مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
کم وبیش ستائیس (۲۷) برسوں سے زیر التواء خواتین رزرویشن بل جسے ہندی میں ’’ناری شکتی وندن ودھیک‘‘ کہا گیا ہے کو مودی حکومت نے ۱۹؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو پارلیامنٹ میں پیش کر دیا، اور برسوں کے بعد یہ منظر دیکھنے کو ملا کہ ہر پارٹی نے اس بل کی حمایت کی ۔ چوں کہ یہ قانون میں ترمیم کا بل ہے، اس لیے اسے منظور کرنے کے لیے پارلیامنٹ میں دو تہائی ارکان کی تائید چاہیے تھی جو اس بل کو بآسانی مل گئی۔چار سو چون (454)ووٹ بل کے حق میں اور صرف دو ووٹ مخالفت میں آئے، اس طرح دستورہند میں128ویں ترمیم پارلیامنٹ سے منظور ہو گئی، مذکورہ بل میں آئین کی دفعہ 330کے بعد 330الف اور 332کے بعد 332الف جوڑنے کی تجویز ہے، 330الف کے ذریعہ پارلیامنٹ میں33 فیصدنشستیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی ،لیکن اس کو رو بعمل لانے کے لئے آئین کی دفعہ 378کے مطابق ترمیم کرنی ہوگی۔
اس بل کو پیش کرنے کا فیصلہ کیبنٹ نے پارلیامنٹ کی قدیم عمارت میں لیا اور نئی عمارت میں اس بل کو پیش کیا گیا، نئی عمارت میں اس بل کو پیش کرنے کی وجہ سے اس کی حیثیت تاریخی ہو گئی ہے۔ دونوں ایوانوں میں منظوری کے بعد آدھے سے زیادہ ریاستوں کی منظوری بھی اس بل پر لینی ہوگی، کیوں کہ اس بل کا اثر اسمبلیوں کی سیٹوں پر بھی پڑے گا، اس بل کے ذریعہ پارلیامنٹ اور سبھی ریاستوں کی اسمبلیوں میں ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے محفوظ ہوں گی، پارلیامنٹ کی موجودہ پانچ سو تینتالیس (543)سیٹوں میں ایک تہائی یعنی 181سیٹوں پر خواتین کا قبضہ ہوگا، جہاں سے صرف خواتین ہی انتخاب لڑیں گی، ان محفوظ سیٹوں کے اندر ہی ایس سی ، ایس ٹی کے لیے سیٹیں مختص ہوں گی، البتہ اس بل میں او بی سی اور مسلم زمرے کی خواتین کے لیے الگ سے رزرویشن کی بات نہیں کہی گئی ہے۔ اسی طرح یہ رزرویشن راجیہ سبھا اور ودھان پریشد کے ارکان کے لیے نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ بلا واسطہ عوام سے منتخب ہو کر نہیں آیا کرتے ہیں۔
سبھی قانونی رکاوٹیں ددور ہوجائیں تب بھی اس قانون کا فائدہ 2024کے عام انتخاب میں خواتین کو نہیں مل پائے گا، کیوں کہ یہ حلقہ انتخاب کی نئی حد بندی کے بعد ہی لاگو کیا جا سکے گا، یہ حد بندی مردم شماری کے اعداد وشمار کی بنیاد پر کیا جانا ہے کورونا کی وجہ سے ہر دس سال پر کیے جانے والے مردم شماری کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوسکا ہے، اور حکومت کے پاس کوئی جادوئی چھڑی یا علاؤ الدین کا چراغ نہیں ہے کہ اتنے بڑے ملک میں پلک جھپکتے یہ کام انجام پذیر ہو سکے۔اس لیے 2029کے انتخاب میںبھی شاید اس کو لاگو کیا جا سکے، شاید اس لیے کہ مردم شماری کب ہوگی، یہی ابھی پتہ نہیں ہے۔ اس قانون کے نافذ ہونے کے پندرہ سال بعد تجزیہ کیا جا ئے گا کہ اسے باقی رکھا جائے یا پھر سے اس میں ترمیم کی جائے۔
