شاہد عادل قاسمی ارریہ بہار
شکراللہ کا آج ایک دشمن سے جان بچی،دوسرےکی لڑائی اپنے گھر سمٹ آئ،اچھا ہوا انڈیا پاکستان کا لفڑااب ختم ہوا اورجان میں جان آئ،احسان مانیئے اس مہاشے کا جنھوں نے”انڈیا” کے بہ جاۓ "بھارت "بولنے کا بروقت مشورہ دیا،اور گن گان کیجئے ان دو درجنوں سے زائد اپوزیشن الائنس پارٹیوں کے ذمہ داروں کا جنھوں نے "انڈیا”نامی الائنس کی تجویز سے کچھ انڈین میں کڑھن اور بے چینی کا الارم بجا دیا اور میں تو تہہ دل سے مشکور ہوں۔ نو ستمبر ۲۰۲۳کی عشائیہ کے دعوت نامہ کا جس پر” پرزیڈینٹ آف انڈیا”کی جگہ "پرزڈینٹ آف بھارت”کندہ ہے، اسی سے ایمپریس یا متاثر ہوکرمیں آپ سے رو بہ رو ہوں،جب کہ میں آئین کی عبارت "انڈیا ڈیٹ از بھارت "سے بھی کما حقہ واقف ہوں۔
شاید بھارت کی پرانی روایت سے آپ بھی بہت حد تک واقف ہوں گے کہ بھارت کےنام پر بھارت میں اس وقت کوئ پہلی بار جنگ نہیں ہورہی ہے بل کہ ماضی میں خوب زبانی جنگ ہوئ ہے،جمبودیپ،بھرت کھنڈ،ہم ورش،اجنابھ ورش،بھارت ورش،آریہ ورت،ہند،ہندوستان اور انڈیا کی تاریخ سے ایک سو چالیس کروڑ کی سب سے بڑی آبادی والا سب سے بڑا سیکولر ملک ضرور آگہی رکھتا ہے، Greek word کی تاریخ سے بھی قوم شناسائی لازمی رکھتی ہوگی،پڑوسی ملک کی خواب کہیں شرمندۂ تعبیر نہ ہوجاۓ، کیوں کہ دریا ۓسندھ بھی وہیں بہتا ہے،پڑوسی ملک کا مونگیری لال والا سپنا اگر پورا ہوجاتا ہے اور موجودہ "بھارت انڈیا "کے مقابلے میں” بھارت "جیت جاتا ہے تو انڈیا بھارت ہوجاۓ گا اورپڑوس ملک "انڈیا” ہوجاۓ گا، ایسے حالات میں انڈیا زندہ بادلکھنے اور بولنے والوں کے زبان وقلم تودور گردن بھی کہیں نپ نہ جاۓ؟۔ الامان الحفیظ
حزب اختلاف کی ہم آہنگی اور مفاہمت نے کہیں ایسا سمی کرن تو نہیں بنادیا ہے جس سے میچ اتنا دل چسپ ہوگیا،یا حکمراں جماعت نے جی۲۰ کے دعوت عشائیہ کے بہانے اپنی طاقت اور وجود کو پختہ بنانے کی ہوڑ میں یہ چال تو نہیں چل دیا ہے،کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے،۱۲ستمبر سے ۱۸ستمبر تک ایوان بالا کی اچانک نشست سے گدگدی اور آگ تو سلگ ہی چکی ہے،اب کون خوف زدہ ہے اور کون خائف ہے وہ تو دل ناداں کا دل ہی جانے یا انتر آتما ہی بتاۓ،جغرافیائی،ذات پات،حسب نسب اور ثقافت وکلچرل کے اعتبار سے بھارت میں تبدیلئ نام کا پرکوپ کافی پرانا ہے،بمبئ،مدراس،امروہ،الہ آباد اور اورنگ آباد کے علاوہ دسیوں شہروں اور ضلعوں کا نام بدلاگیا ہے، اب اگر ایک مرتبہ پچھتر سال بعد صدر جمہوریہ کے دعوت نامہ پر” پرزیڈینٹ آف انڈیا”کی جگہ "پرزیڈینٹ آف بھارت” ہی مرقوم ہوگیاہے تو اس پر سر آسمان پر اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
ایسا میں نہیں کہ رہا ہوں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں، بل کہ آپ جو سمجھ رہے ہیں ویسا ہی میں لکھ بھی رہا ہوں،بھلا میں اکھنڈ بھارت، شاکچھر بھارت، بھارت مشن ،ایک بھارت شریسٹھابھارت،بھارت جوڑو،بھارت رتن،بھارت ماتا کی جئے،وندے بھارت ٹرین،آیوشمان بھارت،جڑے گا بھارت، بھارت بھاگ ودھاتا اور آتم نربھربھارت کا نعرہ یا شلوک میں کیوں کر بھُلا سکتا ہوں ،ساتھ ساتھ مدرانڈیا، آئ لو مائ انڈیا،گرین انڈیا،ان ورلڈ ان انڈیا،جیتے گا انڈیا،انڈین کلچرل،انڈین پلیس،انڈین آرٹ اور انڈیا گیٹ کا جیتا جاگتا تصوربھی بھلا ہم کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟ ہاں اگر کسی بھارت پریمی کو "انڈیا شبد "سے اتنی ہی دشمنی یا نفرت ہے تو وہ جیب یا بینک میں قید "ریزرو بینک آف انڈیا”کی چھپی کرنسی کو جلد ہی عام شاہ راہوں پر پھیک دے تاکہ ہم انڈین پریمی لابھانِت ہو سکیں اور ہمیں ضروریات زندگی کی کفالت میں کچھ کفایت میسرہوجاۓ، ایک طرف ڈر ہےکہ کہیں پھر سے لمبی لائن میں کھڑا نہ ہونا پڑے اورایک بار پھر نوٹ بندی کا دوبارہ سوادنہ چکھناپڑے۔
سوزبانوں سے زائد بولنے والے اس ملک میں الگ الگ ایجنڈوں پر عمل کرنے والےکچھ دماغوں نے ضرور باہمی اتحاد دیش ہت میں کیا ہے،لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس لیے کہ ساجھے کی ہانڈی کو چوراہے پر پھٹتے خوب دیکھا گیا ہے،انڈیا اور بھارت کے اس مقابلے میں جنم جات حلیف پڑوسی ملک کا نظر بد بھی کافی عیارانہ ہے،خود کے گھر کی خبر کے بہ جاۓ ہمارے کھڑکیوں میں تاک جھانک شروع ہوچکی ہے،جب کہ ان کے منصوبہ بند شاخسانہ سے بھی ہم بہت حد تک واقف ہیں ۔
شاید انھیں یہ سبق یاد نہیں ہے کہ” سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا "۔