مسعودجاوید
دین اسلام میں میانہ روی محبوب ہے۔ اسی لئے عرب حکماء کا یہ قول ” خير الامور اوسطها” اتنا مقبول ہوا کہ بہت سے لوگوں نے اسے حدیث نبوی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سمجھ لیا۔
جب دین اسلام میں میانہ روی افضل ہے تو بحیثیت مسلمان ہمارا رویہ بھی افراط اور تفریط سے پاک درمیانہ ہونا چاہیے ۔ معاملہ معاشرتی ہو یا قومی ، ہمارا سلوک برادران وطن ہی نہیں دنیا کے تمام انسانوں کے ساتھ اچھا ہونا چاہیے ۔ کسی سے اس کے مذہب ، عقیدہ ، مسلک ، نظریہ ، ذات برادری ، پیشہ ، امارت و غربت ، علاقہ ، رنگ اور نسل کی بنیاد پر نفرت کی گنجائش ہمارے دین حنیف میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بے آواز وں کی آواز: الحاج گلزار احمد اعظمی
اسی طرح وطن سے محبت ہر شہری کو ہوتی ہے اور ہونی چاہیے وطن عزیز کی ایک بالشت زمین غصب کئے جانے یا وطن عزیز کے کسی حصے میں قدرتی آفات اور دیگر مصائب پر اتنا ہی دکھی ہونا چاہیے جتنا خود متاثر ہونے پر اور وطن عزیز کی تعمیر وترقی اور تعلیم ، صحت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حصولیابی پر اتنی ہی خوشی ہونی چاہیے جتنی اپنے گھر کی تعمیر پر اور اپنی اولاد کی حصولیابی پر ۔ جب ایک طرف آپ کی تربیت اور اخراجات اٹھانے اور دوسری طرف آپ کے بچے کی محنت اور لگن سے وہ ایک ڈاکٹر انجینئر سائنٹسٹ پروفیسر وغیرہ بن کر دنیا کے سامنے آتا ہے تو آپ کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ وطن سے محبت کا ہے۔
بات قومی تقریبات ٢٦ جنوری اور ١٥ اگست کی ہو یا وطن عزیز اور , بلا تفریق مذہب, ہندوستانی قوم کی، ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو بالخصوص پچھلے چند سالوں سے وطن سے محبت کے اظہار میں افراط و تفریط سے کام لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مشن چاند کے لئے اجتماعی طور پر نماز باجماعت ، یوگا سوریہ نمسکار کے ساتھ ! میرے خیال میں یہ مرعوبیت ہے یا پھر اقتدار سے قریب ہونے کی ہوس ۔۔۔!
اس مشن مون کی کامیابی کے لئے ہر ہندوستانی کو دعا کرنی چاہیئے نہ صرف اس لئے کہ یہ ایک قابلِ فخر و اعتزاز کارنامہ ہے بلکہ اس لئے بھی کہ بنی نوع بشر کے لئے اس میں بے شمار فوائد ہیں۔
افراط وتفریط کی دوسری مثال وہ لوگ ہیں جو اس عظیم حصولیابی پر خوشی کا اظہار کرنے میں متذبذب ہیں اور شاید لوگوں کی خوشیاں ان سے دیکھی نہیں گئی اس لئے انہوں نے اس کی اہمیت کم کرنے کے لئے اپنی کم علمی کا ثبوت دیا ۔
نعوذباللہ ۔۔ انہوں نے چند سائنس دانوں کا موازنہ اشرف المخلوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا یہ قطعاً مناسب نہیں ہے۔ قیاس مع الفارق درست نہیں ہے ؛ معراج پر اس کا قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے وہ کن فیکون خدائی قدرت کا نتیجہ تھا۔ خرق عادت اور خلاف فطرت کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ وہ اسباب کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ یہ چند سائنسدانوں کی بشری محنت یعنی سبب کا مسبب یعنی نتیجہ ہے۔ اگر آپ دوسروں کی خوشیوں میں شریک نہیں ہو سکتے تو بہتر ہے خاموش رہیں دوسروں کی خوشیوں میں مخل نہ ہوں۔ یہ ہمارے وطن کے سائنسدانوں نے کیا اس لئے وطن اور اہل وطن کو ان پر فخر کرنا بجا ہے ۔ ہم سب کو اس خوشی میں شریک ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینا چاہیے۔
مشن مون میں امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا ، ہمارا ملک ، دنیا کا چوتھا ملک بنا ہے جس نے چاند پر سافٹ لینڈنگ کی ہے ۔ چاند کے ساؤتھ پول پر اترنے والا انڈیا پہلا ملک ہوا ہے۔