زندگی بھی اس کھیل ہی کی طرح ہے
محمد قمرالزماں ندوی/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ ، پرتاپ گڑھ
زندگی میں ہر جگہ اور ہر موڑ پر بہت زیادہ سمجھدار اور ضرورت سے زیادہ ہوشیار بننے اور دکھنے اور دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، جہاں زیادہ سمجھ دار بننے سے اپنی ہی خوشیاں متاثر ہوتی ہوں یا فرد اور جماعت کا نقصان ہو، وہاں سیدھا سادھا اور بھولا پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ مومن سیدھا سپاٹا بھولا بھالا اور نیک اور شریف ہوتا ہے اور فاسق و فاجر انتہائی چالاک، ہوشیار اور کمینہ ہوتا ہے۔المؤمن غر کریم و المؤمن خب لئیم ۔
بعض لوگ ہمیشہ چالاکی اور ضرورت سے زیادہ تیزی اور ہوشیاری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کی یہ تیزی، اور چالاکی ہوشیاری والی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ جو معاملہ آسان اور سادہ ہوتا ہے، لیکن اس کو بھی جذباتی بنا کر پیش کرتے ہیں اور معاملہ کو طول دیتے ہیں، کمال عیاری اور ہوشیاری سے دوسرے کی گردن اور شانہ پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے ہمیں ایک موقع پر ایک فہرست دی کہ مولانا! میری درخواست ہے کہ آپ جمعہ میں ان موضوعات پر تقریر کریں، اور مجھے پھولانے کے لئے میری خوب تعریف کرنے لگے، میں سمجھ گیا کہ یہ آدمی ہوشیار ہے،ہوشیاری دکھا رہا ہےاور دین کے نام پر یہ اپنا کام اور بھڑاس نکلوانا چاہتا ہے، میں نے کہا کہ یہ کام تو آپ بھی کرسکتے ہیں؟ آپ بھی تو پڑھے لکھے اور عالم و فاضل ہیں؟ ۔۔۔ وہ الٹی سیدھی تاویلیں کرنے لگے کہ یہ وجہ اور وہ وجہ ہے، میرے لئے یہ مجبوری ہے وہ پریشانی ہے، میں سرکاری ملازم ہوں ،اس لئے میرے لئے مناسب نہیں ہے، میں اس وجہ سے نہیں کہہ سکتا اس وجہ سے نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ
سماج میں اس ذہنیت کے لوگ ہرجگہ پائے جاتے ہیں، ان لوگوں سے ہوشیار اور متنبہ رہنا چاہیے ان کی باتوں میں آکر زیادہ جذباتی نہیں ہونا چاہیے، بتدریج اپنا دعوتی، علمی، ملی،سماجی،فلاحی اور اصلاحی کام کرتے رہنا چاہیے اور اپنے مشن میں لگے رہنا چاہیے ورنہ جو کام ہورہا ہے،اس میں بھی رکاوٹ آجائے گی اور جو تھوڑا بہت کام ہورہا ہے وہ بھی رک جائے گا، اس لیے اگر زیادہ کی لالچ میں جو تھوڑا مل رہا ہے اور انجام پا رہا ہے وہ بھی نہ ملے اور نہ ہونے پائے تو بیکار ہے، اس لیے وقت اور حالات سے زیادہ کی لالچ کرنا۔۔۔۔ بہتر نہیں ہے۔
سادگی سے خلوص اور نیک نیتی سے اپنا کام نمٹانا چاہیے۔ کسی کے بہکاوے اور جوش دلانے میں نہیں آنا چاہیے۔۔ بعض لوگ اس کام میں ماہر ہوتے کہ وہ جذباتی نوجوانوں کو اور جوش دلاتے ہیں ان کو اور زیادہ جذباتی بنا دیتے ہیں،اور ان کو مہرا بنا کر اپنا کام نکالتے ہیں، انہیں سوشل میڈیا پر متحرک رکھتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے لوگوں میں چرچت رہتے ہیں۔۔۔ یہ بیماری کسی خاص جگہ اور مکان کی نہیں ہے ہر جگہ ،ہر ادراہ اور ہر طبقہ میں تقریبا یہ بیماری اور وبا عام ہے، زیادہ تر یہ بیماری پڑھے لکھے لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔ خدا ہم سب کو محفوظ رکھے آمین ۔
ایک واقعہ کہیں پڑھا تھا ،ممکن کا یہ واقعہ بھی ہو اور امکان یہ بھی ہے کہ یہ صرف ایک تمثیل ہو، سب کو اس واقعہ سے سبق اور نصیحت لے کر کام کرنا چاہیے اور دینی اور دعوتی کاموں کو بتدریج انجام دیتے رہنا چاہیے، زیادہ کے لالچ میں جو ہورہا کہیں وہ بھی نہ چھوٹ جائے ، ایسا کوئی عمل اور کام نہیں کرنا چاہیے۔
اب اس واقعہ کو سنئے ۔ لطف بھی لیجئے اور سبق اور نصیحت بھی حاصل کیجیے۔
ہوٹل پر بیٹھے ایک شخص نے دوسرے سے کہا
یہ ہوٹل پر کام کرنے والا بچہ اتنا بیوقوف ہے۔۔
کہ میں پانچ سو اور 50 کا نوٹ رکھوں گا تو یہ پچاس کا نوٹ ہی اٹھائے گا۔
اور ساتھ ہی بچے کو آواز دی اور دو نوٹ سامنے رکھتے ہوئے بولا ان میں سے زیادہ پیسوں والا نوٹ اٹھا لو ۔۔۔
بچے نے پچاس کا نوٹ اٹھا لیا، تو دونوں نے قہقہہ لگایا اور بچہ واپس اپنے کام میں لگ گیا۔۔۔
پاس بیٹھے شخص نے ان دونوں کے جانے کے بعد بچے کو بلایا اور پوچھا:
"تم اتنے بڑے ہو گئے ہو تم کو پچاس اور پانچ سو کے نوٹ میں فرق کا نہیں پتا۔
یہ سن کر بچہ مسکرایا اور بولا یہ آدمی اکثر کسی نا کسی دوست کو میری بیوقوفی دیکھا کر انجوائے کرنے کے لئے یہ کام کرتا ہے،اور میں پچاس کا نوٹ اٹھا لیتا ہوں، وہ خوش ہو جاتے ہیں اور مجھے پچاس روپے مل جاتے ہیں، جس دن میں نے پانچ سو اٹھا لیا اس دن یہ کھیل بھی ختم ہو جاے گا اور میری آمدنی بھی۔
زندگی بھی اس کھیل کی طرح ہی ہے ہر جگہ بہت زیادہ سمجھدار بننے کی نہیں ہوتی، جہاں سمجھدار بننے سے اپنی ہی خوشیاں متاثر ہوتی ہوں وہاں بیوقوف بن جانا ہی سمجھداری ہے۔
پتہ چلا کہ آدمی کو سوجھ بوجھ اور سمجھداری سے کام لینا چاہیے اور زیادہ کے لالچ میں تھوڑے کو کبھی نہیں گنوانا چاہیے، یہ اصول دینی اور دنیاوی دونوں کاموں میں فٹ آتا ہے اس لئے دونوں جگہ اور دونوں میدان میں اس کو برتنا چاہیے،اور سے فائدہ اٹھا کر قوم و ملت کو فائدہ پہنچانا چاہیے۔