Slide
Slide
Slide

غزہ اور موجودہ عالم اسلام

تحریر:محمد صابر حسین ندوی

      غزہ ایک ایسی آبادی جس کو پچھلے بیس سالوں سے محاصرہ میں رکھا گیا ہے، وسائل زندگی پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں، قدم قدم پر قوانین کی بندش اور عالمی طاقتوں کی دخل اندازی ہے، اسرائیل نے اونچی اونچی دیواریں اٹھا دی ہیں، سینکڑوں فوجیوں کو متعین کردیا گیا ہے، بکتر بند گاڑیاں اور اسلحے کی بَند ہے، دوسری طرف مصر نے بھی گھیرے میں لے رکھا ہے، ظالم انسانیت اور اسلامیت بھول کر فرعون بن گئے ہیں، یاد کیجئے! جب سنہ ٢٠١٢ء میں إخوان المسلمین نے مصر کے اندر اقتدار سنبھالا تھا، تو سب سے پہلے شہید محمد مرسی رحمہ اللہ نے اعلان کردیا تھا کہ یہ محاصرہ اٹھا لیا جاتا ہے، انہوں نے اسلامی و ایمانی اخوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوائیاں، کھانا اور دیگر ضروریات کی چیزیں بھیجی تھیں، مگر عبدالفتاح سیسی (اذل اللہ عمرہ) کے دور میں یہ حصار پھر سے بحال کردیا گیا، مصر سے لگی سرحد کلی طور پر مسدود رہتی ہے، پانی کی قلت ہے، بلکہ جس پانی پر ان کا حق ہے اسے اسرائیل اپنی جانب موڑ چکا ہے، بجلی بمشکل دو تین گھنٹے ہی رہتی ہے، غذائی قلت، بنیادی ضروریات اور زندگی کی دشواریاں بے پناہ ہیں، اس کے باوجود صرف اور صرف غزہ اور حماس؛ نیز فلسطینی مجاہدین کی قوت ایمانی ہی ہے کہ وہ ملک جس کی فوج دنیا بھر میں چوتھے یا تیسرے پائیدان پر شمار کی جاتی ہے، جس کے پاس امریکی ہتھیار کی کوئی کمی نہیں ہے، جس کی معیشت سودی کاروبار کے ذریعہ بہتر سے بہتر ہے، جس کے جنگی طیارے، آئرن ڈوم ہمیشہ متحرک رہتے ہیں، اسے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور کردیا ہے؛ جبکہ عالم اسلام کی دوسری بڑی بڑی ریاستیں، سلطنتیں اور مملکتیں اپنی اپنی عیش گاہوں میں پڑی ہوئی ہیں، ان کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں ہیں، خدام و حشم کی صفیں لگی ہوئی ہیں، قدرتی خزانہ پیٹرول اور گیس کی صورت میں بہا جارہا ہے، سونے کی پلیٹیں اور حد تو یہ ہے کہ سونے کے ٹائلیٹ استعمال کئے جارہے ہیں، فوجیں بھی خوب جمع کرلی ہیں، پولس محکمہ بھی ہے، ہتھیاروں کا بھی ایک معتد بہ ذخیرہ ہے؛ لیکن یہ سب کچھ اپنے ہی مسلم بھائیوں کی گردن زدنی کیلئے ہیں، ان سے دشمان اسلام کا ایک بال بھی باکا نہیں ہوتا، مسلم. بہنوں کی بے عزتی، بچوں کی بے رحمانہ ہلاکت اور مقامات مقدسہ کی پامالی بھی انہیں بیدار نہیں کرتی، ان کے تَن مردہ میں کوئی جان نہیں پڑتی؛ کیونکہ وہ اسلام اور ایمان کے چوغے میں شیطان کے کارندے، یہود نواز اور صلیب پسند لوگ ہیں، ان کی روح افرنگی ہے، ان کی فکریں، تربیت گاہیں اور پرواز تخیل یورپ و امریکہ کی گود ہے؛ جبکہ غزہ اس مقدس جنگ میں معنوی و اندرونی تبدیلیوں، انقلاب انگیز ہلچل اور قوت حیدری، فقر غفاری و جنیدی کے ساتھ جام شہادت پی رہا ہے، ظاہر ہے کہ خدا ناشناس اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ محض ہتھیار اور ظاہری تیاریوں سے نہیں کیا جاسکتا؛ بلکہ روحانی اور معنوی طاقت کی اشد ضرورت ہے، وہ اپنے فریق سے ایمان پر فائق ہیں، دنیا کی محبت ان کے دلوں سے نکل گئی ہے، موت کی کراہت سے دور ہیں، وہ نفسانی خواہشات اور ہوس سے آزاد ہوگئے ہیں، ان کے سینوں میں جنت کا شوق، شہادت کا حرص چٹکیاں لیتا ہے، جن کے سامنے تکالیف، مشکلیں اور مصیبتیں وہ مسکرا کر برداشت کر جاتے ہیں، وہ اپنوں کا جنازہ کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اور رب کا شکر کرتے ہیں؛ کہ اسے شہادت کی موت نصیب ہوئی ہے، واقعہ یہی ہے کہ اگر اسرائیل/امریکہ اور غزہ کا موازنہ اسلحاتی طور پر کیا جائے تو وہ زیادہ مستحق ہیں کہ فتح یاب ہوں، مگر مؤمن کی طاقت، فتح و نصرت اور غلبہ کا راز آخرت کا یقین اور اللہ کے اجر و ثواب کی امید کے سوا کچھ نہیں ہوتی ہے۔

