ہم عین وقت پر منصوبہ بناتے ہیں جبکہ موجودہ وقت میں وقت سے پہلے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے: میرا مطالعہ
( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی
ہندوستان میں مسلمانوں کا ماضی شاندار رہا ، مسلم حکمرانوں کی حکومت رہی ، انہوں نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں خوب حصہ لیا ، یہاں کے خواص اور عوام سب ان کی حکومت میں خوش رہے ، کیونکہ مسلم حکمرانوں کو حکومت کرنے کا فن آتا تھا ، اس لئے انہوں نے کبھی بھی متنازعہ معاملات کو نہ تو خود پیدا کیا ، اور نہ کسی کو اس کی اجازت دی ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر رواداری اور قومی یک جہتی کو فروغ دیا ، یہی وجہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں بھائی چارہ اور قومی یک جہتی کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے ، ہندو ،مسلم ،سکھ ، عیسائی اور تمام دھرم و مذاہب کے ماننے والے خوش رہے ، مولوی ،پنڈت سبھی دربار کی زینت رہے ، کسی بھی مشکل حالات کا مقابلہ سب مل کر کرتے ، غرض مسلم حکمرانوں نے ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کی مثال قائم کی ، کبھی بھی ان کا مقصد دین کی تبلیغ و اشاعت نہیں رہا ،بلکہ ان کا مقصد صرف حکمرانی کرنا تھا ، چنانچہ انہوں نے اس ملک میں مثالی حکمرانی کی ، ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنایا۔
دوسری طرف صوفیائے کرام ہندوستان میں آئے ، انہوں نے مثالی کردار پیش کیا ،جس سے یہاں کے لوگ متاثر ہوئے اور اسلام قبول کیا ، ہندوستان میں آنے کے بعد انہوں نے اس کو محسوس کیا کہ یہاں کی مٹی میں پیار و محبت ہے ، یہاں کے لوگ زور زبردستی کو قبول نہیں کریں گے ،چنانچہ صوفیائے کرام نے بھی ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ان کو آزاد چھوڑ دیا ، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں میں دین و عقائد اور اعمال میں پختگی کم نظر آتی ہے۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حکمران اور صوفیاء دونوں نے اس ملک کے مزاج کو سمجھا اور یہ محسوس کیا کہ اس ملک کی فضا اور آب وہوا میں میل و محبت اور قومی یک جہتی پیوست ہے ، اس کو الگ نہیں کیا جاسکتا ہے ،اس لئے دونوں نے اس ملک میں قومی یک جہتی اور پیار و محبت کو مضبوط کیا ، اتنا مضبوط کیا کہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے پر جان قربان کرنے لگے ، اس طرح ہمارے اکابر نے اس ملک میں گنگا جمنی تہذیب و ثقافت کی آبیاری کی ہے ، یہ سلسلہ برسوں چلا ، مگر اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب و کلچر میں کوئی فرق نہیں آیا ، اور ہندوستان ایک مثالی ملک شمار کیا جانے لگا ۔
ادھر کچھ برسوں سے ملک میں مذہبی منافرت پیدا کردی گئی اور اکثریت و اقلیت کا معاملہ اٹھا کر ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلم سماج کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، اکثریت کے لوگوں کو مسلم اقلیت کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے ،جس کی وجہ سے ملک میں امن و شانتی کا ماحول بگڑ رہا ہے ، اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت ہے ، اس کے برعکس حکومت نفرت پھیلانے والوں کو لگام دینے کے بجائے مسلم اقلیتوں کو ہی نشانہ بنارہی ہے ، یہ نہایت ہی افسوس کی بات ھے ۔
ایسے وقت میں جبکہ ملک میں عدم تحفظ کا ماحول پیدا کردیا گیا ھے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی حفاظت کے لئے منصوبہ بندی کریں ، اور یہ وقت سے پہلے کریں ، میرے خیال سے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کئے جائیں ۔
- (1) حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات : ہمارا ملک جمہوری ملک ھے ،یہاں آئین کی حکومت ہے ، ملک کے آئین نے اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کو دی ھے ، اس لئے جب بھی کوئی خراب وقت سامنے آئے ،تو حکومت کے ذمہ داروں سے مل کر اس کو حل کرنے کی اپیل کی جائے ، ملی تنظیموں کے قائدین جو ملک میں اثر ورسوخ رکھتے ہیں ، ان کی زمہ داری ہے کہ وہ تمام ملی تنظیموں کو متحد کریں اور ایک باوقار وفد تشکیل دے کر حکومت کے ذمہ داروں سے ملاقات کریں ، یہ وقت کی بڑی ضرورت ہے ،
- (2) . قانونی چارہ : اگر حکومت کی جانب سے کاروائی نہ ہو یا تاخیر ہو تو ملک کا آئین ہمیں قانونی چارہ جوئی کا حق دیتا ہے ، ہم اس کے لئے عدالت جائیں اور ظلم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں،
- (3) حفاظت کا حق : ملک کا آئین ہمیں جان ، مال ،عزت و ابرو اور مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے ، اگر کسی پر ظلم ہو تو ظلم سے بچنے کی تدابیر کرے ، ملک کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے حفاظت کی صورتوں پر غور و فکر کرنا چاہئے ، اس کے لئے مندرجہ ذیل صورتوں کو اختیار کیا جائے۔
- (الف ) ظلم کے خلاف حکومت کے ذمہ داروں کو میمورنڈم دیں ،ضلع مجسٹریٹ ، بی ڈی او ، تھانہ انچارج کو میمورنڈم دے کر ظلم کے خلاف آواز بلند کریں ، اور اپنے میمورنڈم کو آگے بڑھائیں
- (ب ) ظلم کرنے والے کے خلاف تھانہ میں کیس درج کرائیں ، اگر کیس درج کرنے میں دشواری ہو تو مقامی لیڈران سے مدد حاصل کریں وغیرہ
- (4) امن کمیٹی : ہر گاوں اور محلہ میں امن کمیٹی بنائیں ، سیکولر برادران وطن کے ساتھ مل کر محلہ اور گاؤں میں میل و محبت اور امن و شانتی کو مضبوط کریں ، اور امن و شانتی کمیٹی عارضی نہ ہو ،بلکہ یہ ہمیشہ کام کرتی رہے ، خاص طور پر تہواروں کے موقع پر جلوس نکلتے ہیں ، ان کو حکمت عملی سے اپنے محلہ سے گزارنے کی کوشش کریں ، گاؤں اور محلہ کے بڑے اور اہم لوگ اس کی نگرانی کریں ، تاکہ کوئی ناخوشگوار فضا نہ بنے
- (5) قومی یک جہتی : امن اور سکون اچھی زندگی کے لئے ضروری ہے ،اس کی ضرورت ملک کے تمام لوگوں کو ہے ، ملک میں بڑا طبقہ امن پسند ہے ، ہمیں چاہئے کہ اچھے اور امن پسند برادران وطن کے ساتھ مل کر قومی یک جہتی کے پروگرام کرائیں ، یہ پروگرام گاؤں اور شہر کے ہر محلہ میں ھو ، مسلم محلہ میں بھی ھو اور برادران وطن کے محلے میں بھی ، تاکہ ایک دوسرے کے درمیان میل و محبت کو فروغ حاصل ہو ، یہ پروگرام مسلسل کرائے جائیں ۔
- (6) لیگل سیل کا قیام : امن و شانتی کے قیام اور ظلم و زیادتی کو روکنے کے لیے قانونی چارہ جوئی ضروری ہے ، اس کے لئے وکلاء پر مشتمل ایک مضبوط لیگل سیل قائم کیا جائے ، یہ لیگل سیل کسی بھی ظلم کے خلاف لائحہ عمل تیار کرے اور قانونی چارہ جوئی کے لئے راہ ہموار کرے۔
- (7) باہمی تعاون : موجودہ وقت میں ہمارا سماجی دائرہ سمٹتا نظر آتا ہے ، کسی پر ظلم ہوتا ھے ، تو ہم اس کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں ،جبکہ ایسے موقع پر باہمی تعاون کی ضرورت ہے ، کسی پر ظلم ہو اور لوگ خاموش رہتے ہیں تو ظالم کا حوصلہ بلند ہوتا ھے ،اس کے برعکس اگر ظلم کے خلاف کچھ آدمی کھڑے ہوتے ہیں ،تو ظالم کا حوصلہ پست ہو جاتا ھے ،اور وہ اپنے ظلم سے باز آجاتا ہے ، اس لئے ںسماج میں باہمی تعاون کا فروغ ضروری ہے ۔
- (8) صبر و تحمل : کسی بھی مشکل حالات میں جذباتی نہ ہوں ، غیر ضروری جذباتی کام اور بات سے بچیں ، ایسے وقت میں صبر و تحمل سے کام لیں ، جذباتی بن کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے بچیں ۔
یہ چند باتیں ہیں ،ان کے علاؤہ اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں ، ان سب پر وقت سے پہلے غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
مذکورہ بالا کاموں کو انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقوں سے کیا جاسکتا ہے ، اس کے لئے سماج میں بیداری ضروری ہے ، ملی تنظیموں کے ذریعہ ان کو بڑے پیمانہ پر کیا جاسکتا ہے ۔
اللہ کا فضل ھے کہ ملی تنظیموں نے خراب حالات میں اہم اہم کارنامے انجام دیئے ہیں ،اور ان کے قائدین ہر مشکل حالات کے موقع پر آگے بڑھ کر کام کرتے ہیں ، اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملی تنظیموں کو مضبوط کریں اور ان پر اعتماد و بھروسہ کریں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