تحریر: معصوم مرادآبادی
میں 1977میں جب دہلی آیا تو یہ وہ تاریخی دن تھا جب مرکز میں جنتا پارٹی کی سرکار بنی تھی اور مرارجی ڈیسائی نے وزیراعظم کے طورپر حلف لیا تھا۔یہ 25مارچ 1977کی تاریخ تھی۔ خاص بات یہ تھی کہ اسی روز شام کو مرارجی کابینہ میں شامل کئے گئے وزیروں نے گاندھی سمادھی پر ایمانداری اور سچائی سے کام کرنے کا حلف بھی اٹھایا تھا۔ مرارجی ڈیسائی آزاد ہندوستان کے پہلے غیرکانگریسی وزیراعظم تھے۔اندراگاندھی نے 26جون 1975کو ملک میں ایمرجنسی نافذ کرکے اپنے سیاسی اور غیرسیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ایمرجنسی کے دوران ملک میں جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان واقعات وحادثات سے سبھی واقف ہیں۔ ان ہی مظالم کے نتیجے میں اندرا گاندھی نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئیں بلکہ خود بھی رائے بریلی سے راج نارائن کے ہاتھوں چناؤ ہارگئیں۔ اس عبرتناک شکست کے بعد اندرا گاندھی کی حالت کیا تھی، یہاں یہی بتانا مقصود ہے۔مجھے پرانی دہلی کے کانگریسیوں کے ایک گروپ کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر جانے کا موقع ملا۔یہ کارکنان علاقہ جامع مسجد کی گلی مٹیا محل سے تعلق رکھتے تھے، جہاں میں آکر مقیم ہوا تھا۔ماموں عبیدالرحمن خاں کے گھر سے متصل مکان میں کانگریس کی ورکر جمیلہ بیگم رہا کرتی تھیں جنھیں ہم لوگ’چچی جان‘کے نام سے جانتے تھے۔ وہ ایک دوسری سینئرخاتون کانگریسی ورکر ’آپا آمنہ‘ کے ساتھ کانگریس کے لیے کام کرتی تھیں۔آپا آمنہ نے ہی اس ملاقات کا اہتمام کرایا تھا۔اس وقت کانگریس کی پوزیشن اس حد تک خراب تھی کہ بس بھرنے کے لیے ہم جیسے بچوں کو بھی اس گروپ میں شامل کیا گیا تھا۔ میری عمر اس وقت پندرہ برس تھی۔آگے بڑھنے سے پہلے میں اس گلی مٹیا محل کا تعارف کراتا چلوں، کیونکہ یہ سیاسی، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے اس علا قہ کی سب سے اہم گلی تھی۔
یوں تو شاہجہانی جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے سامنے والے علاقہ کو مٹیا محل کہا جاتا ہے، لیکن اصل گلی مٹیا محل گلی کبابیان، کٹرہ گوکل شاہ اور گلی گڑھیاکے بعد واقع ہے اور یہ اس علاقہ کی سب سے چوڑی گلی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں داغ دہلوی کے شاگرد استاد بیخود دہلوی کا بھی مکان تھا، لیکن ہمارے زمانے میں یہ گلی دومختلف اور متضاد سیاسی وابستگیاں رکھنے والی بیگمات کے حوالہ سے زیادہ مشہور تھی۔ یہ تھیں بیگم خورشیدہ قدوائی اور بیگم حبیبہ قدوائی۔بیگم خورشیدہ قدوائی جہاں بی جے پی کی مقامی لیڈر تھیں تو دوسری طرف بیگم حبیبہ قدوائی کانگریسی کارکن تھیں اور سابق گورنر اخلاق الرحمن قدوائی کی سگی بہن تھیں۔ بیگم حبیبہ قدوائی بالک ماتا سینٹر چلاتی تھیں جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ایک شاخ تھی اور وہ اسی وسیع وعریض عمارت کی اوپری منزل پر رہا کرتی تھیں۔ایک خاص بات یہ تھی کہ بیگم حبیبہ قدوائی جب بھی گھر سے نکلتیں تو وہ سفید ساڑی میں نہایت وقار کے ساتھ نکلتی تھیں۔ جب کہ بیگم خورشیدہ قدوائی کا معاملہ مختلف تھا، وہ ایک سیاسی کارکن کی طرح زندگی گزارتی تھیں۔ ان کے خلاف جب بھی کوئی پوسٹر نکلتا تو انھیں ’بی جے پی کی اکلوتی بیگم‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔گلی مٹیا محل سے کچھ فاصلے پر واقع چوڑی والان میں بی جے پی کے ایک اور لیڈر مولانا امداد صابری بھی رہا کرتے تھے۔وہ دہلی میٹروپولیٹن کے ڈپٹی میئر بھی رہے۔ مولانا امداد صابری کی شناخت اردو صحافت کے محقق کے طورپر بڑی مستحکم ہے۔ انھوں نے پانچ ضخیم جلدوں میں "تاریخ صحافت اردو” لکھی ہے۔ اس کے علاوہ اردو کے اخبارنویسوں کے حالات بھی قلم بند کئے ہیں۔ ان کی تصنیف شدہ کتابوں کی تعدار 100کے آ س پاس ہے۔ لیکن یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ سیاسی طورپر پہلے جن سنگھ اور پھر بی جے پی سے وابستہ تھے اور جس زمانے میں وہ اس کے ٹکٹ پرمیٹرو پولیٹن کے ڈپٹی چیئرمین چنے گئے تھے تو اکثر رکشہ میں نظر آتے تھے ۔ ان کے ساتھ ان کی مہر بھی ہوتی تھی جسے وہ حاجت مندوں کی درخواستوں پر لگاکر دستخط کردیا کرتے تھے۔بعد کو انھوں نے بابری مسجد کے مسئلہ پر بی جے پی سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔اس موقع پر میں نے ان کا ایک انٹرویو بھی کیا تھا۔