      آج عالم اسلامی پر ایک ایسا دور گزر رہا ہے جنہیں معنوی و روحانی طاقت کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں ہے، انہیں مقامات مقدسہ کی فکر دامن گیر نہیں، وہ شکم سیری، ترفع و تنعم پرستی میں جی رہے ہیں، خود پرستی ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، ان کی شرست میں جاہلیت کی بنیادیں مضبوط قلعے تعمیر کر چکی ہے، وہ اسلامی فکر و خیال سے کوسوں دور ہو کے ہیں، وہ تیزی سے ایک ایسے گڑھے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا انجام موت ہے، دجالی طاقتیں ان کے تتبع میں لگی ہوئی ہیں، وہ وقت کا انتظار کر رہی ہیں، جب بھی مناسب وقت آئے گا ان کے محل زمین بوس کردیئے جائیں گے اور ان کے گلے میں غلامی کا پٹہ ڈال کر پس زنداں پھینک دیا جائے گا، یقین جانیے! وہ وقت دور نہیں جب انہیں دبوچ لیا جائے گا، اور ایک ایسا معرکہ پیش آیے گا جس میں ان کے پیروں تلے زمین کھسک جائے گی؛ کیونکہ ایسی جنگوں میں ایمان و یقین، صبر و تحمل، استقامت اور ثبات کی ضرورت بشدت محسوس ہوتی ہے، جس سے ان کے سینے اور دل و ماغ خالی ہو چکے ہیں، جس غزہ اور حماس کو دہشت گرد اور فتنہ پرور بتاکر دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں؛ دراصل ان کا علاج انہیں کے دامن سے چمٹا ہوا ہے، اور آج جن خداؤں، امریکی و یورپی آقاؤں، اقوام متحدہ کی جانب نگاہ عشق بلند کی جارہی ہیں انہیں کے خنجر سے ان کی آنکھیں نکال لی جائیں گی، چنانچہ آج عالم اسلامی کے قائدین و مفکرین اور سلطنتوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ اپنے اور اپنے ماننے والوں کے دلوں میں ایمان کا تخم دوبارہ بونے کی کوشش کریں، جذبہ دینی کو پھر متحرک کریں اور پہلی اسلامی دعوت کے اصول و طریق کار کے مطابق مسلمانوں کو ایمان کی دعوت دیں، روحانی و معنوی قوت سے لیس ہوں، عہد اولین کا وہ تمام طریقے استعمال کریں جن سے انہوں نے ایک انقلاب پیدا کردیا تھا، کم از کم اہل غزہ اور حماس سے ہی خود کا موازنہ کریں اور ایمانی جائزہ لیں! یہاں پر سیدی مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ایک فکر انگیز عبارت پیش کی جاتی ہے، جس میں عالم اسلام کی دقت اور علاج پر گفتگو کی گئی ہے، جسے آپ نے تقریباً اسی سال پہلے پیش کیا تھا جو آج بھی جَس کی تَس عالم اسلام سے مخاطب ہے، آپ فرماتے ہیں: "موجودہ عالم اسلام کی بیماری، پریشانی اور بے اطمینانی نہیں ہے؛ بلکہ حد سے بڑھا ہوا اطمینان و سکون، دنیا کی زندگی پر قناعت اور حالات سے مصالحت ہے، آج دنیا کا عالمگیر فساد اور انسانیت کا زوال اور ماحول کی خرابی اس کے اندر کوئی بے چینی نہیں پیدا کرتی، اس کو زندگی کے اس نقشہ میں کوئی چیز غلط اور بے محل نظر نہیں آتی، اس کی نظر اپنے ذاتی مسائل اور مادی فوائد سے آگے نہیں بڑھتی، اس کی موجودہ افسردگی اور مردہ دلی کا سبب صرف یہ ہے کہ اس کا پہلو خلش سے اور اس کا دل تپش سے خالی ہے:

طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا

ترا مرض ہے فقط آرزو کی بے نیشی

اس لئے ضرورت ہے کہ یہ مبارک کش مکش پھر پیدا کی جائے اور اس امت کا سکون برہم کیا جائے، اس کو اپنی ذات اور مسائل کی فکر کے بجائے (جو جاہلی قوموں کا شعار ہے) انسانیت کا درد و غم، ہدایت و رحمت کی فکر اور آخرت اور محاسبہ الہی کا خطرہ پیدا ہو، اس امت کی خیر خواہی اس میں نہیں ہے کہ اس کیلئے سکون و اطمینان کی دعا کی جائے؛ بلکہ اس میں ہے کہ اس کیلئے درد و اضطراب کی دعا کی جائے اور برملا کہا جائے:

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر:٣٣٥)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: