ازقلم: مفتی ناصر الدین مظاہری
______________
ملک کے طول وعرض میں ہی نہیں روئے زمین کے ایسے ایسے علاقوں میں مدارس کے اہلکار اور کارکنان پہنچنے والے ہیں جہاں شاید ابن بطوطہ بھی نہ پہنچا ہو حتی کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ بھی نہ پہنچے ہوں۔ اس لئے میری اس گفتگو کا مخاطب دونوں ہیں مدارس والے بھی اور چندہ دہندگان بھی۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چندہ کو دھندہ بالکل نہ بنایا جائے، جتنی ضرورت ہو اتنا ہی چندہ کیا جائے، خواہ مخواہ کے اھداف اور پروجیکٹ بناکر یا غیر ضروری تعمیرات کے ذریعہ ہرگز اپنا شوق نہ پورا کریں، یہ چندہ کی رقم ہے یہ قوم کی امانت ہے، جہاں ضرورت نہیں ہے وہاں اس امانت کو خرچ کرکے آپ امین نہیں رہ سکتے ہیں۔ ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا، فضولیات میں بے تحاشا یہ امانتیں برباد ہو رہی ہیں، طبق پر طبق، فلک پر فلک تعمیر کرکے آپ اپنوں کے ہی نشانے پر نہیں آئیں گے بلکہ اپنے اور دین کے دشمنوں کی نظر میں بھی خارمغیلاں بن کر چبھیں گے، اسی طرح آپ کا مدرسہ کس معیار کا ہے اور چندہ کس معیار کا کررہے ہیں یہ بھی سوچنے کی بات ہے، بہت سے محصلین کے مدرسوں میں طلبہ ہی نہیں ہوتے اور چندہ کے لئے دس دس گھنٹے کی فلائٹ پکڑتے ہیں، شکل ایسی نورانی کہ سادہ مزاج دیندار شخص اس خضر صورت پر کلمہ پڑھنا شروع کردے لیکن اندرونی حالات اتنے خراب کہ الامان و الحفیظ۔
خدارا! خود پر رحم نہ کریں تو امت پر تو رحم کریں امت اب بھی بہت دیتی ہے، بڑے چھوٹے تمام مدارس امت کے ذریعہ ہی پرورش پارہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک ایک گاؤں میں کئی کئی مدارس کھڑے کردئے گئے، برادری کی بنیاد پر مدارس قائم ہوگئے، ہر اختلاف رائے ایک نئے مدرسہ کا سبب بن رہا ہے، ننھے ننھے مکاتب کے مہتمم صاحبان شاندار کاروں سے گھوم رہے ہیں، بار بار کاریں بدلی جارہی ہیں، مہمان خانے صاف وشفاف خوبصورت ٹائل، مثل فائیو اسٹار ہوٹل اور طلبہ کی رہائش گاہیں بالکل طویلہ، درسگاہوں میں صفائی ندارد، مطبخ میں بدبو، بیت الخلوں میں سڑاند اور مہتمم صاحبان کے بے داغ کلپ والے لباس، طلبہ کا کھانا نہایت غیرمعیاری اور مہتمم صاحبان کاناشتہ شاہانہ، کچی روٹیاں، کچے چاول، سستا گوشت طلبہ کے لئے اور ذمہ داران کے لئے مرغ ومسلم، سوچیں کیا یہی انصاف ہے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ عید کے دن غریب بچوں کی کسمپرسی کا خیال کرکے رو پڑے اور کھانا نہیں کھایا اور ہماری حالت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ طالب علموں کا درد ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔
بعض مدارس میں جانا ہوا دال اتنی پتلی کہ برتن کی زمین دکھائی دے رہی تھی ، چاول میں بے شمار کالے گھن نظر آرہے تھے، روٹیاں بھی یا تو کچی یا جلی ہوئی تھیں اور خرچ سالانہ بتایا گیا کہ چالیس لاکھ روپے ہے۔ میں نے کہا یہ کھانا تو دس روپے خوارک بھی نہیں ہوسکتا ہے اتنے پیسے کہاں خرچ ہورہے ہیں؟
بہت سے مدارس کے اہداف دیکھیں تو ہنسی آتی ہے یعنی جن گاؤں میں ضرورت کی کوئی چیز نہیں مل سکتی، بچے نہیں جاسکتے، مہمان نہیں پہنچ سکتے وہاں اتنی بڑی بڑی تعمیرات موجود ہیں کہ سوائے افسوس کے کوئی چارہ نہیں ہے۔
چندہ زیادہ حاصل کر لینا کمال نہیں ہے چندہ کو صحیح جگہ لگانا کمال ہے، یہ وہ نگری ہے جہاں اچھے اچھوں کے تقدس اور تقوی کے جنازے نکلتے میں نے دیکھے ہیں۔
مدرسہ کا مال مال وقت ہے پوری قوم کو آپ جواب دہ ہیں، کل قیامت میں ہر چندہ دہندہ آپ کا دامن گھسیٹ سکتا ہے۔
اس لئے ضرورت سے زیادہ نہ لیں، جہاں ضرورت زیادہ ہو وہاں چندہ کے لئے نہ جائیں، فقہ کا ایک اصول ہے کہ زکوۃ صدقات کا مستحق پہلے وہیں کا علاقہ ہے اسلئے پہلے اپنے علاقہ کی طرف توجہ دینے دیں، آن لائن چندہ میں اب ٹھگی بہت ہورہی ہے ہرگز اپنے اکاؤنٹ کا اوٹی پی نہ بتائیں، نئے زمانے میں نئے نئے فراڈ چل رہے ہیں اس لئے ہوشیار رہیں۔
جھوٹ بول کر چندہ حاصل کرنا آسان ہے لیکن آپ نہ یہاں ہضم کرسکیں گے نہ وہاں ہضم ہوسکے گا۔ قوم کی سادگی کا فائدہ مت اٹھائیں اپنے وقار کا پاس و لحاظ رکھیں۔
چندہ دینے والے حضرات تعلقات کی بنیاد پر چندہ نہ دیں خوب تحقیق کرلیں یقین کامل کے بعد ہی چندہ دیں، بہت سے شاطر افراد اپنی وجیہ و پرکشش نورانی شکل سے خوب دھوکہ دیتے ہیں ایسے دھوکے بازوں سے بچئے، تحقیق کا جو بھی ذریعہ آپ اختیار کریں آپ کا حق بھی ہے فرض بھی ہے قرض بھی ہے۔