Slide
Slide
Slide

گودی میڈیا اور ریلی نہیں ریلا

شکیل رشید،  ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز

اتوار کے روز دہلی کے رام لیلا میدان میں سات لاکھ سرکاری ملازمین کا جمع ہونا ، اور مرکزی حکومت سے نئی پنشن اسکیم کو ختم کر کے اس کی جگہ جونی پنشن اسکیم کو بحال کرنے کا مطالبہ کرنا ، کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب ملک کی بیس ریاستوں سے اتنی بڑی تعداد میں ، جسے ریلی نہیں ریلا کہا گیا ہے ، سرکاری ملازمین ایک ساتھ ایک مقام پر جمع ہوئے تھے اور سب نے ایک زبان ہوکر ’ جملے والی سرکار ‘ سے ایک ایسی اسکیم کو ، جسے وہ اپنے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہیں ، اور جس کے خلاف وہ ابتدا ہی سے اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں ، ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کی گہار لگائی تھی ۔ سرکاری ملازمین کا یہ اتحاد کا زبردست مظاہرہ تھا ۔ لیکن جیسا کہ مرکز کی نریندر مودی کی حکومت کی فطرت رہی ہے ، اس مظاہرے پر نہ کوئی توجہ دی گئی اور نہ ہی زرخرید میڈیا کو توجہ دینے دیا گیا ، اسے اسی طرح نظرانداز کیا گیا جیسے کسانوں کے احتجاج کو ابتدا میں نظرانداز کیا گیا تھا ۔ یہاں نئی اور جونی پنشن اسکیم میں نہ موازنہ کرنا مقصود ہے اور نہ ہی دونوں کے نقصانات و فوائد پر روشنی ڈالنا ، بس یہ بتانا مقصود ہےکہ اس ملک میں صحافت کچھ اس طرح سے پابندیٔ سلاسل ہے کہ ایک غیر معمولی واقعہ کی رپورٹنگ تک اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی ، اگر وہ واقعہ مودی حکومت کے ذرا سا بھی خلاف ہو ۔ سات لاکھ سرکاری ملازمین کا ایک میدان میں جمع ہونا اور یک جٹ ہوکر اپنے مطالبے کے لیے آواز بلند کرنا گودی میڈیا کی نظر میں نہ کوئی واقعہ تھا ، نہ کوئی خبر ! اور اس کا بس ایک سبب تھا ؛ یہ کہ میدان پر جمع سرکاری ملازمین ’ جملے والی سرکار ، نہیں چاہیے اب کی بار ‘ کے نعرے لگا رہے تھے ۔

