محمد قمرالزماں ندوی، استاذ مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ ، پرتاپ گڑھ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کردار کے انگنت پہلو ہیں ، جن کا شمار کرانا تقریبا ناممکن ہے ۔ کسی انسان کا عظیم ہونا اس کے عظمت کردار سے ہی عبارت ہوتا ہے۔کردار کی عظمت ہی وہ کسوٹی ہے جو کسی انسان کو عظیم بناتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی گواہی اور شہادت خود قرآن نے ان الفاظ میں دی :
انک لعلی خلق عظیم
بیشک آپ اخلاق کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں۔
مسلمانوں کو آپ کی عظمت میں کیا شک ہوسکتا ہے ، غیر مسلموں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا اقرار کیا ہے ۔ کیوں کہ تاریخ نے یہ ثابت کیا ہےاور یہ گواہی دی ہے کہ آپ نے ایک ایسی قوم اور سماج میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا کرکے دکھلایا، جس سماج اور سوسائٹی کے لوگ ہر طرح کے فتنہ و فساد میں ڈوبے ہوئے تھے، سنگ دلی اور قتل و غارت گری میں جو سفاک درندے بن چکے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کردار کے پہلو میں دیانت ۔ عدالت ۔ صداقت ۔ شجاعت، انسانی ہمدردی ۔ غمگساری و ہمدردی صبر و ثبات عفو در گزر اور اس کی تلقین، معاشرتی مساوات قانونی مساوات یہ سب شامل ہیں ۔ ہم یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برپا کردہ معاشرتی اور قانونی مساوات پر مختصرا گفتگو کریں گے ۔
معاشرتی مساوات و برابری کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان اپنے آپ کو معاشرہ کا ایک فرد سمجھے لوگوں میں گھل مل کر رہے ۔ان کے دکھ درد خوشی و غمی میں شریک رہے، ہر ایک کی ضرورت کے وقت شریعت کے حدود میں رہتے ہوئے کام آئے، اس کی مدد و نصرت میں آگے آگے رہے ۔
یہ بھی پڑھیں: کسب معاش اور تعلیماتِ نبوی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو جب ہم اس حیثیت سے اور اس ناحیے سے پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہےاور تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مجلس میں صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم سے کسی بلند جگہ پر بیٹھے ہوں اور صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نیچے بیٹھے ہوں ۔جیسا کہ آج کل کے مصنوعی پیر و مرشد اور سجادہ نشینوں کا طرز اور دستور ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر اور بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ،حتی کہ غلاموں اور خادموں کو بھی اپنے ساتھ اور اپنے قریب بٹھاتے تھے ۔
معاشرتی اور سماجی مساوات کا ایک اور پہلو تنگی ترشی میں برابر کی شرکت ہے ۔ اس پہلو سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سب سے نمایاں اور ممتاز ہے ۔ شعب ابی طالب میں مسلمان اور ان کے ساتھی معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے تقریباً تین سال تک محصور رہے ۔اس دوران اکثر فاقہ کشی کی نوبت آتی رہی ۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دوسروں کو چھوڑ کر آپ کو کھانا مہیا کیا جاتا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو گوارا فرمایا ہو ۔
جنگ احزاب کے دوران خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوا ۔ معاشی لحاظ سے یہ انتہائی تنگی اور عسرت کا وقت تھا ۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی کھدائی کا کام جاری رکھتے ۔ اس دوران صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشاہدہ کیا کہ آپ کے پیٹ پر تو دو دو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔
غزوات اور جنگوں میں عموما سواری کم میسر آتی تھی اور غزوئہ ذات الرقاع میں تو چھ آدمیوں پر ایک سواری آئی تھی ۔ ایسے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے الگ سے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے صحابہ کی طرح باری باری سے سواری پر سوار ہوتے اور صحابئہ کرام کے اصرار کے باوجود اپنی باری کے علاوہ سوار ہونا گوارا نہ فرماتے تھے۔
معاشرتی اور سماجی مساوات کا تیسرا پہلو کام کاج میں برابر کی شرکت ہے ۔ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی تعمیر جب شروع ہوئی تو جیسے صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم اینٹ پتھر گارا اٹھا کر لا رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لا رہے تھے اور ہر کام میں برابر کے شریک تھے ۔ جنگ احزاب کے دوران خندق کی کھدائی کا کام شروع ہوا تو کھدائی میں جتنا حصہ ایک صحابی کے ذمہ تھا ۔ اتنا ہی حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذمہ بھی لگایا تھا ۔