اس بل کی لمبی تاریخ ہے، پہلی مرتبہ اسے پارلیامنٹ میں 12ستمبر 1996کو ایچ ڈی دیوگورا سرکار نے پیش کیا تھا، اس کے بعد 13 جولائی1998کو اٹل بہاری باجپئی کی سرکار نے اس طرف قدم بڑھایا ، لیکن اس کی کاپیاں پارلیامنٹ میں پھاڑ دی گئیں ، دس سال بعد من موہن سنگھ سرکار میں 9مئی 2010کو یہ بل راجیہ سبھا سے پاس ہو گیا اور پارلیامنٹ میں آکر راشٹریہ جنتا دل اور سماج وادی پارٹی کے ذریعہ ذات کی بنیاد پر رزرویشن دینے کے مطالبہ کو لے کر پھنس گیا اور پاس نہ ہوسکا،2010میں دوبارہ من موہن سنگھ کے دور اقتدار میں اسے پیش کیا گیا، لیکن اس بار بھی شور وہنگامے کی نظرہو گیا، اب مودی جی کی مدت کار ختم ہونے کو ہے اور نیا انتخاب سامنے ہے تو خواتین کے ووٹوں کو اپنی طرف کرنے کے لیے بھاجپا حکومت نے اسے پاس کروالیا ہے۔
ماضی میں بھی ایوان نمائندگان میں خواتین کی ان دیکھی نہیںکی گئی ہے، گذشتہ بیس (۲۰) سالوں کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین امید واروں کی تعداد 152فیصد بڑھی ہے ، جب کہ پارلیامنٹ میں ان کی نماندگی میں 59فی صد کا اضافہ ہوا،2019کے عام انتخاب میں خواتین ووٹروں کی تعداد مردوں کے مقابلے زیادہ تھی، آٹھ اسمبلی انتخابات میں سے چھ میں خواتین نے اس رجحان کو باقی رکھا۔گذشتہ تیس (30)برسوں کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین امیدواروں کے جیتنے کی توقع 13%فی صد اور مرد امیدواروں کے سلسلے میں صرف 10%فیصد ہے ، اس کے باوجود ان کی حصہ داری مردوں کے مقابلے نوے فی صد کم رہی اور وہ پانچ سے دس فی صد ہی کامیاب ہو سکیں، ایک تحقیق کے مطابق جہاں خواتین زیادہ جیت کر آتی ہیں وہاں بد عنوانی کم ہوتی ہے، اسی لیے ہندوستان کی تاریخ میں مردوں کے مقابلے خواتین پر بد عنوانی کے الزام کم لگے ہیں۔
بیشتر ملکوں کے ایوان نمائندگان میں خواتین کے لیے سیٹیں مخصوص ہیں، سویڈن کی تنظیم انٹر نیشنل انسٹی چیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹرول اسٹنس (آئی ڈی ای اے) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے چالیس ملکوں میں یا تو قانونی ترمیم کے ذریعہ یا انتخابی قانون میں تبدیلی کرکے ایوان نمائندگان میں خواتین کا کوٹہ طے کیا گیا ہے، پچاس سے زیادہ ممالک وہ ہیں جہاں کی سیاسی پارٹیاں اپنے طور پر پچاس فی صد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیتی رہی ہیں، تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ امریکہ میں 23%، روس میں 15%، برطانیہ میں 32%، فرانس میں 39%، جرمنی میں 30.9%نیپال میں 32.7%چین میں 24%بنگلہ دیش میں 20.6%پاکستان میں 20.2% بھوٹان میں 14.9% ، ہندوستان میں 12.1%، میانمار میں 11.3%اور شری لنکا میں 5.3%فیصد خواتین ارکان پارلیامنٹ ہیں، اس نئے قانون سے ہندوستان خواتین کے لیے ایوان نمائندگان میں مخصوص نشستوں کے حوالہ سے ایشیائی ملکوں میں سب سے آگے بڑھ جائے گا۔ اس سے ایک مثبت پیغام دنیا کو جائے گا۔