Slide
Slide
Slide

غیر پارلیمانی زبان- کیا یہ نیو نارمل ہے؟

تحریر: مسعود جاوید 

پہلے عام بول چال میں بھی ایسے الفاظ کا استعمال معیوب سمجھاجاتا تھااور کہا جاتا تھا کہ آپ غیر پارلیمانی زبان کا استعمال کر رہے ہیں جو مہذب معاشرہ میں قابل قبول نہیں ہے۔‌

پارلیمانی زبان اپنی بات ایسے اسلوب میں کہنے کو کہتے ہیں جس سے متکلم کا مافی الضمیر بھی ادا ہو جائے اور کسی کے جذبات بھی مجروح نہ ہوں ۔ براہ راست یہ کہنا کہ ” آپ جھوٹ بول رہے ہیں” یہ غیر پارلیمانی زبان ہے یعنی ایوان میں یہ انداز بیاں قابلِ قبول نہیں ہے۔ اسے ادا کرنے کے لئے ایوان کی زبان ہے ” آپ کی بات میں صداقت نہیں ہے” یا ” آپ کی بات بے بنیاد ہے ” یا آپ کی بات حقیقت سے میل نہیں کھا رہی ہے ” ۔ 

پچھلے چند سالوں کے دوران گلی محلے کے غنڈوں موالیوں ان پڑھ جاہلوں میں کسی مخصوص طبقہ یا علاقہ کے لوگوں کے لئے ایسی زبان کا استعمال سول سوسائٹی  برداشت کرتی رہی جس کا نتیجہ ہے کہ اب یہ بھونڈی زبان  ایوان پارلیمان تک پہنچ گئی۔‌ پارلیمنٹ میں مقتدر پارٹی کے ایک رکن پارلیمینٹ دوسرے مسلم رکن پارلیمینٹ کے خلاف ایسی ٹپوریوں والی زبان استعمال کرتا رہا اور ممبران پارلیمنٹ میں سے کسی نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ! اسی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید  اب یہ نیو نارمل ہو چکا ہے ۔ شاید اب غیر پارلیمانی زبان ماضی کی داستان بننے والی ہے ۔‌

ایسا لگتا ہے کہ گنگا جمنی تہذیب ، پرامن بقائے باہم،  آئیڈیا آف انڈیا، سیکولرازم یعنی ریاست اور حکومت کا کوئی مذہب نہیں ، تاہم ہر شہری کو اپنی پسند کے مذہب کی اتباع کی مکمل آزادی اور سوشلزم یعنی سماج کے عام انسان کی قوت خرید کے مطابق ضروری اشیاء اور سروسز مہیا کرانا ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے،  جیسی اصطلاحات عنقریب عنقا ہونے والی ہیں۔  نئی نسل اسے ڈکشنری لغات میں ڈھونڈیں گی ! ممکن ہے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں پارلیمانی زبان کی بھی نئی تعریف defination مقرر کی جائے ؟۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: