ذیابطیس
مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی/نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
انسانی جسم کو جو امراض لاحق ہوتے ہیں، ان میں سے کئی بیماریوں کے علاج تک انسانی عقل وشعور اور سائنس کی رسائی اب تک نہیں ہو سکی ہے ، کینسر، ایڈز وغیرہ کا شمار ایسے ہی امراض میں ہوتا ہے ، جس میں علاج ومعالجہ اکثر وبیشتر صورت میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے ، اور زندگی کو اختتام تک پہونچا دیتا ہے۔
ذبابطیس یعنی شوگر کا مرض بھی لا علاج بنتا جا رہاہے ، یہ ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتا ، غذا پر ہیز اور دواؤں کے ذریعہ اسے معتدل سطح پر رکھا جا سکتا ہے ، لیکن یہ ایسا مرض ہے جو ختم نہیں ہوتا ، عالمی ادارہ صحت (WHO)کے مطابق پوری دنیا میں ذیابطیس کے مریضوں کی تعداد ۴۲ کڑوڑ سے زائد ہو گئی ہے ، فی صد کے اعتبار سے دنیا کی ۶۵ فی صد آبادی اس مرض کا شکار ہے ، گذشتہ پینتیس سالوں میں اس مرض میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے ۔ ۱۹۸۰ء میں اس مرض کے بالغ مریضوں کی تعداد دس کڑوڑ اسی لاکھ تھی ، ۲۰۱۴ء میں یہ تعداد بڑھ کر بیالیس کڑوڑ بیس لاکھ ہو گئی ، ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں شوگر کے مریضوں کی نصف تعداد چین ، ہندوستان ، امریکہ ، برازیل اور انڈونیشیا میں پائی جاتی ہے ، چین اور ہندوستان کے اعداد وشمار دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ان دونوں ملکوں میں شوگر کے مریض زیادہ تر مرد ہیں، اور ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ، لاطینی امریکہ کے ممالک میں بھی یہ مرض تیزی سے بڑھ رہاہے ۔
طبی ماہرین کے مطابق اس مرض کی وجہ سے اعضاء رئیسہ متاثر ہوتا ہے ، دل کی بیماریاں اور ہارٹ اٹیک کے خطرات بڑھ جاتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ خون کے دباؤ اور کولیسٹرول کی سطح پر دھیان رکھا جائے ، جسمانی تگ ودو اور پیدل چلنے کو معمول کا حصہ بنا یا جائے ، مرغن غذاؤں سے پر ہیز کیاجائے اور بغیر چھانے آٹے کی روٹی ، سبزیاں پھل وغیرہ کو غذا کا حصہ بنایا جائے ، بلڈ پریشر اور وزن پر بھی نگاہ رکھی جائے ، ذیابطیس کے اتار چڑھاؤ اور کولیسٹرول کی سطح کی جانچ معمولا کرائی جائے ، احتیاط ، بہر صورت دواؤں کے استعمال سے بہتر ہے ، بہت سارے مریض اس لیے دوا لینے سے کتراتے ہیں کہ پھر پوری زندگی دوا کھانی ہوگی، ظاہر ہے یہ بد عقلی ہے کہ اعضاء رئیسہ کمزور ہوتے جائیں اور ہم دوا سے گریز کریں ، عقل مندی یہ ہے کہ دوا ڈاکٹر کے مشورے سے لیں اور پر ہیز واحتیاط کو بھی اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں ، ہمارا صحت مند رہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ قوی مؤمن کو اچھا کہا گیا ہے ، صحت مند جسم میں صحت مند دماغ پایا جاتاہے اور سارے کام دماغ کی صحت پر ہی موقوف ہیں ، سائنس داں دماغی موت کو زندگی کا خاتمہ قرار دیتے ہیں۔
بہت سارے لوگ جب دوا علاج اور احتیاط وتدبیر کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ موت ایک ہی بار نہ آئے گی اور جس حال میں مقدر ہے اسی طرح آئے گی ، اس لیے احتیاط وتدابیر اور دوا علاج کا کیا فائدہ ہے ؟ ایسے لوگوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہر مرض کی دوا ہوتی ہے ، ہمارا دماغ اور کھوج وہاں تک نہ پہونچ پائے، یہ دوسری بات ہے ، اسی طرح ہمیں احتیاط اور پر ہیز کی بھی ہدایت کی گئی ہے اور اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے ، ہم چونکہ مقدرات سے واقف نہیں ہیں ، اس لیے احتیاط وتدابیر کو اپنے معمول کا حصہ بنا نا چاہیے اور غیر ضروری منطق کا سہارالے کر اپنی زندگی کو خطرے میںنہیں ڈالنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے کو ہلاکت میں مت ڈالو۔