از قلم: حافظ محمد عابد مدرسہ اشاعت الاسلام و ناظم جمعیتہ علماء حلقہ قصبہ لاوڑ ضلع میرٹھ
خدا یاد آوے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل رحمانی
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہیں کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہیں کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بالکل بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز نہ کپڑوں کو لگے پانی
ان اشعار کا مطالعہ کیجئے اور حضرت اقدس مجاہد ملت ثانی حضرت مولانا حکیم الدین قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ناظم عمومی جمعیتہ علماء ہند کی زندگی پر نگاہ ڈالئے ، صاف ظاہر ہوتاہے کہ حضرت مدظلہ جیسے حضرات ہی کی شان میں یہ اشعار کہے گئے ہیں ۔
حضرت ناظم عمومی کی ذات گرامی امت مسلمہ کے لئے ایک عظیم نعمت ہے ، ویسے تو حضرت کی پوری زندگی کرامت ہے ، مگر لاک ڈاؤن کے زمانے میں بطورِ خاص تبلیغی جماعت کے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کو باعزت طریقے سے ان کے وطن میں پہونچانے کا آپ نے جو انتظام کیا وہ قابل تحسین ہے ۔
سوشل میڈیا سے واقف ہر انسان جانتا ہے کہ منظم پلاننگ اور منصوبے کے ساتھ حکومت وقت نے تبلیغی جماعت کو بدنام و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔دہلی پولیس کے ذریعے مرکز نظام الدین کو سیل کئے جانے کے بعد وہاں موجود 4000 سے زائد ملکی و غیر ملکی مہمانوں کو کورنٹائن کے نام پر قید کردیا گیا، اور ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ، پورے ملک میں تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی دھر پکڑ شروع ہوگئی ، گودی میڈیا نے ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا کہ الامان و الحفیظ ۔
سارے بیہودہ کاموں کو تبلیغی بھائیوں سے منسوب کر دیا گیا ، کہیں پر الزام لگایا کہ اسپتالوں میں نرسوں کے سامنے برہنہ ہوتے ہیں ، تو کہیں پاکستان سے لنک جوڑے گئے ، اور کورونا پھیلانے کا ذمّے دار ٹھہرایا گیا ۔ حضرت جی مولانا سعد صاحب کو سنگین دفعات کے تحت خطرناک ملزم قرار دے دیا گیا ، طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگائے گئے ۔ حتیٰ کہ بنگلہ والی مسجد مرکز کو بلڈوزر کے ذریعے منہدم و مسمار کرنے کا پورا منصوبہ تیار کرلیا تھا ، مسلمانوں میں خوف ودہشت کا ماحول تھا ۔
ایسے نازک وقت میں قائد ملت فخر قوم صدر جمعیتہ علماء ہند جانشین فدائے ملت حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم العالیہ نے بنفس نفیس پورے معاملے کو وزیر داخلہ اور وزیراعظم کے سامنے اس زوردار طریقے سے اٹھایا کہ حکومت کو فیصلہ بدلنے پر مجبور کر دیا ۔آپ نے حضرت ناظم عمومی کو تبلیغی جماعت کی ریلیف سے متعلقہ امور کی ذمہ داری عنایت فرمائی ۔مصیبت کی اس گھڑی میں حضرت مدظلہ کی خدمات یقیناً آب زر سے لکھی جائیں گی کہ جان کی پرواہ کیے بغیر
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ۔
حضرت ناظم عمومی نے کورنٹائن سینٹرس کا دورہ فرمایا ، جہاں پر تبلیغی حضرات شدید پریشانیوں سے دوچار تھے ، کورنٹائن سینٹرس کے حالات جیل خانوں سے بھی بدتر تھے ، پینے کے پانی کا بھی نظم نہیں تھا ، بیت الخلا کا پانی پینے پر مجبور تھے ۔