بات اندرا گاندھی سے شروع ہوئی تھی اور وہ گلی مٹیا محل کے سیاسی محل وقوع تک دراز ہوگئی۔ بہرحال ایک روز یوں ہوا کہ ’چچی جان‘ کے ہاں سے بلاوا آیا کہ ہمیں اندرا گاندھی کے پاس چلنا ہے۔ سابق وزیراعظم کو دیکھنے کا شوق ہمیں وہاں لے گیا۔ وہاں پہنچے تو نظارہ ہی کچھ اور تھا۔ یہ تو یاد نہیں کہ شکست کے بعد مسز اندرا گاندھی صفدر جنگ روڈ کی اپنی کوٹھی سے کہاں منتقل ہوئیں تھیں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ یہ ایک ویران سی کوٹھی تھی، جہاں کوئی چہل پہل نہیں تھی۔ ہمیں کوٹھی کے لان میں بٹھا دیا گیا۔ کچھ دیر بعد اندر سے مسز گاندھی برآمد ہوئیں۔ ان کے چہرے پر مایوسی تھی اور اردگرد کا ماحول پر بھی بڑا غیر متاثر کن تھا۔ انھوں نے ہم لوگوں سے کچھ باتیں کیں اور کہا کہ کانگریس کو دوبارہ اسی حالت میں واپس لانا ہے، جہاں وہ پہلے تھی۔ اس کے لیے آپ لوگوں کو رات دن محنت کرنی ہوگی۔ بلاشبہ یہ وہ دور تھا جب کانگریس اور مسزاندرا گاندھی کی حالت بہت خراب تھی، لیکن وہ پرانے دنوں کو واپس لانا چاہتی تھیں۔ کسے معلوم تھا کہ ان کے اس خواب کو پورا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ جنتا پارٹی کے اندرونی تضادات کی وجہ سے مرارجی ڈیسائی 28 جولائی1979 کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ چودھری چرن سنگھ اور راج نارائن نے جنتا پارٹی کی سرکار زمیں دوز کردی۔ اندرا گاندھی 1980میں دوبارہ اقتدار میں آگئیں اور کانگریس کو دوبارہ کھڑا کرنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔بدقسمتی سے 31 اکتوبر 1984کو اپنے ہی دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں ان کی ہلاکت ہوئی اور اس کے بعد ہوئے چناؤ میں راجیو گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو زبردست کامیابی ملی۔
دہلی میں اپنے ابتدائی ایام کی دوباتیں اور آپ کو بتانا چاہوں گا۔ 1978میں ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی دہلی آئے تو انھیں لال قلعہ میں عوامی استقبالیہ دیا گیا تھا۔ اس کے پوسٹر دیواروں پر لگے تھے۔ رضا شاہ پہلوی کو دیکھنے کے شوق میں ہم لال قلعہ گئے اور دیوان عام میں ان کے استقبالیہ میں شرکت کرکے خوشی کا احساس ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ اسی دور میں امریکی صدر جمی کارٹر بھی ہندوستان آئے تھے اور انھیں ترکمان گیٹ کے نزدیک رام لیلا میدان میں استقبالیہ دیا گیا تھا۔ راقم نے اس میں بھی شرکت کی تھی۔پوسٹروں کا ذکر ہوا ہے تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ جب صبح کو ہم دودھ لینے کے لیے گھر سے نکلتے تھے تو پہلی نظر گلی مٹیا محل کے نکڑ پر لگے پوسٹروں پر پڑتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پرانی دہلی میں روزانہ کوئی نہ کوئی چونکانے والا پوسٹر دیواروں پر چسپاں ہوتا تھا۔ یہ رات کی تاریکی میں کسی وقت یہاں لگتا تھا اور لگانے والے اکثر غیرمرئی ہاتھ ہوتے تھے۔ کیونکہ ان پوسٹروں میں اکثر کسی سیاسی کارکن کی کردار کشی اور ہتک ہوتی تھی جو اس کے سیاسی مخالفین کا کارنامہ ہوتا تھا۔ اگلے روز اسی شدو مد کے ساتھ اس کا جواب بھی دیا جاتا تھا۔ ان پوسٹروں کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں دہلی کی ٹکسالی زبان کا چٹخارہ ہوتا تھا، اس لیے ان کو پڑھ کر لطف اندوز ہونے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔پوسٹر لکھنے والوں میں رضوان احمد صدیقی، بہار برنی اور ڈاکٹر صلاح الدین جیسے لوگوں کے نام شامل تھے۔یہیں مٹیا محل کے قریب سعید خاں کی ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی، جہاں ہرروز شام کو سیاست داں، صحافی اور سماجی کارکن رات گئے تک ہندوستانی سیاست کی گتھیاں سلجھاتے تھے۔ سعید خاں کونسلر رہ چکے تھے اور ایک خوش پوش سیاسی کارکن تھے۔ان کی سیاسی سوجھ بوجھ بھی غضب کی تھی۔