مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
راہنمائی دنیا کے عظیم ترین کاموں میں سے ایک ہے، اس کے لیے مختلف طریق کا ر استعمال کیے جاتے رہے ہیں، اس کے پیچھے ہر دور میں اہم شخصیات کا ر فرما رہی ہیں اور ان کی جد وجہد کوشش ، لگن اور جذبۂ خیر خواہی سے ملک وسماج اور انسان پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں، یہ کام انتہائی تحمل ، بر داشت اور صبر کا متقاضی ہو تا ہے، دلوں کی نرمی اور جذباتیت سے دوری کے بغیر اس کام کو کرنا عملا ممکن نہیں ہوتا ، ملکوں کی تاریخ کے اوراق الٹیے تو بے شمار واقعات میرے اس خیال کی تائید کے لیے آپ کو مل جائیںگے۔
آج کل رہنمائی کے لیے مشین ایجاد ہو گئی ہے، آپ کوکہیں جانا ہے، راستہ نا معلوم ہے تو مشین میں اپنی منزل کا پتہ ڈال دیجئے اور بے فکر ہو کر اس کے بتائے ہوئے راستے پر گاڑی بڑھا تے جائیے ، وہ راستے کے بارے میں نقشہ بھی دکھا ئے گا ، ایگزٹ بھی بتائے گا، اگر آپ پڑھنا نہیں جانتے ہیں ، نقشہ سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو وہ بول کر بھی آپ کو بتائے گا ، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ نے اس کی ہدایت کو نہیں مانا اور اپنی دُھن میں آگے بڑھ گیے تو وہ آپ کو بڑا بھلا نہیں کہتا ، گالیاں نہیں دیتا ، یہ بھی نہیں کہتا کہ میری ہدایت نہیں ماننی ہے تو میری خدمت لیتے ہی کیوں ہو، جاؤ من مانی کرو اور گمراہ ہو جاؤ ، راہنمائی کرنیو الی یہ مشین ایسا کچھ نہیں کرتی وہ آپ کو اگلا موڑ بتا دیتی ہے، جہاں سے آپ اپنی منزل کی طرف بڑھ سکتے ہیں، دوبارہ بھی آپ نے اسکی ہدایت کی ان دیکھی کر دی تو بھی وہ آپ سے خفا نہیں ہوتا ، بلکہ اگلا راستہ بتاتا ہے جہاں سے آپ صحیح راہ پر چل کر منزل کو جا سکتے ہیں۔
انسان کے بنائے ہوئے مشین میں راہبری کے لیے یہ خاص وصف موجود ہے کہ وہ کسی حال میں آپے سے باہر نہیں ہوتا ؛ بلکہ ہر بار بھٹکنے پر نئے راستے کی راہنمائی کرتا ہے، انسانوں کے لیے اس میں بڑا سبق ہے، وہ اگر راہنما ہے، راہ بری کرتا ہے، قائد ہے یا قیادت کرنا چاہتا ہے تو اسے لازم ہے کہ یہ صفت اپنے اندر پیدا کرے، راہنماؤں کا مزاج یہ بن گیا ہے کہ وہ ہدایت کی تھوڑی بہت ان دیکھی پر بھی چراغ پا ہو جاتے ہیں، مسلک ذات برادری ، علاقایت کے داعیان اور اپنی اپنی برادری کے رہنماؤں میں اس سلسلے میں بڑی کمیاں پائی جاتی ہیں،جو خود کو راہ بر سمجھتے ہیں وہ دوسروں کو برا بھلا کہنے طعن وتشنیع کرنے بلکہ کافر اور مرتد تک کہنے سے گریز نہیں کرتے ، یہ کام راہ بر کا نہیں ہے، راہ بر کا کام آخری وقت تک بغیر چراغ پا ہوئے راہنمائی کرنا ہے، اور انتہائی صبر کے ساتھ منزل تک پہونچنے کے لیے اگلا ایگزٹ (Exit)بتاتے رہنا ہے، اس کو کہتے ہیں متبادل کی تلاش ، جن لوگوں کے درمیان راہ بری کارگر نہیں ہو پا رہی ہے، اس کو کس طرح منزل تک پہونچا یا جائے یہ راہ بر کی ذمہ داری ہے، راہبر یہ کہہ کر اپنا دامن نہین جھاڑ سکتا کہ لوگ اس کی نہیں سنتے ، ان کے مزاج کا ٹھیک نہیں رہتا، وہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتے رہتے ہیں، یہ سب شیطانی وساوس اور عذر لنگ ہے جو راہبری کے فرض سے انسانوں کو دور کرتا ہے، یہاں معاملہ راہ زنوں سے گلہ کا نہیں، سوال راہ بر کی رہبری کا ہے، ہم اپنی ساری ناکامی دوسروں کے سر ڈال کر مطمئن ہوجاتے ہیں، یہ اطمینان ہمیں اپنے مقصد سے بھی دور کرتا ہے اور راہ بر کی جد وجہد کو ناکامی تک پہونچا دیتا ہے۔
راہ بر کی حیثیت خواص کی ہوتی ہے ، لوگوں کی بھیڑ میں وہ لوگوں سے کچھ الگ تھلگ اور ممتاز ہوتا ہے، وہ سماج کی روح اور جان ہوتا ہے، اسے کسی بھی حال میں نہ تو بھیڑ کا حصہ بننا ہے اور نہ ہی اس سے کٹ کر زندگی گذارنی ہے، اس لیے کہ عوام کی بھیڑ ہی خواص کے لیے جسم ہے، اگر یہ جسم اس سے الگ ہو جائے تو روح اس دنیا میں رواں نہیں رہ سکتی، اس کا مقام یا تو علین ہوگا یا سجین ، روح کو رواں ہونے کے لیے جسم کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے خواص کو اگر کچھ کرنا ہے تو جسم یعنی عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا، اسی طرح عوام کو بھی اپنی قیادت اور راہنماؤں سے بد ظن نہیں ہوناچاہیے ، اس لیے کہ اگر عوام نے اپنا رشتہ خواص اور قائد سے کاٹ لیا تو وہ جسم بغیر جان کے ہوجائیں گے اور بغیر روح کے جو جسم ہوتا ہے اس کا مقام منوں مٹی تلے قبرستان ہے۔