ایک دفعہ دوران سفر اسلامی فوج نے کسی مقام پر پڑاو ڈالا اور کھانے پکانے کے کام کو آپ نے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم فرما دیا ۔ اور خود غائب ہوگئے ۔ صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے غائب ہونے پر کچھ پریشان سے ہوئے ۔ تھوڑی دیر بعد صحابہ کرام نے دیکھا کے آپ جنگل سے ایندھن لکڑی اکٹھا کرکے لا رہے ہیں ۔ ایک روایت یہ کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ذمہ لیا تھا ۔
یہ وہ عادات و اطوار ہیں، جو سماجی اور معاشرتی اعتبار سے کسی کے کرادر کے عظمت کا زندہ ثبوت ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کردار کا ایک پہلو عدل و انصاف اور قانونی مساوات سے دنیائے انسانیت کو روشناس کرانا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے سماج اور سوسائٹی کو جو ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی جہاں انسانیت کراہ اور سسک رہی تھی،ہر طاقت ور اپنے سے کمزور پر ظلم کو روا سمجھتا تھا ،جہاں طوائف الملوکی اور بدامنی کا دور دورہ تھا ،جہاں قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز نہ تھی،جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا ماحول تھا ۔ ایسے ماحول میں آپ نے عدل پروری اور مساوات کا بگل بجایا اور قانون کی حکمرانی و بالادستی اور قانون کا سکہ رائج کیا اور کسی کو قانون سے بالاتر تر ہونے کی اجازت نہیں دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے کو بھی یی کہہ کر عوام کی عدالت میں پیش کیا کہ جس کسی کو مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو، وہ آج لے سکتا ہے ۔ اس اعلان پر ایک صحابی نے ایسا مطالبہ کردیا جس میں حب نبوی اور عشق رسول کی کی سچی تصویر نکھر کر سامنے آتی ہے اور آپ کا وصف عدالت بھی نکھر کر سامنے آتا ہے ،جس کی تفصیلات ہم یہاں بخوف طوالت بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو دوسروں سے بالا تر اور قانون کی گرفت سے آزاد نہیں سمجھتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان رشتہ دار اور قریبی لوگوں کے ساتھ بھی قانونی مساوات کو جاری رکھا اور کسی کے ساتھ کوئی ادنیٰ رعایت نہیں کی ۔
یہ بھی پڑھیں:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ایک ذیلی شاخ بنو مخزوم کی عورت فاطمہ مخزومیہ نے چوری کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ والوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ اگر اس قریشی عورت کے ہاتھ کاٹے گئے تو عرب بھر میں قبیلہ والوں کی ناک کٹ جائے گی ۔ لہذا انہوں نے اس سزا سے درگزر یا تبدیلی کے لئے سفارش کی راہیں ہموار کرنا شروع کیں ۔ بالآخر بہت غور و خوض کے بعد حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بہت محبوب اور چہیتے تھے ، جن کو آپ اپنے نواسے اور اولاد کی طرح مانتے تھے، ان لوگوں نے سفارش کے لئے ان کو کسی طرح تیار کیا جب حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سرخ و متغیر ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برسر ممبر ارشاد فرمایا : یا اسامہ ! اتشفع فی حد من حدود اللہ الخ ۔
اسامہ ! تم اللہ کی حدود کے سلسلہ میں سفارشی بن کر آئے ہو ؟ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر کوئی مالدار بڑا اور طاقتور آدمی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کر دی جاتی ۔ اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ مخزومی کی بجائے فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بے لاگ فیصلہ کا اور قانونی مساوات برپا کرنے کا نتیجہ اور اثر یہ ہوا کہ جو عرب قانون کی حکمرانی اور بالادستی اور عدل و انصاف سے کوسوں دور تھے، وہاں عدل و انصاف کا سکہ رائج ہوگیا اور قانونی مساوات سے کوئی اپنے کو الگ نہیں سمجھنے لگا ۔
آج بھی اگر حکومتیں ادارے اور جماعتیں اس معاشرتی اور قانونی مساوات کو نافذ کرلیں، تو دنیا جنت نشان بن جائے ہر طرح کا انتشار اور ظلم و برائی اور فتنہ و وفساد کا خاتمہ ہوجائے اور پھر کم کسی کو کسی سے نفرت اور شکوہ و شکایت کا موقع مل سکے ۔