 ظاہر ہے کہ یہ نعرہ مرکز کی مودی سرکار کے خلاف تھا ، اور گودی میڈیا یہ ہمت نہیں کر پایا کہ ایسے نعرے جس ریلی میں لگ رہے ہوں اُس ریلی کی رپورٹنگ کرے ۔ نئی پنشن اسکیم اور جونی پنشن اسکیم کا معاملہ جنوری ۲۰۰۴ء سے گرم ہے ۔ یہ اسکیم دسمبر ۲۰۰۳ء میں لائی گئی تھی ، اور اس کا نفاذ جنوری میں ہوا تھا ۔ اس وقت اٹل بہاری واجپئی کی سرکار تھی ، اور یہ اسکیم بڑے جوش و خروش کے ساتھ متعارف کرائی گئی تھی ۔ نئی پنشن اسکیم کے تحت جونی پنشن اسکیم کی طرح ملازمین کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد مقررہ پنشن کی شق ختم کر دیی گئی تھی ۔ جونی پنشن اسکیم کے تحت ریٹائرمنٹ کے وقت کسی ملازم کو جو آخری تنخواہ ملتی تھی اس کا نصف یعنی پچاس فیصد اُسے پنشن کی شکل میں ملتا تھا ۔ نئی اسکیم میں ملازمین کی شراکت کی شق ہے ، جس کے تحت رقم کو سیکیورٹیز وغیرہ میں لگایا جاتا ہے ، لہذا اس میں جونی اسکیم کی طرٖح یہ طئے نہیں ہوتا کہ ایک مقررہ رقم ملازمین کو ملے گی ۔ اِس اسکیم کے فائدے بھی گنائے جاتے ہیں ، اور نقصانات بھی ۔ ایک بڑا فائدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ملازمین کو اِس اسکیم کے تحت مقررہ رقم کے مقابلے کہیں زیادہ رقم مل سکتی ہے ۔ جونی اسکیم کا سب سے بڑا نقصان یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بڑا بار پڑتا تھا ، جو نئی اسکیم میں نہیں پڑے گا ۔ خیر جو بھی نقصان اور فائدہ ہو ، اس ملک کے سرکاری ملازمین کی اکژیت اس نئی پنشن اسکیم کی مخالفت کر رہی ہے ، اور یہ مخالفت ۲۰۰۴ء ہی سے شروع ہو گئی تھی ۔ دہلی میں اتوار کو جو یہ ’ پنشن سنکھ ناد ریلی ‘ نکالی گئی تھی ، اسے انّا اندولن کے بعد کا سب سے بڑا آندولن کہا جا رہا ہے ۔ جب انّا آندولن کی بات کی جائے گی تو آر ایس ایس کا ذکر بھی آئے گا ، اپوزیشن کا بھی ، اور کرپشن کے خلاف سرگرم این جی اوز کا بھی ۔ اُس آندولن کو جو زبردست تعاون حاصل تھا ، ویسا تعاون اِس آندولن کو حاصل نہیں ہے ، بالخصوص آر ایس ایس اس آندولن کے ساتھ نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود یہ آندولن انّا آندولن جیسا ہی ، یا یہ کہہ لیں کہ اس سے بھی بڑے آندولن کی شکل میں سامنے آیا ہے ۔ انّا آندولن کا مقصد من موہن سنگھ کی سرکار کو نشانے پر لینا تھا ، اور یہی کیا گیا ، نتیجتاً من موہن سنگھ کی سرکار پھر نہیں بن سکی ۔ لیکن یہ آندولن ، باوجود اس کے کہ اسے اپوزیشن کے اتحاد ’ انڈیا ‘ کی حمایت حاصل ہے ، سیاسی نہیں ہے ۔ اس آندولن کے لیڈران کا یہ واضح پیغام تھا کہ اگر الیکشن جیتنا ہے تو جونی پنشن اسکیم دوبارہ لاگو کی جائے ، ورنہ یہ ’ جملے والی سرکار ‘ دوبارہ منتخب نہیں ہو پائے گی ۔

گودی میڈیا نے اس ریلی یا ریلے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ، ویسے صبح کے اخبارات میں ریلی کی خبریں اہتمام کے ساتھ شائع ہوئی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا گودی میڈیا جو کر رہا ہے اُسے صحافت کہا جا سکتا ہے ؟ اس کا جواب ’ نہیں ‘ میں ہے ۔ لیکن گودی میڈیا کی یہ اپنے فرائض سے لاپروائی اس ملک کے لیے ، آزاد صحافت کے لیے ، جمہوریت کے لیے اور عوام کے لیے انتہائی تشویش ناک ہے ۔ تشویش ناک اس لیے کہ عوام کو خبریں جاننے کا حق ہے ، اس حق سے انہیں گودی میڈیا محروم کر رہا ہے ، اور اگر خبریں دیتا بھی ہے تو مسخ کر کے ۔ اس کا کیا علاج ہے ؟ اس سوال پر غور کرنا ازحد ضروری ہے ۔ ویسے ایک علاج ہے ؛ کیوں نہ ، گودی میڈیا جیسے اہم خبروں کو ، اہم واقعات کو نظرانداز کرتا ہے ، ویسے ہی عوام گودی میڈیا کو نظرانداز کرنے لگیں !

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: