Slide
Slide
Slide

مولانا عبدالرشید صاحب بستویؒ؛ چند یادیں چند باتیں

مولانا عبدالرشید صاحب بستویؒ: چند یادیں چند باتیں

تحریر:عبید انور شاہ

حضرت مولانا عبد الرشید صاحب بستویؒ (1966ء – 2018ء) کو پہلی بار کب دیکھا یہ تو یاد نہیں، مگر اتنی بات یقینی ہے کہ گزشتہ دس پندرہ سالوں میں مولانا کو کئی مرتبہ دیکھنے اور سننے کا خوب موقع ملا. یہ موقع اکثر خانگی مجلس میں میسر آیا، جس کی شکل یہ پیش آئی کہ عرصۂ دراز تک مولانا مرحوم مع چند دیگر علماء و اساتذہ ہفتہ دس دن کے دورانیہ میں دو تین دن پابندی کے ساتھ بعد والد محترم (مولانا نسیم اختر شاہ قیصر) سے ملاقات کے لئے گھر پر تشریف لاتے. مولانا بستویؒ کے ساتھ دارالعلوم وقف دیوبند اور جامعہ امام انور کے چند دیگر اساتذہ ہوتے. ان حضرات کی آمد پر پانی، چائے اور حسبِ موسم و خواہش دیگر مشروبات مع لوازمات پہنچانے کا کام میرے ذمہ تھا. بڑوں کی مجلس میں باقاعدہ بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن برتن لانے اور بعد فراغت واپس لے جانے اور اس کے درمیانی وقفہ میں بیٹھنے کا بہانہ و موقع مل جاتا. مجلس جمتی تو شرکاء کے درمیان دینی، علمی، تاریخی، سیاسی، ملکی و عالمی موضوعات اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا اور کئی دیگر امور زیرِ بحث آتے. چونکہ ان حضرات کا مطالعہ اور دلچسپی کا تعلق متعدد علوم سے تھا، اس لئے عطر کی طرح کشید کیا ہوا منتخب اور متنوع معلومات کا کچھ حصہ اس سراپا جہل کے دامنِ طلب تک پہنچتا رہتا. اس کے بعد جون 2017ء میں میرا تقرر بحیثیت استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ میں ہوا، مولانا عبد الرشید صاحب ؒ جامعہ کے سینئر استاذ ہونے کے ساتھ ناظم تعلیمات بھی تھے، اس لئے دفترِ تعلیمات میں تقریباً روزانہ ہی ملاقات ہوتی. اب ملازمت کے بعد بڑے اور چھوٹے کا حجاب پہلے جیسا نہیں رہا تھا، شریکِ مجلس ہونے کی حیثیت سے میں بھی اپنے ناقص مطالعہ کا خیال و احساس رکھتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیتا. اس مرحلے میں مولانا عبد الرشید صاحب ؒ کی ایک خوبی مجھ پر ظاہر ہوئی کہ مولانا کو صرف بولنے اور اپنی بات سنانے کا عالمانہ مرض نہیں تھا، بلکہ دوسروں کو بھی بولنے کا موقع دیتے اور توجہ سے ان کی بات سنتے. کئی بار ایسا ہوا کہ میں نے کوئی بات کہی جس سے مولانا کو اتفاق نہیں تھا مگر انہوں نے درمیان میں میری بات نہیں کاٹی بلکہ اس کے مکمل ہونے تک خاموش رہے، پھر بعد میں اپنی رائے اور سوچ کو واضح کیا اور اپنا نقطۂ نظر بیان کیا. یہ ان کی بڑی خوبی تھی ورنہ کچھ بڑوں کے بڑے پن کا لازمہ اور خاصہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے کچھ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی. بس خاموشی سے سنئے اور سنتے رہئے. یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ مولانا نے کبھی بھی اپنی گفتگو کو گھٹیا تبصروں اور سطحی زبان سے آلودہ نہیں کیا. واقعات و اشخاص پر وہ حسبِ ضرورت خوب تبصرہ کیا کرتے تھے اور اپنے مطالعہ کی رو سے جب کسی بات کو خلاف حقیقت سمجھتے تو اس کی تردید و تغلیط میں پوری قوت صرف کر دیتے لیکن اس میں بھی زبان کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتے اور اپنے عالمانہ وقار کا بخوبی لحاظ رکھتے. معاصرین و ہم پیشہ احباب جب ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں تو بسا اوقات مجلس میں ایک دوسرے پر طنز اور چوٹ بھی ہوا کرتی ہے، کچھ لوگ اس میں بھی اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں، تبصرہ کرنے یا ان پر کوئی اور تبصرہ کرے تو اس کے رد عمل میں نامناسب طرز اختیار کرتے ہیں. ذرا سی بات کو کبھی ہتکِ عزت پر محمول کر بیٹھتے ہیں اور بلاسبب بدگمانی اور نفرت اپنے دل میں پالنے لگتے ہیں. مولانا بستوی ؒ ان دونوں خرابیوں سے محفوظ تھے، کبھی کبھی وہ خود بے تکلفانہ تبصرہ کرتے مگر اخلاق کے دائرے میں اور جب کوئی ان پر تبصرہ کرتا تو ان کی رواداری، صبر و ضبط اور خوش مزاجی دیکھنے سے تعلق رکھتی۔

