محمد قمر الزماں ندوی /مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
انسان اپنی دولت، طاقت اور اپنے عہدہ و منصب پر اتراتا ہے، فخر کرتا ہے، اور نشہ میں چور رہتا ہے، اپنے سے نیچے کو حقیر و بے وقعت سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس فانی دنیا سے اس کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔۔ لیکن اسے خبر نہیں کہ ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا سب سے اونچے اور بلند ہوجانے کی خواہش و آرزو، اپنے آپ کو سب سے زیادہ مضبوط و مستحکم، پائدار، وزنی اور قیمتی ثابت کرنے کی حرص اور ہوس اکثر اوقات انسان کو منھ کے بل گرا دیتی ہے، کیونکہ خلود زیبا صرف اس ذات برحق کو ہے۔۔ جس کا اعلان ہے "للہ الامر من قبل و بعد, پہلے اور بعد میں بھی سارا اختیار اللہ ہی کو ہے۔۔اور جو بندہ کو باور کراتا ہے الا لہ الحکم سن لو اسی کی بادشاہت اور حکمرانی ہے۔
عاد و ثمود ،قوم مدین، اور فرعون و شداد اور نمرود و ہامان کی داستانیں قدیم اور پرانی ہوچکیں، مگر سنت الہی کا کرشمہ ہر زمانہ میں نظر آتا ہے، ایک وقت تک کہ روس عالمی طاقت بنا ہو تھا، امریکہ کو بھی آنکھ دکھاتا تھا ، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ ستر سال سے زیادہ اس کی ہٹلری نہیں چلی اور تسبیح کے دانے اور طاش کے پتہ کی طرح وہ بکھر گیا اور طاقت و غرور اور اقتدار کا نشہ چور چور ہوگیا۔یمنیوزم نے دم توڑ دیا ایوان اقتدار سے سرخ جھنڈا اور پرچم ہٹا دیا گیا۔۔۔ فطرت کے خلاف بنایا گیا نظام اور قانون بے وقعت ہوگیا اور مارکس و لینن کی تھیوری اور آیڈیلوجی کے گن گانے والے کنارے ہو گئے اور دم دبا کر بھاگ گئے، میخائل گورباچوف نے تسلیم کرلیا کہ یہ قانون اور نظام فطرت کے قانون سے متصادم ہے ،اس میں انسانیت کی بھلائی اور کامیابی نہیں ہے۔۔۔
تاریخ کے حوالے سے ہم یہاں دیدئہ عبرت نگاہ کے لئے دو اور واقعہ کو درج کرتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ جب وقت بدلتا ہے، تو بادشاہ کو بھکاری اور بھکاری کو بھی بادشاہ بنادیتا ہے، یہ وقت کی گردش نہیں تو اور کیا ہے؟ –
سابق شاہ ایران ،،محمد رضا پہلوی،،نے اپنی تباہی اور ہلاکت سے صرف دو سال پہلے اپنی تاج پوشی کا جشن منایا تھا، تمام دنیا کے حکمراں جمع ہوئے تھے، ایک شہر آباد کیا گیا تھا، جہاں اس جشن کی تقریبات منائی گئی تھیں، اس میں اربوں ڈالر کے محلات تعمیر ہوئے تھے، ایران کے نہیں بلکہ یورپ و امریکہ کے ماہرین انساب و تاریخ کی مدد سے ایک مربوط تاریخ دکھائی گئی تھی کہ ڈھائی ہزار برس پہلے کی سلطنت ” کاکیواں”” کا تسلسل باقی ہے، اور محمد رضا پہلوی اس کے وارث ہیں اور اس کا نشان عظمت ،، شیر و شمس،، ہے۔۔ یعنی شیر کی طرح مضبوط اور شمس (آفتاب) کی طرح روشن، دنیا کو روشن رکھنے والے جس کے مقابلے میں کسی کا چراغ نہیں جل سکتا، جل جلالہ و عز شانہ کے الفاظ زبان سے نہیں کہے گئے تھے، مگر ہر قدم پر اس کا اظہار تھا، پھر کیا ہوا؟ اس جشن کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ غیرت حق جوش اور حرکت میں آئی۔۔ فاتی اللہ بنیانھم من القواعد۔ (النخل ۲۶) اللہ تعالیٰ نے ان کا بنا بنایا گھر جڑ سے ڈھا دیا۔۔ تاج کیانی اور آریا مہر دونوں پیروں سے روند دئیے گئے۔۔ ۔۔ فخر علیھم السقف من فوقھم و اتاھم العذاب من حیث لا یشعرون۔۔( النخل ۲۶) اور پھر اوپر سے ان پر چھت آپڑی اور ان پر عذاب اس طرح آیا کہ ان کو وہم و گماں بھی نہ تھا۔۔ کا منظر اس عہد کے انسانوں نے کھلی آنکھوں دیکھا، جہاں پناہ کو اس جہاں میں پناہ نہیں مل رہی تھی، ایران کی نئی حکومت نے پاسپورٹ بھی چھین لیا تھا، اب کوئی ملک سر چھپانے کی جگہ دینے کے لیے تیار نہ تھا، ان کے مشیر رائے دے رہے تھے کہ زمین تو نہیں فضا میں جہاں پناہ آریا مہر بسیرا لے لیں، ہوائی جہاز خود ایک محل ہے، اس کو ایندھن بھی فضا ہی میں پہنچوایا جاسکتا ہے، اس کی نوبت نہیں آتی، کیونکہ مرحوم انور سادات نے دو گز زمین دیدی۔
یہ بھی پڑھیں:
شاہ ایران کے علاوہ ایک اور حکمران تھے، ،، ہیلا سلاسی، ایتھوپیا کے بادشاہ، یہ بھی ڈیڑھ ہزار برس پہلے مسیحی سلطنت کے وارث تھے، اپنی بیٹی کی شادی کی تو پیرس سے اتنا بڑا کیک بن کر آیا جو جمبوجٹ کے طول (ڈھائی سو قدم) کے برابر تھاتھا، آٹھ لاکھ ڈالر اس کی تیاری میں صرف ہوا، چارٹر پلین سے عدیس ابابا لایا گیا، اس کے بالائی اوپری حصے میں ذرا شگاف پڑ گیا، اس کے لیے ماہرین کانفکشری بلائے گئے، مزید دو لاکھ ڈالر میں اس کیک کی مرمت ہوئی، کہا گیا کہ مسیحیت کی تاریخ میں ہیلاسی ,,امر,, (خالد ہمیشہ باقی رہنے والا) ہوگئے، مگر اس کے ٹھیک تیرہ ماہ بعد اسی عدیس ابابا کے افریقی باشندوں نے یہ بھی دیکھا کہ جیل خانہ کی چھوٹی سی گاڑی پر قصر شاہی سے نکال کر شہنشاہ عالی وقار کو باہر لایا گیا اور راستے میں نوجوان آوازیں کس رہے تھے،،چور چور،، پھر اس کے بعد،،خلود،، کا دعویٰ کرنے والی شخصیت اندھیروں میں چھپ گئی، فما بکت علیھم السماء و الارض۔۔( الدخان ٢٦) نہ اس پر آسمان رویا اور نہ زمین۔
یہی سرزمین تو وہ ہے جہاں شاہی سواری گزرتی تھی اور دو رویہ جاں نثار قوم دست بستہ کھڑی رہتی تھی، کھڑی ہی نہیں رہتی تھی بلکہ باقاعدہ سجدہ ریز ہو جایا کرتی تھی۔۔۔( اداریہ تعمیر حیات /۱۰/ دسمبر ۱۹۹۶ء از مولانا عبد اللہ عباس ندوی رح)
آج بھی جو لوگ حکومت و اقتدار کے نشہ میں چور ہیں اور اپنی اکثریت اور طاقت و قوت کے نشہ میں کمزوروں اور اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں، انہیں لوٹ رہے ہیں ،انہیں تختئہ مشق بنا رہے ہیں ،ان کے نشیمن کو ویران کر رہے ، ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ،انہیں بے گھر کر رہے ،انہیں بے قصور پھنسا رہے ہیں ،جیل کی سلاخوں میں ڈال رہے ہیں ،ان کی زندگی اور ان کے مستقبل کو تباہ کررہے ۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام میں نحوست و بدفالی کی کوئی جگہ نہیں ہے
