تحریر: زین شمسی
انڈیا اور بھارت سے زیادہ اچھااور مناسب نام تو ہندوستان ہی ہے۔ہندوستان کا مطلب تو ہندو کا استھان ہے۔اس نام میں ہندو وں کا احترام بھی ہے اور ان کی دبی ہوئی خواہش بھی ۔ تو نام بدلنے کا جو یہ عمل ہوا تو بھارت کی جگہ ہندوستان ہی رکھ لیتے تو ہندو راشٹر کا مسئلہ بھی سلجھ جاتا اور اپوزیشن اتحادیعنی انڈیا سے بھی نجات حاصل ہوجاتی۔مگر مشکل یہ ہے کہ اردو نام بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا تاہم انڈیا کےاردو نام نے تو پہلے سے ہی بھارت کوہندو راشٹر تسلیم کر لیا ہے۔کسی نے واقعی سچ کہا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر نفرت کی جگہ محبت سے دیکھیں تو نام میں بہت کچھ رکھا ہے ۔
بمبئی کے ممبئی ہوجانے اور مدراس کے چنئی ہوجانے کے بعد کیا ایسا ہو گیا جو بمبئی اور مدراس میں پہلے سے نہیں تھا اور اب ہو گیا۔مغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے رکھ دئے جانے سے ریلوے اسٹیشن پر کیا اثر پڑا ، ٹرین کی آمد و رفت میں کیا تبدیلی واقع ہوئی اور سب سے اہم کہ مغل سرائے شہر کی کتنی ترقی ہوگئی، وہی حال الہ آباد اور فیض آباد یعنی پریاگ راج اور اجودھیا کا بھی ہوااور پھر نہ صرف یہ کہ بہت سے ممالک نے بھی اپنا نام بدل لیا تو کیا وہ ممالک سپر پاور میں تبدیل ہوگئے اور بقول وریندر سہواگ کے ٹیم انڈیا کی جرسی پر ٹیم بھارت زیادہ سہانہ لگے گا تو کیا بھارت کی ٹیم کبھی میچ نہیں ہارے گی ۔دراصل نام کا بدل جانا معنی خیز نہیں ہوتا جتنا اس کے بدلے جانے کے پیچھے کی سیاست، سازش یا حکمت عملی یا منصوبہ۔تو یہی بات انڈیا اور بھارت پر بھی نافذ ہوتی ہے۔انڈیا کو ختم کردینے سے بھی بھارت رہے گا اور نہ ختم کرنے سے بھی بھارت ہے، مگر اس کے پس پشت جو سیاست ہے وہ واقعی معنی خیز ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ مضحکہ خیز اس لیے کہ ایک دفعہ راہل گاندھی نے کہا تھا کہ یہ دیش دو حصوں میں بٹ گیا ہے ایک حصہ صنعت کاروں اور ان کے دوست لیڈروں کا ہے جسے انڈیا اور دوسرا متوسط طبقے اور مزدور و کسانوں کا ہے جسے بھارت کہتے ہیں۔ ان کی بات اگر سچ ہے تو مودی سرکار تو انڈیا کے حصے میں آتی ہے تو پھر وہ اسی نام کو کیوں ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور راہل گاندھی خود کو بھارت کے جانب دار مانتے ہیں تو پھر انہوں نے اپوزیشن اتحاد کا نام انڈیا کیوں رکھ لیا۔ عجب کنفیوزن ہے بھائی۔
موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد کہ ہم اپنے دیش کو بھارت بولیں نہ کہ انڈیا، اس کافوری اثر صدارتی محل پر اتنی جلدی پڑے گایہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔جی 20کے ماقبل عشائیہ میں مدوبین کے کارڈ پر پریسیڈنٹ آف بھارت دیکھ کر سب چونک گئے اور بات نکل گئی تو پھر دور تلک چلی گئی۔ اب اس پر سیاست بھی گرم ہے اور چہ میگوئیاں بھی۔بھارت نام کو جاری رکھنے کے پس پشت حکومت کی دلیل ہے کہ یہ نام دیش کی وراثت ہے اور سب سے قدیم نام ہے، جبکہ ہندوستان ترکوں کا دیا ہوا نام ہے اور انڈیا انگریزوں کا۔ تاریخ نویسوں نے اس پر ریسرچ کیا تو پتہ چلا کہ عیسی سے بھی کئی سو سال پہلے گریک فلسفی نے انڈس یعنی سندھو ندی کے کنارے بسے اس دیش کو انڈیا کہا تھا اور بھارت نام پڑنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ عیسی سے 3 سال قبل کسی وید مقدس میں منو کو بھارت کہا جاتا تھا ، اس لئے اس کا نام منو کی بنیاد پر بھارت رکھا گیا اور ہندوستان تو جیسا کہا گیا کہ ترکوں ، ایرانیوں اور افغانیوں کی دین ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہاں رہنے والے ہندو ہیں اس لئے اس دیش کو ہندوستان کہاجائے، تو آج کےسیاسی ماحول میں تو سب سے واجب نام ہندوستان ہی ہونا چاہئے تھا کہ اس وجہ سے ہندوراشٹر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا، مگر بات چونکہ اس سے آگے کی ہے اس لئے بھارت پر اکتفا کر لیا گیا۔
ہوا یہ ہے کہ اب تک مودی سرکار بے مہار و بے نکیل اپنی چاہتوں اور خواہشوں کی تکمیل کرتی آئی تھی اور اس کی پیشانی پر کوئی شکن تک دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مودی اور ان کی ٹیم نے اپنے امرت کال میں کیا کیا نہیں کیا۔ نوٹ بندی ، این آر سی ، کسان بل ، سمیت سماجی ناانصافیوں پر خاموشی اور سیاسی طور پر اپوزیشن کو کمزور ترین کردینے کا سہرا اپنے سر سجایا۔ لیکن اب جب اپوزیشن ایک اسٹیج پر جمع ہوا اور خود کو انڈیا الائنس کے طور پر پیش کیا تو یکایک مودی سرکار کو انڈیا سے ہی نفرت ہوگئی۔ پہلے تو انڈیا کو پی ایف آئی اور دیگر بدنام تنظیموں سے جوڑا، مگر اسکل انڈیا ، میک ان انڈیا ، ڈیجٹل انڈیا ،کھیلو انڈیا اور دیگر سرکاری منصوبوں پر نظر گئی تو پھر خاموشی طاری ہوئی، مگر یہ خاموشی ایک مضحکہ خیز فیصلے میں بدل گئی اور پریسیڈنٹ آف بھارت کی شکل میں دعوت نامہ پر سامنے آگئی۔ اس فیصلہ پر مزہ لیتے ہوئے کیجریوال نے کہا کہ اگر ہم اپنے الائنس کا نام بھارت رکھ لیں گے تو کیا سرکار بھارت کا نام بی جے پی رکھ لے گی۔اس معاملہ پر پاکستان سے بھی ایک خبر سامنے آئی کہ انڈس ندی اب پاکستان کا حصہ ہے اس لئے انڈیا کے نام پر اب میرا بھی حق ہونا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: وطن کے سینے پہ خون ناحق کی یہ گہری لکیریں
ہم اس دیش کو شروع سے ہی تین ناموں سے پکارتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، جے ہند ، میرا بھارت مہان، انڈیا دی گریٹ ، چک دے انڈیا، ٹیم انڈیا، یہ سب نعرے اور الفاظ ہمارے اندر حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، مگر ان ناموں سے بھی اگر شکایت ہونے لگے گی تو پھر کیا بچ جائے گا۔ تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ یہ سوچ آئین میں تبدیلی کی طرف بڑھتے قدم کا غماز ہے کیونکہ اگر یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اس دیش کا نام بھارت ہی ہوگا تو آئین میں درج پہلا جملہ India, that is Bharatسے Indiaکو ہدف کر دیا جائے گا اور یوں آئین پر قلم چلانے کی شروعات ہو جائے گی۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بھارت میں جو بھی ایسے کام ہوتے ہیں جس کا تعلق عدالت اور آئین سے ہوتا ہے وہاں سرکار بہت اچھی حکمت عملی اپنا تی ہے۔ بابری مسجد کی مسماری میں کلیان سنگھ کو آگے رکھا گیا، ون نیشن ون الیکشن کے معاملے میں سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند صاحب کو ہیڈ بنایا گیا اور بھارت کے معاملہ کو صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مر مر کے ذریعہ منکشف کیا گیا۔ شاید آپ اشارہ سمجھ رہے ہوں گے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