میری ابتدائی تعلیم از عربی اول تا درجہ عربی سوم معہدِ انور (جامعہ امام محمد انور شاہ کا قدیم نام) میں ہوئی. مولانا عبد الرشید صاحب ؒیہاں ابتدا ہی سے تدریسی خدمت سے وابستہ تھے مگر گھنٹوں کی ترتیب و تقسیم کچھ اس طرح تھی کہ ان تین سالوں میں مولانا مرحوم سے پڑھنے کا موقع نہیں مل سکا. میں نے عربی تعلیم کے آغاز سے پہلے عصری تعلیم کا کچھ مرحلہ بھی طے کیا تھا اور سائنس سائڈ سے انٹر کرنے کے بعد گویا کہ خراباتیانِ خرد باختہ کی محفل سے اٹھ کر اہلیانِ دانشِ فردہ و صاحبانِ دلِ تابندہ کی مجلس میں آیا تھا. ایسے میں اس بات کا امکان تھا کہ ماحول، کتب و مضامین اور اسلوبِ تدریس کی فوری و یکسر تبدیلی کی بنا پر درسگاہ میں کتابیں سمجھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے، اس لئے والد محترم نے مولانا بستوی ؒ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ خارجی وقت میں مجھے عربی کی کوئی ابتدائی کتاب پڑھا دیں، تاکہ اگر کمی ہو تو اس کی تلافی ہو جائے. میرا داخلہ عربی اول میں ہوا تھا اور معہدِ انور میں اس سال سے پہلے ایک سال اعدادیہ کا تھا، جس میں فارسی، ابتدائی دینیات کے ساتھ القراءۃ الواضحۃ کا پہلا حصہ داخل تھا، اور پھر عربی اول میں اس کا دوسرا حصہ پڑھایا جاتا تھا. اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا بستوی ؒ نے القراءۃ الواضحۃ حصہ اول پڑھانے کے لیے حامی بھر لی. بتائے ہوئے وقت پر میں پابندی سے مولانا کے یہاں جاتا رہا لیکن ایک ہفتہ بلکہ دس دن گزر گئے سبق کی نوبت نہیں آئی. مختلف مصروفیات اور اعذار کی بنا پر مولانا روز ہی معذرت کر لیتے اور میں گھر لوٹ آتا. قصہ مختصر خارجی طور پر بھی مولانا سے استاذ شاگرد کا تعلق قائم نہیں ہو سکا. یہ تفصیل اس لیے بیان کی کہ مولانا مرحوم کی تدریس سے متعلق کوئی بات میں ذاتی تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں نہیں کہہ سکتا، البتہ مولانا کی زندگی میں اور اب دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد بھی، ان سے پڑھنے والے طلبہ سے (جن میں بعض میرے قریبی ساتھی ہیں) جب کبھی اس حوالہ سے بات ہوئی تو سب نے تعریفی کلمات ہی سے مولانا کا ذکر کیا. دوست و احباب کس حد تک بے تکلف ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں اور اس بے تکلفی میں ہر شخص بے دریغ اپنے دلی تاثرات کا اظہار کرتا ہے، جس کی بنا پر ایک شخص کے بارے میں ہر نوع کی اور کئی بار متضاد آراء سننے کو ملتی ہیں. مولانا مرحوم ان اساتذہ میں سے تھے جن کی تدریس کے حوالے سے کبھی کوئی ہلکی بات سننے میں نہیں آئی. ابتدائی کتابیں ہوں یا دورۂ حدیث کی منتہی کتابیں جس نے مولانا سے جو پڑھا اسے ان کی تعریف میں رطب اللسان پایا. ان کے ہر شاگرد کو ان کی کتابی صلاحیت، افہام و تفہیم کے سلیقہ، متعلقہ مضمون پر مکمل گرفت اور دورانِ درس علمی متانت کا گرویدہ پایا۔

مولانا بستوی ؒ نے عربی زبان و ادب کی تعلیم مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی تھی، جنہیں عربی زبان کا فطری ذوق اور اس کی تدریس کا خدا داد ملکہ اور کمال حاصل تھا. ان کی تدریس کے بارے میں زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں، ان کے فیض یافتہ شاگردوں کی ایک بڑی تعداد عرصہائے دراز سے ملک و بیرون ملک میں مختلف جہتوں سے عربی زبان کی غیر معمولی خدمات انجام دے رہی ہے. یہ زندہ و تابندہ اشخاص ہی مولانا کی عظمتِ شان کا سب سے بڑا ثبوت ہیں. مولانا بستوی ؒ بھی ہمیشہ اس بات کا اظہار و اعتراف کیا کرتے تھے کہ عربی زبان سے ان کی دلچسپی اور اس میدان میں ان کی لیاقت مولانا کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہی نگاہِ فیض رساں کا کرشمہ تھی. عربی زبان کی تعلیم و تدریس بعض دیگر زبانوں کے مقابلے کچھ مشکل سمجھی جاتی ہے لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ مشکل منہجِ تدریس اور اسلوبِ تعلیم کی پروردہ ہے. ہمارے یہاں زبان کو بحیثیت زبان نہ پڑھا کر، فقہی عبارتوں کی طرح حل کرایا جاتا اور عملی مشق کے بجائے قواعد رٹوانے اور غیر ضروری لغات حفظ کرانے پر ساری محنت صرف کی جاتی ہے. یہ مولانا کیرانوی ؒ کا تجدیدی کارنامہ ہے کہ انہوں نے مدارس کے لگے بندھے نظام سے بلند ہو کر عربی زبان کے گلشنِ تدریس میں نئے گل بوٹوں کی آبیاری کی. مولانا کیرانوی ؒ کی تدریس کے سلسلے میں ان کے شاگردوں نے جو باتیں ذکر کی ہیں ان میں یہ بات غیر معمولی ہے کہ ان کی تدریس درسگاہ تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ جس طرح درسگاہ میں بے پناہ شوق و ذوق کے ساتھ اپنے منفرد اندازِ تدریس سے علم و ادب کے موتی لٹاتے تھے، اسی طرح درسگاہ سے باہر بھی ان کی شانِ معلّمی جلوہ گر رہتی تھی. درسگاہ سے باہر، دارالعلوم کے احاطے میں چلتے پھرتے، گھر سے مدرسہ اور مدرسہ سے گھر کی طرف آتے جاتے، طلبہ کے ساتھ گھر پر مجلس میں اٹھتے بیٹھتے ہر وقت ان کی تدریس جاری رہتی تھی. راستہ میں چوراہے پر پہنچتے تو ساتھ چل رہے طلبہ سے پوچھتے کہ چوراہے کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟ کوئی طالب علم بتا دیتا تو ٹھیک، ورنہ خود بتا کر اسی آمد ورفت میں دو تین جملوں میں اس کی مثال دے دیتے۔ کسی طالب علم کے ہاتھ میں کوئی سامان دیکھتے تو اس سے اس کی عربی دریافت کرتے، اور پھر اسے وہیں وہ لفظ مع استعمال سمجھا دیتے. یہ مشاہَد اور محسوس مثالیں طلبہ کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتیں اور ان کا طریقۂ استعمال بھی یاد ہو جاتا۔ یہ خاص انداز تو مولانا کیرانوی ؒ کے ساتھ رخصت ہو گیا، البتہ درسگاہ کی حد تک ان کے کئی باتوفیق تلامذہ نے ان کے اسلوبِ تدریس کی محاکات کا سلسلہ قائم رکھا. مولانا بستوی ؒ بھی اپنے استاذ کے طریقۂ تدریس کے پابند رہے اور اس میں کمال پیدا کیا۔ جامعہ امام محمد انور میں مولانا نے برسوں عربی زبان کی ابتدائی کتابیں پڑھائیں، مولانا کا درس کچھ اس قسم کا تھا (جو مولانا کیرانوی ؒ کے اسلوب تدریس سے مستعار تھا) کہ وہ طلبہ کو چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعہ عربی قواعد کی بکثرت مشق کرا دیتے اور عربی لب و لہجہ میں ان جملوں کے تکلم پر بھی خوب محنت کراتے. القراءۃ الواضحۃ کا ایک سبق عموماً ایک یا دو صفحہ کا ہے، مولانا کے یہاں یہ ایک سبق ایک ہفتے میں مکمل ہوتا. جس کی وجہ یہ تھی کہ درسگاہ کے ہر طالب علم سے تحریری و زبانی مشقیہ جملے بنوائے اور سنے جاتے. اس محنت کا نتیجہ یہ تھا کہ مولانا سے ابتدا میں پڑھنے کاجن طلبہ کو موقع ملا انہیں کبھی نحوی و صرفی غلطی کرتے ہوئے نہیں دیکھا  عربی زبان کے قواعد کی باضابطہ تعلیم سے قبل ہی موٹے موٹے بنیادی قواعد جو عبارت خوانی کے لیے کفایت کر جاتے ہیں، وہ طلبہ کے زبان و قلم پر جاری ہو جاتے. ہمارے کئی احباب اس بات کے معترف ہیں کہ مولانا سے پڑھی ہوئی القراءۃ الواضحۃ سے جتنا عملی فائدہ ہوا اتنا دیگر اساتذہ سے پڑھی ہوئی ہدایۃ النحو اور کافیہ سے نہیں ہوا۔