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہو چکا تھا ، آپ کی نگرانی میں جمعیتہ علماء ہند نے کورنٹائن سینٹرس میں تبلیغی حضرات کے لئے افطار و سحری اور دیگر ضروریات کا نظم کیا ۔ اور ان کی رہائی اور وطن واپسی کے لئے آپ نے رات اور دن ایک فرمادئے۔ افسران سے ملاقاتیں کرکے ان پر درج مقدمات ہٹوائے، اسی لاک ڈاؤن کے زمانے میں ان کو رہا کرا کر اسپیشل بسوں اور ٹرینوں سے ملک بھر کے مختلف حصوں کے مہمانوں کو ان کے وطن روانہ کیا ۔
غیر ملکی مہمانوں کو کورنٹائین سینٹرس سے آئی ٹو او جمعیتہ دفتر دہلی میں منتقل کیا ، جہاں سے قانونی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد با عزت طور پر ان کے وطن روانہ کیا ۔اس بھاگ دوڑ اور مسلسل اسفار میں آپ نے اپنے رفقاء کے ساتھ کئی نمازیں اور تراویح سڑک کنارے ہی ادا فرمائی ، روزے بھی سڑکوں اور گاڑی میں ہی افطار فرمائے ۔آپ تبلیغی جماعت کی خدمت اور نگہبانی میں ایسے مصروف ہوئے کہ مسلسل بے آرامی اور تھکن کی وجہ سے سخت علیل اور کورونا کے شکار ہوگئے ۔ نقاہت و کمزوری کا یہ عالم ہو گیا کہ کئی کئی گھنٹے بیہوشی طاری رہتی تھی، کئی روز ڈاکٹروں کی خصوصی نگہداشت میں رہے ۔
مگر قربان جائیے امت محمدیہ کے اس جانباز مجاہد پر کہ اس عالم میں بھی تبلیغی مہمانوں کی اتنی فکر تھی کہ ہوش آنے پر پہلا جملہ زبان اقدس سے نکلتا ہے تو فرماتے ہیں کہ ،ان مہمانوں کا کیا ہوا؟۔آپ کے رفقاء آپ کو ان کی خیر وعافیت اور رہائی کی اپڈیٹ سے با خبر کراتے تو آپ راحت محسوس کرتے ۔
انہیں دنوں جمعیتہ علماء ہند کی کوششوں سے ایک اسپیشل ٹرین ساؤتھ انڈیا کے تبلیغی حضرات کو لیکر روانہ ہو رہی تھی ، آپ ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود اسی کمزوری کی حالت میں اسٹیشن تشریف لے گئے ، اور ٹرین کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا ، اس عالم میں بھی آپ کو وہاں دیکھ کر تبلیغی حضرات کی آنکھیں چھلک اٹھیں ، اور نم آنکھوں کے ساتھ جمعیتہ علماء اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ وہ لوگ اپنے وطن واپس ہوئے ۔ (دھیان رہے کہ آپ ٹھیک سے کھڑے ہونے کی حالت میں بھی نہیں تھے ، آپ ایک بینچ پر تشریف فرما تھے اور ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہہ رہے تھے)۔
الغرض جب تک ایک ایک ملکی و غیر ملکی مہمانوں کو آپ نے باعزت طریقے سے رہا کرا کر وطن رخصت نہیں فرمادیا حضرت مدظلہ نے راحت کی سانس نہیں لی ۔مسلسل 6 مہینے آپ تبلیغی جماعت کے لئے وقف رہے ، جس کے لئے تبلیغی جماعت اور بھارتی مسلمان آپ اور حضرت صدرِ محترم کے بیحد مشکور ہیں ۔جس کا اعتراف خود تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد صاحب نے ابھی پچھلے دنوں مرکز میں راجستھان کے سہ روزہ جوڑ کے موقعہ پر کیا تھا ۔ اور جماعت کے ساتھیوں سے جمعیتہ علماء کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی تھی ۔
یہ صرف ایک مثال ہے ۔ حضرت ناظم عمومی کی زندگی کے ایسے بیشمار واقعات ہیں۔ کہیں فسادات ہوں یا قدرتی آفات ، بحکم حضرت صدرِ محترم آپ ہی کی ذاتِ گرامی کو ایسے کاموں کی ذمے داری دی جاتی ہے ۔ اور آپ سر سے کفن باندھ کر بے خوف وخطر میدان میں کود جاتے ہیں، اور حالات کا جائزہ لیکر خدمت خلق میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
آپ کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دوست و مخالف سبھی آپ کے معترف ہیں ۔حضرت صدر محترم جمعیتہ علماء ہند نے بھی متعدد مواقع پر اس پر اعتماد اور خوشی کا اظہار اور بہت تعریف فرمائی ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ ملت کی نگہبانی کے لئے لمبی عمر عطاء فرمائے آمین ۔
اے ولئی کامل باصفا
مرد مجاہد باوفا
راہ حق کے رہنما
تیری کیا بات ہے