محمد قمرالزماں ندوی/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
7/ اکتوبر کے بعد ہی سے ہی فلسطینی مسلمانوں پر بموں اور راکٹوں کی بارش ہو رہی ہے ،ہزاروں فلسطینی مسلمان مرد عورت اور بچے شہید ہوچکے ہیں ،اور ہزاروں زخمی اور لاپتہ ہیں ، ناپاک اور ناجائز اسرائیلی حکومت نے اہل غزہ کے لیے پانی بچلی اور رسد کو روک دیا ہے ،بچے اور زخمی لوگ دوائیوں کے بغیر دم توڑ رہے ہیں ۔ ظالموں نے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا اور درجنوں ہسپتالوں کو زمیں بوس کردیا ہے ،جس میں ہزاروں کی جانیں جاچکی ہیں۔
عرب حکمراں میں سے اکثر تماشائی بنے ہوئے ہیں ،خاموش ہیں ،یا امریکہ کے ڈر سے زبان روکے ہوئے ہیں ۔
ایسی مشکل گھڑی میں بھی ملک عزیز ہندوستان میں نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ اور ایک بڑی تعداد ایسی ہے ،جو کرکٹ میچوں کے دیکھنے میں دیوانہ ہے ، انہیں احساس تک نہیں ہے کہ ہمارے مسلمان بھائیوں پر کیا گزر رہی ہے اور وہ کس طرح موت و زیست کے درمیان پس رہے ہیں ۔ یہ ہماری بے حسی نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ ۔
اگر یہ غفلت اور بے حسی ہمارے اندر باقی رہی تو خطرہ ہے کہ دھیرے دھیرے یہ باطل طاقتیں کہیں ہمارے وجود کو مٹانے کے درپے نہ ہو جائیں ۔
اس وقت ہم سب کو اپنی اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے اور ہم اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے جو کچھ کرسکتے ہیں اس کو کرنا چاہیے ،کم از کم اپنی زندگی میں توبہ و استغفار کیساتھ مظلوم فلسطینیوں کے لئے دعاؤں کا اہتمام تو کر ہی سکتے ہیں۔
ہم سب کو اپنی جوانی کی اہمیت اس کی قیمت اور اس کی فعالیت اور اس کے کردار کو سمجھنا چاہیے ۔ نوجوانوں ہی سے کسی سماج اور معاشرہ میں تبدیلی آتی ہے ۔ انہیں کے ذریعہ ماحول میں انقلاب آتا ہے ۔ یہ صحیح راستے پر آجائیں تو پورا معاشرہ درست اور صحیح ہوسکتا ہے ۔
اسی احساس نے ذیل کی تحریر (علامہ اقبال مرحوم کے نوجوانوں کے نام پیغام کی روشنی میں)لکھنے پر مجبور کیا کہ کم از کم ہم نوجوان اپنی حیثیت ،مقام اور قدر و قیمت کو سمجھیں اور معاشرہ کے لئے اپنے کو نافع اور مفید بنائیں ۔
دوستو !
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال مرحوم نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعہ امت مسلمہ کو بیدار کرنے کی کوشش کی،ان کو ان کے مقام و مرتبہ اور فرض منصبی کا احساس دلایا،اور خاص طور پر امت کے نوجوانوں کو اپنا مخاطب بنا کر ان سے امت کی قیادت و سیادت سنبھالنے اور خواب خرگوش سے بیدار ہونے کی دردمندانہ اپیل کی ،نیز ان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افرنگی صوفے اور ایرانی قالین پر یہ آرام کرنے کا وقت نہیں ہے ، تن آسانی اور عیش پسندی چھوڑو اور اپنے فرض منصبی کو اچھی طرح نبھاو ۔ اقبال علیہ الرحمہ نے کہا :
تیرے صوفے افرنگی تیرے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا ،شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال رح نے مسلمانوں سے اور خاص طور پر نوجوانوں سے اس کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اندر صداقت عدالت اور شجاعت پیدا کریں، کیونکہ ان پر عالم کی قیادت اور دنیا کی سیادت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور بغیر سچائی عدل و انصاف اور شجاعت و بہادری اور جرآت رندانہ پیدا کئے، قوموں کی قیادت و سیادت اور امامت ناممکن اور محال ہے ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا :
سبق پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
یہ بھی پڑھیں:
علامہ اقبال مرحوم نے اسلاف کی زندگی، کارنامے اور کردار کا حوالہ دے کر نوجوانوں کو خطاب کرکے فرمایا اور کہا کہ
تھے تو آباء ہی تمہارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت و سیارہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال رح نے اپنی شاعری میں نوجوانوں سے جگہ جگہ اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا ہے ۔ وہ نوجوانوں سے محبت کرتے تھے ، ان پر رشک کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں میں آفاقیت، جہاں بینی اور دور بینی ہو، ان کے اندر ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ ہو۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ :
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
یہ حقیقت ہے کہ زندگی کا سب سے قیمتی دور جوانی ہے، جب کے انسان کی تمام خفیہ اور پوشیدہ قوتیں اور فطری صلاحیتیں عروج و بلندی پر ہوتی ہیں اور وہ ہر طرح کی تنگ نظری، مصلحت کوشی اور خوف ہراس سے دور ہوتا ہے ۔ اسی لئے اس طبقہ کو سوسائٹی کا سب سے مضبوط عنصر سمجھا جاتا ہے، بلکہ یہ سماج کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہوتا ہے ۔اگر سماج کا یہ کریم طبقہ تعمیر اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور انسان اور انسانیت کی خدمت کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنا لیں، تو اس سماج اور سوسائٹی کو ترقی اور بلندی پر لے جانے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ لیکن اگر یہ طبقہ بگڑ جائے اور اپنی صحیح اور درست روش، اور طریقہ سے ہٹ جائے، تو پھر اس سماج اور سوسائٹی کو زوال و پستی اور انحطاط و تنزلی سے کوئی روک نہیں سکتا ۔
اس لئے ہر دور میں اس طبقہ پر سب سے زیادہ محنت کی گئی اور آج بھی مہذب اور تعلیم یافتہ سماج اور سوسائٹی اس طبقہ پر زیادہ توجہ مبذول کرتی ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی اصلاح ہی سے سماج صحیح معنی میں صحیح سماج بن سکتا ہے ۔
لیکن بدقسمتی سے آج اوروں کی طرح مسلم نوجوانوں بگاڑ و فساد کے سب سے زیادہ شکار ہو گئے ہیں ۔ بے راہ روی آزاد خیالی مادہ پرستی بے یقینی و بے چینی غیر ذمہ دارانہ طرز اور روشن آج کے نوجوانوں کی پہچان اور علامت بن چکی ہے ۔ لا مقصدیت اور مایوسی و ناامیدی نے تو صورت حال اور سنگین بنا دی ہے ۔ کم نوجوان ایسے ملیں گے ، جنہیں اپنے مقصد زندگی کا صحیح شعور و ادراک ہو ۔
آج ضرورت ہے کہ اقبال جن نوجوانوں کا خواب دیکھتے تھے اور جن سے وہ مستقبل میں بہت کچھ امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے، ایسے ہی نہج اور ڈگر پر نوجوانوں کی ہم تربیت کریں ۔ اس کے لئے فکر مند ہوں ۔ اس کے لئے ہم کوشش کریں ۔ خالص دینی و تربیتی ادارے قائم کریں ۔ یہ وقت کی صدا بھی ہے اور وقت کی آواز اور ضرورت بھی ہے۔