مولانا عبد الرشید صاحب بستوی ؒ نے ابتداء ًدارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پڑھایا، پھرکچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعدجامعۃ القرآن الکریم جھنڈا پور ،بجنور چلے گئے، یہاں بھی مولانا کا قیام طویل نہیں ہوا، یہاں سے علیحدہ ہوکر مرکز المعارف آسام کی دیوبند شاخ سے منسلک ہوگئے اور مختلف کتابوں کی تالیف وترجمے کا کام کیا، پھر 1421ھ میں آپ کا تقرر بحیثیت استاذ عربی ادب دارالعلوم دیوبند میں ہوگیا، جہاں بہت کم عرصے میں آپ کی تدریس کو مقبولیت و شہرت حاصل ہوئی، مگر افسوس کہ بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر مولانا کو دارالعلوم دیوبند میں تدریس کی خدمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ دارالعلوم دیوبند اپنی مرکزیت، مرجعیت و محبوبیت کے لحاظ سے بلاشبہ ام المدارس کی حیثیت رکھتا ہے، اس ادارے سے علیحدگی مولانا کے لیے کسی عظیم سانحہ سے کم نہیں تھی. مولانا بڑے دلبرداشتہ ہوکر دیوبند کو الوداع کہنے کی مکمل تیاری کر چکے تھے کہ دستِ غیب نے ان کو سہارا دیا اور حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری ؒ جیسی قدر شناس و قدر دان ذات تک انہیں پہنچا دیا. ’’قدر جوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘ کے بموجب حضرت شاہ صاحب ؒ نے مولانا بستوی ؒ کی علمی لیاقت کو پہچانا اور قدرشناسی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے بلا تامل ان کو معہدِ انور میں تدریس اور اس کے شعبہ تصنیف و تالیف میں خدمت کے لیے منتخب کر لیا. مولانا بستوی ؒ نے تاعمر شاہ صاحب کے اس احسان کو یاد رکھا اور ان سے کسی سابقہ تعلق یا رشتۂ تلمذ نہ ہونے کے باوجود ان کے ساتھ ہمیشہ احترام و شیفتگی کا معاملہ کیا. قربت بڑھی تو مولانا بستوی ؒ حضرت شاہ صاحب ؒ کی شخصیت کے جمال و کمال کے قتیل ہو کر رہ گئے. ان کی علمیت، فکر و نظر کی وسعت و گہرائی، سیاسی بصیرت، حق گوئی، انتظامی صلاحیت، خورد نوازی جیسے نایاب اوصاف کے گرویدہ بن گئے. شاہ صاحب ؒ نے بھی ان پر اسی درجہ اعتماد کا اظہار کیا اور معہد ِانور کی کئی اہم ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں. معہد کے تعلیمی و تربیتی فیصلوں میں ان کو بھی مشورہ میں شریک کرتے اور ان کی باتیں توجہ سے سنتے. شاہ صاحب ؒ کی عادت تھی کہ کسی کی تعریف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے. کسی میں کوئی علمی یا عملی خوبی دیکھتے تو مختلف مواقع پر اس کا تذکرہ کرتے. مولانا بستوی ؒ کے بارے میں شاہ صاحب ؒ نے بارہا فرمایا کہ ’’بھائی! عبد الرشید ترجمہ کا آدمی ہے‘‘ اور صرف کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے والد بزرگوار حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری ؒ کی کئی کتابوں کی تعریب کا کام ان کے سپرد کر دیا. مولانا بستوی ؒ نے خوب توجہ، محنت اور جان فشانی کے ساتھ علامہ کشمیری ؒ اور ان کے علوم سے متعلق تین  کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں سے دو معہدِ انور (جامعہ امام محمد انور) ہی سے شائع ہو کر اہلِ علم کے درمیان مقبول ہوئیں. اور ایک کتاب ابھی طبع نہیں ہوسکی ۔ان تین کتابوں کے نام یہ ہیں:

