیا اور ان کی دلیل یہ تھی کہ یہ نظریہ اقلیتی طبقات کی خوشنودی پر مبنی ہے۔ جبکہ دنیا بھر بشمول ہندوستان میں سیکولرازم اور سوشلزم‌ مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ سے خالی ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کرنے والی رفاہی ریاست کا نام ہے ایسا نظام جو  کمزور اور پسماندہ طبقات کی قوت شراء کا لحاظ کرتے ہوئے پالیسی بنائے ۔‌ جو مالی اعتبار سے ضرورت مند اور محتاج ہیں ان کے لئے سبسڈی اور وظائف دینے کا نظم کرے ۔ 

سیکولرازم کو کمزور ہونے دینے میں جہاں کانگریس و دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی تساہلی ہے وہیں دین اسلام کے انسانی پہلوؤں سے برادران وطن کو متعارف کرانے میں علماء کی تساہلی رہی ہے۔ علماء اپنی ساری توانائیاں رسمی عبادات اور دینی شعائر سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے اور دین کی بجائے مسلک کی تبلیغ پر صرف کرتے رہے۔ ایک دوسرے کو کافر اور مشرک سے فرصت ملتی تو فقہی موشگافیوں اور مناظروں میں مشغول رہے  !  عوام کو اسلام کی روح، اخلاقیات اور غیر مسلموں کے ساتھ سلوک  کسی مجلس ، محفل،  خطبہ اور تقریر کا موضوع نہیں ہوتا ہے۔ 

آج کی مسموم فضا سے پہلے اسلام کا اخلاقی اور انسان دوست پیغامات سے برادران وطن کو واقف کرانے کا بہترین موقع میسر ہوتا تھا جسے ہم نے ضائع کر دیا۔

 کتنے غیر مسلم ہمارے دوست ہیں! کتنے غیر مسلم ہمارے رابطے میں ہیں جن سے ہم پوچھ سکیں کہ کیا آپ کے پڑوس میں ایسی کوئی مسلم فیملی ہے جس کی چار بیویاں اور چالیس بچے ہیں! کیا کوئی مسلمان آپ سے مذہب کی بنیاد پر نفرت کرتا ہے؟ کیا کوئی مسلمان آپ کے پوجا پاٹ پر اعتراض کرتا ہے ؟ کیا کسی مسلمان نے آپ کے کیرتن،  آرتی اور مندروں سے لاؤڈ اسپیکر پر بھجن پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے ؟ 

کیا ہمارے کچھ غیر مسلم دوست اور واقف کار ہیں جنہیں ہم بتا سکیں کہ اللہ نے قرآن مجید میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم غیر مسلموں کے دیوی دیوتاؤں کو برا نہ کہیں ان کی اہانت نہ کریں، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے ان کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچائیں ان کے پجاریوں پر ہاتھ نہ اٹھائیں جب تک وہ ہم سے لڑنے نہ آئیں۔ 

ہم ان کو بتائیں کہ ہمارا دین پڑوسیوں سے،  خواہ وہ مسلم ہو یا غیر ، حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ یہ باتیں ہم مثبت انداز میں کہیں یعنی یہ ہے ہمارا دین اور ہم اس دین پر چلنے کے پابند ہیں ۔ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں اس کا ذکر کئے بغیر ۔ 

ہم‌ ان کو بتائیں کہ ہمیں ان کے مذہبی جلوسوں کے ہمارے محلے اور مساجد کے سامنے سے گزرنے پر کوئی تکلیف نہیں ہے۔ بشرطیکہ شرپسند عناصر اشتعال انگیز نعرے نہ لگائیں اور ہمیں نہ للکاریں۔ اسی بات کی امن پسند غیر مسلم بھی وکالت کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے انسان دوست سیکولر مزاج لوگوں کے ساتھ مل کر کمیٹی تشکیل دینی چاہئے تاکہ ماحول خراب ہونے سے بچایا جاسکے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: