ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
عام الوفود (9ھ) میں پورے عرب سے قبائل مدینہ آئے اور انھوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر اسلام اور اطاعت کی بیعت کی – ان میں سے ایک قبیلہ بنو تمیم تھا – اس کے ایک سردار قیس بن عاصم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! میں نے بڑے گناہ کیے ہیں – کیا بارگاہِ الٰہی میں میری معافی ہوسکتی ہے؟ “ آپ نے تسلّی دی اور معافی کی امید دلائی تو انھوں نے اپنا واقعہ تفصیل سے بیان کیا :
” اے اللہ کے رسول ! میرے قبیلے کے لوگ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا کرتے تھے – میں نے بھی اپنی کئی لڑکیوں کے ساتھ ایسا کیا ہے – میں انہیں پیدا ہوتے ہی گڑھا کھود کر دفن کردیا کرتا تھا – لیکن ایک واقعہ بھلائے نہیں بھولتا – میں ایک مرتبہ لمبے تجارتی سفر پر گیا ہوا تھا – میری بیوی حمل سے تھی – کئی برس کے بعد واپس آیا تو گھر میں ایک چھوٹی بچی دیکھی – بیوی نے کہہ دیا : ” پیدائش کے کچھ دنوں کے بعد بچہ مرگیا تھا – یہ بچی میرے فلاں رشتے دار کی ہے – “ میں اس بچی سے بہت مانوس ہوگیا – وہ میرے ساتھ کھیلتی تھی ، میں اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا تھا – مجھے اس سے بہت زیادہ محبت ہوگئی تھی – تھوڑی دیر بھی وہ میری نگاہ سے اوجھل ہوجاتی تو میں بہت بے چین ہوجاتا تھا – کچھ دنوں کے بعد جب میری بیوی کو اندازہ ہوگیا کہ میرے دل میں اس بچی کی محبت گھر کر گئی ہے تو ایک دن اس نے بتادیا کہ وہ میری اپنی بیٹی ہے – بس پھر کیا تھا – مجھ پر شیطان سوار ہوگیا – میں اسے زندہ درگور کرنے کے منصوبے بنانے لگا – ایک دن میں نے بیوی سے کہا : ” بچی کو تیّار کردو ، میں اسے گھمانے لے جاؤں گا – “ بیوی نے ایسا ہی کیا – راستے سے میں نے ایک پھاوڑا لے لیا – دوٗر صحرا میں پہنچ کر ایک جگہ میں زمین کھودنے لگا – بچی نے پوچھا : ابّا ! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ میں خاموش رہا – وہ میرے اِرد گِرد گھومتی رہی – زمین کھودتے ہوئے میرے کپڑوں پر مٹّی لگ جاتی تو اسے جھاڑنے لگتی – کبھی کہتی : ابّا ! آپ بہت تھک گئے ہیں ، تھوڑی دیر سستالیں – جب میں حسبِ ضرورت گڑھا کھود چکا تو باہر نکلا اور بچی کو پکڑ کر اُس میں پھینک دیا اور جلدی جلدی اُوپر سے مٹی ڈالنے لگا – بچی رونے لگی – میرے کانوں میں اب بھی اس کی آواز آرہی ہے – ” میرے پیارے ابّا ! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ ابّا ! مجھے چوٹ لگ رہی ہے – ابّا ! میں دبی جا رہی ہوں – ابّا ! میرا دم گُھٹ رہا ہے – ابّا ! میں مر جاؤں گی – “ اُس وقت میں پاگل ہوگیا تھا – میرے اوپر شیطنت سوار تھی – میں برابر گڑھے میں مٹی ڈالتا رہا ، یہاں تک کہ بچی کا پورا وجود مٹی میں دب گیا اور دھیرے دھیرے اس کی آواز بھی خاموش ہوگئی – “ یہ واقعہ سنانے ہوئے مذکورہ صحابی زاروقطار رو رہے تھے اور اللہ کے رسول ﷺ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں تھے – صحابی نے دریافت کیا : ” اے اللہ کے رسول ! کیا میرے اس گناہ کا کوئی کفّارہ ہے؟ “ آپ نے فرمایا : ” جتنی لڑکیوں کو زندہ دفن کیا ہے اتنے غلام آزاد کردو – “
[ البزار : 1/ 60 ، الطبراني في المعجم الكبير : 18/ 337 ، الھیثمی ، مجمع الزوائد : 7/ 283 ، الألباني ، سلسلة الأحاديث الصحيحة : 3298 ]
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے بعض قبائل میں بعثتِ نبوی سے کچھ پہلے سے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم جاری تھی – تاریخ کی کتابوں میں بنو تمیم ، بنو مضر ، بنو خزاعہ اور بعض دیگر قبائل کے نام ملتے ہیں ، جو اس رسمِ بد پر عمل پیرا تھے – معصوم بچیوں کو زندہ زمین میں دفن کردینے میں انہیں کوئی عار نہ ہوتا تھا – اگرچہ کچھ لوگ اس کے خلاف تھے ، جو بچیوں کو بچانے کی کوشش کرتے تھے ، لیکن ان کی کوششیں انفرادی نوعیت کی تھیں ، ورنہ دیگر قبائل نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور وہ اس کے خلاف کوئی تحریک چلانے سے قاصر تھے – ایسے ماحول میں اسلام نے اس رسمِ بد کو ختم کرنے کے لیے کیا کوششیں کیں؟ یہاں تک کہ اس کی جدّوجہد سے نہ صرف اس کا جڑ سے خاتمہ ہوگیا ، بلکہ لڑکیوں کی پیدائش و پرورش عزّت و شرف کی بات سمجھی جانے لگی؟ اس تحریر میں اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی – اس سے واضح ہوگا کہ کسی معاملے میں رائے عامّہ کو کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے ؟ اس کے لیے کن محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت پڑتی ہے؟
اس رسمِ بد کو ختم کرنے کے لیے کئی محاذوں پر کام کیا گیا – قرآن مجید میں بار بار مختلف پہلوؤں سے مختلف تعبیرات کے ذریعے اس کی شناعت بیان کی گئی – اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے ارشاداتِ عالیہ کے ذریعے اس عمل کی شدید مذمّت کی اور اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا – آپ نے لڑکیوں کی قدر افزائی کی اور ان کی پرورش کو جنّت کے استحقاق اور جہنم سے نجات کا ذریعہ قرار دیا – اس طرح آپ کی پیہم کوششوں سے اس رسمِ بد کا مکمّل خاتمہ ہوگیا – ذیل میں اس مضمون کی چند آیات اور احادیث پیشِ خدمت ہیں :
(الف) قرآنی ہدایات :
1 – قرآن مجید نے قتلِ اولاد کو مشرکین کا وصف قرار دیا :
وَكَذَلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أولاَدِهِمْ شُرَكَآؤُهُمْ (الأنعام : 137)
” اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے شریکوں نے اپنی اولاد کے قتل کو خوش نما بنادیا ہے – “
2 – قتلِ اولاد کو بے وقوفی ، جہالت اور خسارہ کا عمل قرار دیا :
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُواْ أولاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الأنعام : 140)
” یقیناً خسارے میں پڑگئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو جہالت و نادانی کی بنا پر قتل کیا – “
3 – مسلمانوں کو قتلِ اولاد سے سختی سے منع کیا :
وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاكُمْ ( الأنعام :151)
” اور اپنی اولاد کو مُفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے ۔“
وَلاَ تَقْتُلُواْ أولادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ (الإسراء :31)
” اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ “
4 – عورتوں سے اولاد کو قتل نہ کرنے کا عہد لیا :
أَن لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ وَلا يَقْتُلْنَ أولادَهُنَّ (الممتحنة : 12)
” کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنا نہ کریں گی ، اپنی اولادکو قتل نہ کریں گی – “
5 – بچیوں کو قتل کرنے والوں کی سخت الفاظ میں مذمّت کی :
* وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِٱلۡأُنثَىٰ ظَلَّ وَجۡهُهُۥ مُسۡوَدࣰّا وَهُوَ كَظِیمࣱ ، یَتَوَ ٰرَىٰ مِنَ ٱلۡقَوۡمِ مِن سُوۤءِ مَا بُشِّرَ بِهِۦۤۚ أَیُمۡسِكُهُۥ عَلَىٰ هُونٍ أَمۡ یَدُسُّهُۥ فِی ٱلتُّرَابِ (النحل : 58 – 59)
” جب اِن میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اُس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے – لوگوں سے چھُپتا پھرتا ہے کہ اِس بُری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے ۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟ “
* وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحۡمَـٰنِ مَثَلࣰا ظَلَّ وَجۡهُهُۥ مُسۡوَدࣰّا وَهُوَ كَظِیمٌ (الزخرف : 17)
” اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اُس خدائے رحمٰن کی طرف منسُوب کرتے ہیں اُس کی ولادت کا مژدہ جب خود اِن میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اُس کے مُنہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے ۔ “
6 – بچیوں کو قتل کرنے والوں کے لیے اخروی سزا کا اعلان کیا :
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ، بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (التكوير : 8- 9)
” اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قُصور میں مار ی گئی؟ “
(ب) نبوی ارشادات :
1 – اللہ کے رسول ﷺ نے لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا شمار بڑے گناہوں میں کیا :
إنّ اللّهَ حَرَّمَ عَلَيكُم عُقُوقَ الأمَّهَاتَ وَ وَأدَ البَنَاتِ (بخاری : 2408 ، مسلم : 1715)
