از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
دار العلوم ندوة العلماء كے ايك طالب علم كى جانب سے سوال آيا ہے كه فقه حنفى كى كتابيں كس ترتيب سے پڑهى جائيں؟۔
یہ سوال بہت اہم ہے، اور ضرورت ہے کہ قدرے تفصيل سے جواب ديا جائے تاكه سائل كے علاوه دوسرے طلبہ بهى استفاده كرسكيں، اور فقه كا مقصد سمجهنے اور ترتيب سے اس كى كتابوں كا مطالعه كرنے كے ذريعه ان كے فهم كى اصلاح ہو اور فقہ ميں ان كا علم كما حقہ راسخ وعميق ہو سكے۔
فقہ كى كتابوں كے مطالعہ كا مقصد:
بر صغير كے مدارس ميں فقه كى كتابوں كے متعلق ايك بہت بڑى غلط فہمى جڑ پكڑ گئى ہے، اور وه يه ہے كه ان كتابوں كو مدرسوں ميں دينى نصوص كى حيثيت سے پڑهايا جاتا ہے، ان كا تقدس ذہن نشين كرايا جاتا ہے، اور يه باور كرايا جاتا ہے كه حرف بحرف ان پر عمل كرنے ميں ان كى نجات ہے، اسى لئے جب وه تعليم وافتاء كے مرحله ميں داخل ہوتے ہيں تو پورى امانت دارى كے ساته ان كى تفصيلات وجزئيات كى پابندى كو دين كا حصه سمجهتے ہيں۔
یہ نقطۂ نظر غلط ہے اور بہت سى خرابيوں كو مستلزم۔ دينى نصوص كا درجہ صرف كتاب الہى اور حديث نبوى كو حاصل ہے، ہر عہد اور ہر علاقہ كے مسلمانوں پر فرض ہے كه وه خدا اور اس كے پيغمبر كى اطاعت كريں۔
فقہاء كى ذمہ دارى یہ تهى كه وه اپنے زمانه اور علاقہ كى رعايت سے ان نصوص كى تشريح كريں، اور نئے نئے مسائل كے حلول مستنبط كريں، يه كام صحابۂ كرام رضي الله عنہم نے اپنے عہد ميں كيا، پهر تابعين نے كيا، اور ان كے بعد اتباع تابعين نے، زمان ومكان كے تغير سے مسائل بدلتے رہے، اور كبهى كبهى جواب بهى بدلتے گئے۔
يعنى فقه كى كتابوں كى حيثيت دينى نصوص كى نہيں، بلكه دينى نصوص كى تاريخى تشريح كى ہے، تاريخ كے ہر مرحله ميں نئى تشريح كى ضرورت پيدا ہوتى رہى، يعنى آپ جب فقه كى كتابوں كو پڑهيں تو يه سمجهنے كى كوشش كريں كه فلان عہد اور فلاں علاقه كے فقہاء نے كن مسائل پر زور ديا، اور انہيں بيان كرنے ميں كن امور كى رعايت كى، تاكه جب آپ ان كتابوں كے مطالعه سے فارغ ہو جائيں تو ان كى جزئيات كو اپنے معاشره پر جوں كا توں منطبق كرنے كے بجائے ان كى روشنى اپنے زمانه كى فقه پيش كرنے كے اہل ہوں۔
يه بات يہاں مجملا كہى جا رہى ہے، كسى موقع پر اس كى تفصيل بيان كردى جائے گى، آپ كے كام كے لئے سر دست اسى قدر كافى ہے۔
ابتدائى كتابيں:
فقه كى ابتدائى كتابيں بهى اپنے اپنے عہد كے مطابق لكهى گئيں، بالعموم اس كے لئے مختصرات وجود ميں آئے، ہونا يه چاہئے تها كه ہر عہد ميں اسى كے مطابق لكها گيا مختصر پڑهايا جاتا، مگر ايسا نہيں ہوا، مختصر القدورى (مؤلفه ابو الحسين القدورى ت 428ه) كو اتنى مضبوطى سے تهاما گيا كه ايك ہزار سال بعد بهى اسے پڑها اور پڑهايا جا رہا ہے، ايسا نہيں ہے كه دوسرے مختصرات نہيں لكهے گئے، لكهے گئے مگر جمود فكر نے بدلنا قبول نه كيا۔
ندوه كے مقاصد ميں تها كه فقہ كے ابتدائى نصاب كى اصلاح ہوتى رہے، كسى قدر تاخير سے صرف پہلى كتاب لكهى گئى، اور وه ہے استاد محترم مولانا شفيق الرحمن ندوى كى "الفقه الميسر” جو ابتدائى كتاب كى حيثيت سے بہت كامياب ہے، اس كے بعد كى كتاب ابهى تک نہيں لكهى گئى، ميں نے انگريزى ميں الفقه الاسلامى كے نام سے تين جلدوں ميں عہد جديد كے ذہن كو پيش نظر ركھ كر ايك كتاب لكهى ہے، جو انگلينڈ اور امريكه كے بہت سے سكولوں اور مدرسوں ميں داخل نصاب ہے، عربى زبان ميں بهى ميں اسى طرح كى ايك كتاب كى تصنيف شروع كى ہے، مگر مصروفيات كى وجه سے اس كى تكميل ميں تاخير ہوتى جا رہى ہے۔
نتيجه يه ہے كه ندوه ميں بهى ابهى تك قدورى پڑهائى جا رہى ہے، حالانكه اس سے بہتر مختصرات موجود ہيں، ان ميں سب سے زياده كامياب امام علاء الدين سمرقندى كى تحفة الفقہاء ہے جو قدورى سے زياده تفصيلى ہے اور بہت سى اہم خصوصيات كى حامل ہے، ميں نے اپنے ايك مضمون ميں اس كے متعلق تفصيل سے گفتگو كى ہے، ميرى رائے ہے كه "الفقه الميسر” كے بعد "تحفة الفقہاء” پڑهائى جائے۔
متوسط كتابيں:
ہندوستان كے نصاب ميں طويل عرصه سے متوسط نصاب كے لئے شرح وقايه اور ہدايه داخل ہيں، دونوں كتابيں نصاب كے لائق نہيں ہيں، ان كى كمزورياںن بيان كرنے كا يه موقع نہيں ہے، شروع ميں ہدايه جب ہندوستان ميں پہنچى تو يہاں كے علماء نے اس پر سخت تنقيديں كيں، بہر حال بعد ميں ہدايه قبول كر لى گئى، اور ہر جگه وه اس طرح نصاب ميں داخل ہے كه اگر اسے نه پڑها جائے تو گويا انسان عالم ہى نہيں ہوگا، اس لئے في الحال ندوه كے لئے ہدايه كى جگه كوئى اور كتاب داخل كرنا مشكل ہے۔
البته آپ جب ہدايه پڑهيں تو زيلعى كى نصب الرايه ضرور ديكهيں، اس سے حديث كے باب ميں ہدايه كا جو كمزور پہلو ہے اس كى كچه تلافى ہو سكے گى، ساته ہى وقت نكالكر كنز الدقائق، اس كى شرح البحر الرائق، اور الاختيار لتعليل المختار كا بهى مطالعه كريں۔
منتہى كتابيں:
بہت سے مدارس ميں ہدايه پر اكتفا كرتے ہيں، جس سے فقہى صلاحيت ميں بہت بڑا نقص رہتا ہے، جب بهى علماء اور مفتيان كرام سے ميرى گفتگو ہوتى ہے مجهے سخت حيرت ہوتى ہے كه حنفى مذہب كے تئيں ان كى معلومات ميں سخت قسم كا خلاء ہے۔
اس مرحله كى پہلى كتاب ہے "بدائع الصنائع”، اس كا تفصيلى مطالعه كريں، اس سے اندازه ہوگا كه خود حنفى مسلك كے اندر اختلاف آراء كا دائره بہت وسيع رہا ہے، صحيح بات يه ہے كه جس نے "بدائع الصنائع” نہيں پڑهى اسے عالم شمار كرنا غلط ہے۔
بدائع الصنائع كے بعد امام محمد كى كتاب الآثار، اور كتاب الاصل كا مطالعه كريں، اور پهر موازنه كريں كه كس طرح بہت سے فقہى مسائل ميں زمانه كے اعتبار سے تغير يا ارتقا ہوتا رہا ہے۔
اصول فقہ ومتعلقات:
اصول الفقه كى حيثيت اسلامى فلسفه كى ہے، مگر مرور زمانه سے اصول فقه كو فقه سے كاٹ ديا گيا، جس كى وجه سے وه ايك خالص نظرياتى علم بن گيا ہے، اور معتزله كے اثرات نے اسے غير عملى بنانے ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے۔
اصول فقه ميں ميرا ايك رساله ہے "مبادئ في علم اصول الفقه” جس مين اصول فقه كا بہترين تعارف ہے، اسے پڑهيں، اس كے بعد اصول الشاشى كا مطالعه كريں، اس كے بعد اصول البزدوى اور اصول السرخسى پڑهيں، اور آخر ميں امام شافعى كا الرسالة پڑهيں، وه اس فن كى سب سے بہتر كتاب ہے، اور اس كے مباحث ہر مسلك كے لئے قابل قبول ہيں۔
اسى طرح ابن نجيم كى "الاشباه والنظائر” پڑهيں، اور مولانا على احمد ندوى كى "القواعد الفقهية” كا مطالعه كريں۔
فقه كو عصر حاضر سے مربوط كرنے كے لئے شيخ مصطفى الزرقا كے "فتاوى” اور شيخ قرضاوى كى "فتاوى معاصرة” پڑهيں، اردو ميں علامه سيد سليمان ندوى كى فقہى تحقيقات، اور مولانا مودودى كے رسائل ومسائل كا بهى مطالعه كريں۔
فقه وفتوى كے موضوع پر راقم كے بہت سے مضامين ہيں ان كا مطالعه بهى ان شاء الله مفيد ہوگا۔
حسب حوصله اور حسب فرصت ان فقيہوں اور مفتيوں كى كتابوں كا مطالعه كريں جو فن سے صحيح واقفيت ركهتے ہيں، ہر مسئله كى تحقيق كرتے ہيں، اور فكر ونظر كى ہمت افزائى كرتے ہيں۔
اميد ہے كہ فی الحال يه تحرير كافى ہوگى، اور اگر كوئى پہلو تشنہ محسوس ہو تو توجه دلائيں، اس پر تفصيل سے لكهنے كى كوشش كروں گا،۔
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين۔