  • (۱)خاتم النبیین (فارسی سے عربی ترجمہ)مطبوعہ
  • (۲)نوادراتِ امام کشمیری(اردو سے عربی ترجمہ)بنام’’مختارات الامام الکشمیری‘‘۔مطبوعہ
  • (۳)ملفوظاتِ محدث کشمیری(اردو سے عربی ترجمہ)غیر مطبوعہ

ترجمہ کا یہ کام انجام دیتے ہوئے مولانا بستوی ؒ کو علامہ کشمیری ؒ کی تصنیفات بنظر غائر پڑھنے کا موقع ملا اور محدود دائرہ میں سہی علومِ انوری سے ان کا ایک گونا تعلق قائم ہو گیا تھا جو اس زمانۂ انحطاط و زوال میں بڑی بات ہے. اس کے علاوہ علامہ کشمیریؒ کی بخاری شریف کی تقریر ’’انوار الباری‘‘ مرتبہ مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری ؒ کے تکملہ کا آغاز کیا. یہ کام کتاب الزکوۃ سے شروع ہوا مگر مولانا کی تدریسی وانتظامی مصروفیات مسلسل حائل ہوتی رہیں اور کام آگے نہیں بڑھ سکا، اور ایک جلد بھی مکمل نہ ہوسکی. مولانا بستویؒ نے علامہ کشمیریؒ کی مختلف سوانح عمریوں کو سامنے رکھ کر ایک مختصر کتاب بھی تالیف فرمائی، جس کا نام ’’علامہ انور شاہ کشمیری، اپنی ہشت پہلو شخصیت کے آئینے میں‘‘ ہے. یہ کتاب اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ مولانا نے مختلف جگہوں سے انتخاب فرما کر کئی اہم چیزیں اختصار کے ساتھ یکجا کردی ہیں، سب باتیں باحوالہ لکھی ہیں، اور اصل مصادر کی نشان دہی صفحہ نمبر کے ساتھ کی ہے. یہ کتاب ان لوگوں کے لئے مفید ہے جو علامہ کشمیری کی شخصیت سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے، اور ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، وہ اس کتاب کی مدد سے کم وقت میں ان کی حیات وخدمات کے کئی پہلوئوں سے باخبر ہوسکتے ہیں۔