” اللہ نے تم پر حرام کیا ہے ماؤں کی نافرمانی کرنا اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا – “
2 – لڑکیوں کو ناپسند کرنے سے روکا اور ان کی اہمیت بیان کی :
لا تَكْرَهوا البَناتِ ، فإنَّهنَّ المُؤْنِساتُ الغالياتُ (أحمد : 17373)
” لڑکیوں کو ناپسند نہ کرو – وہ تو بہت انسیت والی اور بہت قیمتی ہیں – “
3 – لڑکیوں کو زندہ درگور نہ کرنے اور ان کی اچھی طرح پرورش کرنے پر جنّت کی بشارت دی :
* مَنْ كَانَتْ لَهٗ أنثَى فَلَمْ يَئِدْهَا ، وَلَمْ يُهِنْهَا ، وَ لَمْ يُؤثِر وَلَدَهٗ عَلَيهَا ـ يعني الذكورَ ـ أدخَلَهٗ اللّهُ الجَنَّةَ (أبو داود : 5146)
” جس کی کوئی لڑکی ہو ، وہ اسے نہ زندہ درگور کرے ، نہ اس کی بے قدری کرے ، نہ لڑکوں کو اس پر ترجیح دے ، اللہ اسے جنّت میں داخل کرے گا – “
* مَن كانَ لَهُ ثَلاثُ بَناتٍ فَصَبَرَ عَلَيهنَّ ، وَ أطعَمَهُنَّ ، وَ سَقاهُنَّ ، وَ كَسَاهنَّ مِن جِدَتِهِ كنَّ لَهُ حجابًا منَ النَّارِ يومَ القيامةِ (ابن ماجہ : 2947)
” جس کی تین بیٹیاں ہوں ، وہ ان پر صبر کرے ، انہیں اپنی حیثیت کے مطابق کھلائے ، پلائے اور پہنائے ، وہ روزِ قیامت اس کے لیے جہنم سے اوٹ بنیں گی – “
4 – لڑکیوں کی اچھی پرورش پر جہنم سے نجات کا یقین دلایا –
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ایک فقیر عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ میرے پاس آئی – میں نے اسے تین کھجوریں دیں – اس نے ایک ایک کھجور ہر لڑکی کو دیا اور تیسری کھجور خود کھانے کے لیے اپنے منھ کی طرف لے گئی – لیکن لڑکیاں وہ کھجور بھی مانگنے لگیں تو اس نے اس کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں کو دے دیا – مجھے اس کا یہ عمل بہت اچھا لگا – رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے تذکرہ کیا – اس پر آپ نے فرمایا :
إنَّ اللَّهَ قدْ أَوْجَبَ لَهَا بهَا الجَنَّةَ ، أَوْ أَعْتَقَهَا بهَا مِنَ النَّارِ (مسلم : 2630)
” اللہ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنّت لازم کردی – “(یا فرمایا : اسے جہنم سے نجات دے دی – “
5 – لڑکیوں سے محبت کا اظہار کیا :
رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت کرتے تھے – آپ نے فرمایا : فاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي (بخاری : 3767)” فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے -“ آپ کا یہ تعلق ان کے نکاح کے بعد بھی باقی رہا – وہ آپ سے ملنے آتیں تو کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیتے – ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی زینب نے آپ کے پاس پرورش پائی – آپ اسے گود لیتے ، اسے پیار کرتے ، اپنے کندھے پر بٹھالیتے –
اس تفصیل سے دو باتیں مستنبط ہوتی ہیں :
- (1) کسی معاملے میں رائے عامہ تبدیل کرنے کے لیے مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے – دو ایک تحریروں ، دو ایک تقریروں ، دو ایک بیانات سے کوئی فرق نہیں پڑتا – پتھر میں بھی گڑھا پڑ سکتا ہے ، لیکن ضروری ہے کہ اس پر پانی مسلسل اور عرصے تک گرے – آج کل بہت سے موضوعات ہیں ، جن پر رائے عامہ کو بدلنے کی ضرورت ہے ، مثلاً رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل ، شراب نوشی ، چھوا چھوت ، ذات برادری کا مسئلہ ، وراثت میں عورتوں کا حصہ نہ دینا ، جہیز کی رسم ، شادی کی مسرفانہ رسوم ، وغیرہ – مسلمانوں کے بارے میں برادرانِ وطن کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں ہیں ، انہیں بدلنے کی کوشش کی جاسکتی ہے – کوئی بھی موضوع لیں ، اس پر مسلسل گفتگو ، وعظ و ارشاد ، تحریر ، تقریر ، مباحثہ لیکچر ، وغیرہ کے ذریعے بیداری لائی جاسکتی ہے –
- (2) رائے عامہ کو بدلنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے – سوشل میڈیا کی رسائی ہر گھر کے اندر اور ہر انسان تک ہوگئی ہے – اس کے واسطے مختلف پروگراموں کے ذریعے اور مختلف تدابیر اختیار کرکے اپنی بات دوٗر دوٗر تک پہنچائی جاسکتی ہے –
[ تذکیر بہ موقع ورک شاپ برائے میڈیا ذمے داران ، حلقہ جات جماعت اسلامی ہند ، 11-12 نومبر 2023 ]