وہ یہ نہ سمجھیں کہ عاد و ثمود کی طرح کا انجام اب نہیں دہرایا جائے گا اور گردش ایام کا قہر اس پر نہیں آئے گا۔۔ ضرور آئے گا، کیونکہ خلود زیبا صرف ذات حق کو ہے، اور سنت الہی کا کرشمہ ہر زمانہ میں نظر آتا ہے۔ ظلم کی حکمرانی زیادہ دن نہیں چلتی۔ کیونکہ ظلم اللہ تعالیٰ کو پسند ہے ، اللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی پسند نہیں کرتے ،قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے ۔ غالبا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ان کا قول ہے کہ کفر و شرک کیساتھ تو کسی کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کیساتھ کسی کی حکومت زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتی ہے ۔۔ آج ہمارے ملک میں جو کچھ مسلمانوں کیساتھ ہورہا ہے ،جس طرح ان کو مٹانے اور برباد کرنے کی کوشش ہورہی ہے ،ان کے گھر کو گرایا جارہا ہے ،ان کے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جارہا ہے ،ان کے مستقبل کو تباہ کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف ہر طرح کی سازشیں کی جارہی ہیں ، کیا ان پر اللہ کا قہر نہیں آئے گا ،کیا ان کو ان کئے کی سزا نہیں ملے گی ،ضرور ملے گی ،آج نہیں تو کل ان کا وجود بھی مٹا دیا جائے یہ بھی اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے ،اپنے کئے کی ضرور سزا چکھیں گے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ مظلوموں کی آہ کو ضرور سنتا ہے ،ان کے درمیان خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہتا وہ براہ راست مظلوموں کی آہ و پکار کو سنتا ہے ، جس بے دردی کیساتھ ظالموں نے ہمیں تختئہ مشق بنایا ہے اللہ اس سے بھی ہزار گنا سخت انتقام لے گا ۔ شرط یہ ہے کہ ہم بھی اپنا تعلق خدا سے مضبوط کریں ، خدا کے احکام کو توڑنے سے بچیں ،اس کی حکم عدولی سے بچیں ،خدا کے حضور توبہ و استغفار کریں ،ندامت کے آنسو بہائیں ، اس کو راضی کریں ، اسی سے گہار لگائیں اور جو تدبیر اور راستہ اختیار کرنے کے لئے کہا ہے اس کو اختیار کریں ،اس فارمولے پر عمل کریں ،اس کو فالو کریں ۔۔ قرآن مجید میں مشکل حالات سے نپٹنے کے لئے ایک پانچ نکاتی فارمولا بیان کیا گیا ہے ،ضرورت ہے کہ ہم اس فارمولے پر عمل کریں وہ پانچ نکاتی فارمولا کیا ہے ؟ قرآن اس میں ہمیں کیا رہنمائی کرتا ہے ،آئیے اس کو توجہ سے سنتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ ناموافق حالات ختم ہوں ۔۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ،، یا ایھا الذین آمنوا اذا لقیتم فیئة فاثبتوا و اذکروا اللہ کثیرا لعلکم تفلحون ،و اطیعوا اللہ و رسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین ۔.
اے ایمان والو جب مخالف جماعت سے تمہارا مقابلہ اور واسطہ ہو تو ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ کا کثرتِ سے ذکر کرو ،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و پیروی کرو ،اور باہم نہ لڑو جھگڑو ورنہ تم ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی یعنی کمزور اور بے حیثیت ہوجاو گے اور ہاں صبر کرتے رہو بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کیساتھ ہے ۔
یہ وہ پانچ نکاتی جامع فارمولا ہے کہ اگر مسلمان اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے مطابق زندگی گزاریں گے تو یہ حالات ختم ہو جائیں گے ، مخالف ناکام و نامراد ہوجائیں گے اور ہم سرخ رو ہو جائیں گے اور ہماری کھوئی ہوئی طاقت و عزت بحال ہوجائے گی خدا کرے کہ ہم سب کو ان باتوں پر عمل کی توفیق مل جائے اور ہم سب اس ذلت و نکبت سے نکل جائیں ۔