 مولانا نے عربی اور اردو کی کئی دیگر کتابوں کی بھی خدمت کی، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں:

اردو سے عربی ترجمہ:

  • (1)حیات شیخ الہند،از: حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں دیوبندیؒ۔
  •  (2) الاسلام، از: حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ۔ 
  • (3)رمضان کے روزے، از: حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ۔
  • (4)اسلام میں مرتد کی سزا، از: حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ۔
  • (5)انسان اور انسانیت، از: حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ۔
  • (6)قربانی کا فلسفہ، از: حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ۔
  • (7) العقل والنقل ، از: حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ۔

عربی سے اردو ترجمہ:

  • (1)رجال السند والہند، از: حضرت مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ۔
  • ( 2)موقف ابن تیمیۃ من التصوف والصوفیۃ، از: شیخ دکتور محمد بن احمد بنانی۔
  • (3)ہدایۃ المرشدین، از: حضرت علامہ علی محفوظ مصریؒ ۔
  •  (4)إلی علماء نجد، از: شیخ ہاشم رفاعی،کویت۔
  •  (5)من أدب الإسلام، از: حضرت علامہ عبدالفتاح ابوغدہ شامیؒ ۔
  •  (6)العقد الثمین فی معالم دار الرسول الأمین، از: شیخ محمد امین غالی شنقیطی۔
  •   (7)فقہ أھل العراق و حدیثھم، از: حضرت علامہ زاہد کوثری مصریؒ۔
  •  (8)حضرت علامہ جلال الدین سیوطیؒ۔
  •  (9) فرقان القرآن بین صفات الخالق و صفات الأکوان، از: شیخ علامہ قضاعی مصرعی شافعیؒ۔
  • (10)کتاب الفتن، از: حضرت علامہ نعیم بن حماد مروزیؒ.

راقم السطور کو مولانا بستوی ؒ کی ترجمہ کردہ عربی کتابوں کے ساتھ ان کے اردو مضامین بھی کثرت سے پڑھنے کا موقع ملا ہے اور میرا تاثر یہ ہے کہ مولانا ہمارے علمی حلقوں کے ان گنے چنے افراد میں سے تھے جو عربی اور اردو دونوں زبانوں میں یکساں قدرت کے ساتھ لکھ سکتے تھے. عربی اور اردو دونوں سے واقفیت رکھنے والے کئی دیگر اہلِ علم کو بھی پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے لیکن یہ بات بغیر کسی تامل کے کہی جا سکتی ہے کہ دونوں زبانوں میں قلمی مہارت اور زبان کے مخصوص مزاج کی رعایت کرکے لکھنے کا کمال تین چار ہی کے یہاں دکھائی دیا. عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اگر عربی زبان کا غلبہ ہے اور اردو کے مقابلے اس سے زیادہ شغف رہا ہے تو اردو سے واقفیت کے باوجود لکھتے وقت اردو تحریر میں عربی کے اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں. اردو کی سلاست و روانی، سادگی، حسن و جمال اور سبک خرامی رخصت ہو جاتی ہے. عربی سے درآمد شدہ غیر ضروری تعبیرات، لفظیات، مخصوص طرزِ تحریر اور بوجھل تراکیب کے باعث اردو کا سارا لطف پھیکا پڑ جاتا ہے. ٹھیک اسی طرح معاملہ تب بھی بگڑ جاتا ہے جب عربی سے زیادہ اردو کا مشغلہ رہا ہو تو اس صورت میں عربی تحریر سے اس کا جمال و جلال ،اس کی فصاحت و بلاغت، اس کی رفعت و شوکت ختم ہو جاتی ہے۔ مولانا بستوی ؒ کی تحریروں میں عربی اور اردو دونوں زبانوں کی خوبصورتی باقی رہتی تھی، عربی لکھتے تو عربی اسلوب کی پاسداری کرتے اور اس میں دور دور تک اردو کا رنگ یا اثر ظاہر نہ ہوتا، اردو لکھتے تو صاف ستھری اردو لکھتے جس میں سادگی کے ساتھ کہیں کہیں ادبییت بھی ہم دوش ہوتی۔

