دارالعلوم دیوبند کا شعبہ مناظرہ صرف مشق و تمرین کی جگہ ہے، سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنانا بالکل غلط ہے ۔
شیخ ثناء اللہ صادق ساگر تیمی حفظہ اللہ
دار العلوم دیوبند میں بچوں کے بیچ مختلف موضوعات پر مناظرے کی محفل سجائی جاتی ہے ۔ یہ اسی طرح سے ایک مشق ہے جس طرح اداروں میں تحریر و تقریر کی مشق ہوتی ہے ۔ یہ سلسلہ دوسرے اداروں میں بھی ہوگا ، ہم جامعہ امام ابن تیمیہ میں پڑھتے تھے تو ایسی محفلیں سجا کرتی تھیں، ہم طلبہ بڑے شوق سے شریک ہوتے تھے ۔
ابھی یہ موضوع سوشل میڈیا پر گرم ہے ۔ اس مرتبہ مناظرہ کا موضوع مولانا مودودی اور ان کے افکار ہیں ۔ طلبہ کو دو گروہوں میں بانٹا گیا ہے اور مرکزی موضوع کے تحت بعض ذیلی عناوین بھی دیے گئے ہیں ۔ نہ معلوم اشتہارات کس طرح سوشل میڈیا پر آئے ہیں کہ یہ تو درون ادارہ طلبہ کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں جو بالعموم طلبہ انجمنوں کے تحت ہوتی ہیں ۔ خیر ، جماعت اسلامی سے منسلک لوگوں کو اس کی بڑی تکلیف ہے اور وہ اتحاد ملت ، نازک حالات اور اسی قسم کی دوسری باتوں کا حوالہ دے کر اس قسم کے پروگرام کو غلط قرار دے رہے ہیں ۔
میری نظر میں اس پورے موضوع کو زبردستی اتنی اہمیت دی جا رہی ہے ۔ دار العلوم ایک خالص دینی ادارہ ہے اور ایک خاص مکتب فکر کا ترجمان ہے ، مولانا مودودی کے افکار و نظریات سے دیوبند مکتب فکر کا اختلاف بہت واضح ہے ۔ صحابہ کرام ، نظام عبادت ، احادیث رسول کی حیثیت و مقام اور تاریخ کے سلسلے میں مولانا مودودی کے نظریات سے لگ بھگ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کو بنیادی اور اصولی اختلاف ہے ۔ دار العلوم میں ظاہر ہے کہ دیوبندی مکتب فکر کی ہی تعلیم ہوتی ہے اور یہی کوشش ہوتی ہوگی کہ اسی مکتب فکر کو صحیح ثابت کیا جائے ۔ اس کے لیے وہ اور دوسرے طریقوں کے ساتھ مناظرہ کو بھی کام میں لاتے ہیں ۔
میرے خیال میں لگ بھگ تمام مکاتب فکر کے اداروں میں یہی ہوتا ہے ۔ دیوبند میں میری معلومات اگر درست ہوں تو رد غیر مقلدین کا بھی ایک شعبہ ہے یعنی ہم حضرات اہل حدیث پر بھی وہ رد کرتے ہیں اور دوسرے مکاتب فکر پر بھی کرتے ہیں ۔ بنیادی سوال یہی ہے کہ جب ادارہ ان کا ہے ، طرز تدریس و تعلیم ان کے مطابق ہے تو وہ کسی اور کے طریقے کو کیوں اپنائیں ؟ مجھے اس پروگرام کی بجائے اس پورے سیٹ اپ پر گفتگو کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ اس قسم کے مناظروں سے واقعی طلبہ کی استعداد بڑھتی ہے یا حالات کے مطابق اس طریقے کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ بجائے مناظرہ کے مثبت اور نتیجہ خیز مکالمے کی فضا بنائی جانی چاہیے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دنیا زیادہ آگے نکل گئی اور ہم اب بھی پیچھے ہیں ؟ ۔
جماعت کے پڑھے لکھے احباب بھی تھوڑا زیادہ ہی ہنگامہ کر رہے ہیں ۔ دیوبند اپنے طلبہ کی تربیت کر رہا ہے ، مولانا مودودی کے مسموم نظریات سے انہیں بچانے کی کوشش کر رہا ہے ، ان پر مولانا مودودی کی غلطیاں واضح کر رہا ہے ، آپ کو تکلیف ہو رہی ہے لیکن یہی کام تو کسی نہ کسی زاویے سے آپ بھی کرتے ہیں ۔ وہ تو ایک خاص مکتب فکر کے ترجمان ہیں ، ان کا ایک معروف و معلوم فقہی مسلک ہے ، لیکن آپ تو اتحاد ملت کے علمبردار ہیں ، کبھی اس طرف بھی نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ آپ کے پروردہ لوگوں کا رویہ بھی کیا ہے ؟ کبھی ان کی بھی خبر لے لیں ۔
مسئلہ یہی ہے کہ ایک ادارے کے طلبہ انجمن کی ایک سرگرمی آپ کو اس قدر بے چین کر دیتی ہے کہ آپ بڑے بڑے مضامین لکھ کر طوفان مچا دیتے ہیں اور دوسری طرف خود آپ کے لوگ دوسری شخصیات ، مکاتب فکر اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں گستاخانہ رویہ اپناتے رہتے ہیں اور آپ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں ۔ اگر یہ منافقت ہے تو یہ واقعی تکلیف دہ صورت حال ہے کہ اس میں آپ کا بھی حصہ کم نہیں ہے ۔