تحریر: معصوم مرادآبادی
9 نومبر، شاعرمشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے، جو اپنے فلسفیانہ افکار کی وجہ سے دنیا کے عظیم شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو کچھ عرصے سے ’عالمی یوم اردو‘ کے طورپر بھی منایا جارہاہے، جس کی بنیاداب سے 26 برس پہلے اردو کے ایک عاشق صادق ڈاکٹر سیداحمد خاں نے ڈالی تھی۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی۔ایک زمانہ تھا کہ اس کے چاہنے والوں کی تعداد چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ فرانس جیسے دوردراز ملک میں گارساں دتاسی (1794تا 1878)جیسا اسکالر پیدا ہوا، جس نے فرانسیسی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل اردو ادب کی تاریخ لکھی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ایسا کوئی تاریخی مواد خود اردو زبان میں بھی موجود نہیں تھا۔اردو کی خوشبو سارے عالم میں پھیلی اور یہ رابطے کی بڑی زبانوں میں شامل ہوگئی۔ اردو کی نئی بستیاں آباد ہوئیں اور ہر طرف اس کے نغمے گونجنے لگے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو اپنی تمام ترشیرینی و لطافت کے باوجود اپنوں کی عدم توجہی اور غیروں کے تعصب کا شکار ہوتی رہی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ زبان اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کررہ گئی ہے۔ حالانکہ یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔برسوں پہلے کی بات ہے کہ جب کانگریس کے سابق صدر پرشوتم داس ٹنڈن نے یوپی اسمبلی میں اردو کی مخالفت میں تقریر کی تو اس وقت کسی شاعر نے گارساں دتاسی کا سہارا لے کر اس صورتحال پر یوں طنز کیا تھا۔
اردو ترا مقدر اپنے وطن میں ’ٹنڈن‘
پردیس میں ہیں تیرے سو ’گارساں دتاسی‘
بات صرف پرشوتم داس ٹنڈن پر ختم نہیں ہوئی بلکہ 80 کی دہائی کے وسط میں جب اترپردیش اردواکادمی کے وائس چیئرمین نے ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کیا تو یوپی کابینہ کے ایک وزیرواسدیو سنگھ نے ان کے خلاف مورچہ کھول دیااور انھیں برطرف کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔یہ واقعہ 4/جون 1985کا ہے۔ واسدیو سنگھ کی اس دریدہ دہنی کے خلاف اترپردیش اردواکادمی کی انتظامیہ کمیٹی کے اراکین نے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا۔ایک مجلس عمل تشکیل دی گئی جس کی میٹنگ میں واسدیو سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ”جب تک حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان نہیں بناتی، اردو والے حکومت کی کسی تنظیم میں مشاورتی یا اعزازی عہدہ قبول نہیں کریں گے۔“ایسا ہوا بھی،لیکن آج بیشتراردو والوں میں اس جذبہ صاد ق کا اس قدر فقدان ہے کہ وہ معمولی معمولی عہدوں کے لیے جوڑ توڑ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔بعد کو ملک زادہ منظوراحمد اور رام لال نے اترپردیش رابطہ کمیٹی کے پرچم تلے اردو کے دستوری حقوق کے لیے ایک تحریک چلائی اور1989 میں لکھنؤ میں پورے ہندوستان کے اردو والوں کا ایک بڑا اجتماع کیا، جس کا راقم الحروف عینی گواہ ہے۔
اسی دوران جب وزیراعلیٰ نارائن دت تیواری نے12/اکتوبر1989کو یوپی اسمبلی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا بل پیش کیاتو فرقہ پرستوں کے خیموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس بل کی مخالفت میں زعفرانی عناصر سڑکوں پر نکل آئے۔ ان کا نعرہ تھا ”اردو تھوپی لڑکوں پر تو خون بہے گا سڑکوں پر“۔اسی جارحانہ احتجاج کے نتیجے میں بدایوں میں خوفناک فساد برپا ہو ا جس میں کم وبیش50 بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے۔بعدازاں کانگریس اترپردیش میں اقتدار سے محروم ہوگئی۔ ملائم سنگھ کے دوراقتدار میں اردو اساتذہ اور مترجمین کی بھرتی ایک اہم قدم تھا۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ یہ اردو اساتذہ اور مترجمین دیگر کاموں میں مصروف ہیں، کیونکہ نہ تو اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچے ہیں اور نہ ہی سرکاری دفتروں میں کوئی درخواست اردو میں لکھ کر لاتا ہے۔
اردو کی مظلومیت کی کہانی تعصب اور تنگ نظری کے ساتھ ساتھ ہماری بے حسی نے بھی قلم بند کی ہے۔ وہ لوگ جو اردو کے بہت بڑے علمبردار تھے جب خود اقتدار میں آئے تو اپنے عہد وپیماں بھول گئے۔ انجمن ترقی اردو (ہند)کا ایک وفد 1953میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی قیادت میں بیس لاکھ دستخطوں کے ساتھ اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد سے ملا اور دستور کی روشنی میں اردو کے حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا، لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔چند برسوں بعد جب خود ڈاکٹر ذاکر حسین صدرجمہوریہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو وہ بھی اردو کے لیے کچھ نہیں کرسکے۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔1972 میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں مرکزی وزیرتعلیم ڈاکٹر نورالحسن نے اردو کے مسائل پر غور کرنے اور اس کی بقاء اور ترقی کی تدبیریں سوچنے کے لیے وزیراطلاعات ونشریات اندرکمار گجرال کی قیادت میں ایک کل ہند سطح کی کمیٹی تشکیل دی۔’گجرال کمیٹی‘ نے بڑی محنت سے کام کیا اور ملک گیر دورہ کرکے ایک جامع رپورٹ شائع کی۔اس رپورٹ میں بہت اچھی سفارشات تھیں، لیکن وہ نہایت خاموشی کے ساتھ سردخانے میں ڈال دی گئی۔ اس کی محض ایک سفارش پر عمل ہو ا اور وہ تھی اردو یونیورسٹی قایم کرنے کی سفارش،جسے سابق وزیرتعلیم ارجن سنگھ نے حیدرآباد میں قایم کروایا، لیکن المیہ یہ ہے کہ اردو کے نام پر قایم کی گئی اس یونیورسٹی کا بیشتر تدریسی و غیر تدریسی عملہ اردو زبان سے نابلد ہے۔ اس یونیورسٹی میں اردو کی ترقی اور فروغ کے علاوہ باقی سب کام ہورہے ہیں۔اس کا اندیشہ اس کے قیام کے وقت ہی ظاہر کیا گیا تھا۔ سیدحامد نے لکھا تھا کہ ”ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا معقول، محکم اور عمل پذیر اہتمام کئے بغیر اردو یونیورسٹی کو وجودمیں لانا گویا چھت ڈال کر بغیردیواروں اور ستونوں کے اسے ہوا میں ٹانگ دینا ہے۔“(’قومی آواز12/نومبر 1992)
گجرال صاحب اردو کے بہت بڑے شیدائی تھے، لیکن جب وزیراعظم بنے تو اردو کا کوئی بھلا نہیں کرسکے۔21/نومبر 1997کو اردو والوں کا ایک وفد گجرال کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کے لیے علی سردار جعفری کی قیادت میں ان سے ملا۔ راقم الحروف بھی اس وفد میں شامل تھا،لیکن یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔بعد کو وی پی سنگھ کے دور میں 1990میں گجرال کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کے لیے علی سردار جعفری کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے تین چار ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کردی، لیکن اس سے قبل کہ اس پر کوئی کارروائی کی جاتی، وی پی سنگھ کی حکومت ہی گرگئی۔تب سے اب تک جمنا میں ڈھیروں پانی بہہ چکا ہے۔
علی سردار جعفری نے اپنے مضمون (مطبوعہ روزنامہ ’انقلاب‘ بمبئی،16/دسمبر1992) میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں: ”شروع1968میں ایک ملاقات کے دوران اندرا گاندھی نے مجھ سے کہا کہ ”ہندی والے اردو کے لیے سرکاری اورثانوی زبان کے الفاظ سے گھبراتے ہیں۔“میرے یہ عرض کرنے پر کہ ان الفاظ کو ترک کرکے ان کا جو مفہوم ہے وہ اگر مل جائے تو اردو والوں کی شکایتیں دور ہوسکتی ہیں۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اندرا گاندھی نے کہا کہ ”میں تو تیار ہوں لیکن ریاستیں نہیں مانتیں۔“میں نے پھر عرض کیا کہ ہرریاست میں کانگریس کی حکومت ہے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں اردو کے حقوق کی تجویز منظورکرادیجئے اور پارلیمنٹ قانون بنادے پھر کوئی مخالفت نہیں کرے گا۔ یہ گفتگو ایک طویل خاموشی پر ختم ہوگئی۔“
زیرنظر تصویریں آنجہانی وزیراعظم اندر کمار گجرال سے 21 نومبر 1997 کو ملاقات کرنے والے اردو وفد کی ہیں۔ پہلی تصویر میں گجرال صاحب کے ساتھ پروفیسر سیف الدین سوز ، مظفر حسین برنی، علی سردار جعفری اور یونس دہلوی موجود ہیں جبکہ دوسری تصویر میں م ۔ افضل اور راقم الحروف موجود ہے۔