اس بات کے ثبوت کے لئے میں مولانا کی تحریروں کے صرف دو نمونے قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔مولانا کی عربی تحریر کا رنگ دیکھئے،’’مختارات الإمام الکشمیری ‘‘میں حضرت مولانا سیّد انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’إنہ کان مدرساً موھوبًا یمتلک ناصیۃ العلوم کذلک کان خطیبًا مصقعًا سحر المستمعین بعذوبۃ خطابہٖ، وفصاحۃ لسانہ، وغرر علومہ. فجال خطیبًا في ولایات الھند، وأنحاء باکستان، ومناطق بنجلادیش، وفي کل دولۃ  من دول العالم یعیشھاالجالیات الإسلامیۃ من الھند وباکستان یعظ الناس ویذکرھم.

ھذا وکان أدیبًا فریداً باللعۃ الأردیۃ لہ رنات وصیحات تستمیل قلوب القراء وتستلفت أنظارھم. فکتب آلافا مؤلفۃ من المقالات بالأردیۃ حول مواضیع :الدین، والدعوۃ، والتعلیم، والاجتماع، والسیاسۃ . کما وضع أربعۃ عشر مؤلفا علمیا ھامًّا من أھمھا ’’مختارات الإمام محمد أنور شاہ الکشمیری‘‘.

مولانا کی اردو تحریر کا انداز بھی دیکھیں ،والد محترم کی کتاب ’’میرے عہد کا دارالعلوم‘‘ کی تعارفی سطور میں لکھتے ہیں:
’’انہوں نے (مولانا نسیم اختر شاہ قیصر نے) ایشیاء کے اس سدار بہار چمنستانِ علم وفضل سے حوشہ چینی کی اور اس کی روحانی فضائوں میں سانسیں لے کر جوان ہوئے۔ ان کے عہد میں رنگ چمن کیا اور کیسا تھا، اس کی بہاروں میں کیسی مست خرامی اور پاکیزہ مزاجی تھی، اس کے پھولوں کی مہک سے سارا گلستان کس قدر اور کس طرح معطر تھا اور یہاں تعلیم وتربیت، مردم سازی وکیمیا گری، اخلاص وعمل اور اخلاق وکردار کی کیا کچھ گرم بازاری تھی؟ اس کا آنکھوں دیکھا حال، اس کی سچی تصویر، اس کا درست منظر نامہ، انہوں نے حروف والفاظ کے دیدہ زیب قالب میں پیش کیا ہے۔آفریں صد آفریں!مبارک صد ہزار مبارک !چمنستان علم وحکمت سے نزدیک اور دور ہر ایک کے لیے قیمتی سوغات، گراں بہا تحفہ بلکہ گنج گراں مایہ ہے، گراں قدر بھی اور مستند ومعتبر بھی۔‘‘

یہ قحط الرجال کا زمانہ ہے، یکے بعد دیگرے اہلِ علم رخصت ہو رہے ہیں اور اپنی خوبیاں، اپنے کمالات، اپنی قابلِ رشک صفات اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں. عظمتوں کے ان میناروں کے کوچ کر جانے کے بعد تلاش کیجئے تو نہ وہ علم کی روشنی نظر آتی ہے، نہ کردار و عمل کی خوشبو کہیں ملتی ہے. مولانا بستوی ؒبھی اپنی خوبیوں کے لحاظ سے ایک متاعِ گراں مایہ تھے، وہ ایک بہترین عالم دین، منفرد و محبوب استاذ، کامیاب منتظم، ممتاز صاحبِ قلم، دلِ درد مند رکھنے والے مشفق اتالیق و مربی تھے، ان کا اچانک ہمارے درمیان سے اٹھ جانا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت کے اعلی درجات نصیب فرمائے،درس وتدریس کی دنیا کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق عنایت فرمائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: