کاش ہم ہوش میں آتے

کاش ہم ہوش میں آتے

شراب کا نشہ اکثر صرف ایک انسان اور خاندان کو تباہ کرتا ہے مگر جب کسی چیز کا نشہ انسان کی سوچ میں سرایت کر جاۓ تو ملکوں اور علاقوں کا تحفظ خطرے میں پڑ جاتا ہے  ۔ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ نئے دور میں لوگوں کی مادہ پرستانہ سوچ نے کیسے لوگوں کو اپنے مفاد کا غلام بنا دیا ہے اور لوگ اپنے ذاتی مفاد کیلئے ایک دوسرے کے دشمن بنتے جارہے ہیں اور ہمارا معاشرہ جو کبھی مشترکہ خاندانی نظام پر مشتمل تھا اور جس میں سکون اور رومانس بھی تھا اب یہ معاشرہ بالکل بکھر چکا ہے ۔

اب انسانوں کو انسانوں سے یا تو رغبت یا محبت نہیں رہی یا پھر معاشرے میں ترقی کی سوچ کی جو وبا پھیلائی گئی اس نے انسانوں کو کچھ دینے کی بجائے بہت کچھ چھین لیا ہے ۔یعنی اب ہمارے جیسا قدیم اور تھوڑا سا مذہبی اور مولوی نما صحافی بھی جو کسی طرح کے نشے کا عادی نہیں ہے یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اسے کتابوں سے موبائل سے اور چاۓ سے محبت عشق اور دلچسپی ہو جاۓ تو وہ تنہا نہیں ہے ۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کو حقیقی سکون کیلئے ایک زندہ انسان کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جب اسے اپنے مزاج کے لوگ نہیں ملتے تو وہ اپنی تنہائی کو دور کرنے کیلئے ان تینوں چیزوں سے کچھ زیادہ ہی قریب آجاتا ہے ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان تینوں چیزوں میں کتاب تو بہترین چیز ہے آپ اسے نشہ کیسے کہہ سکتے ہیں تو ہمارا جواب یہ ہے کہ کسی چیز سے دلچسپی جب اعتدال کی حد تک ہو تو اس کی لذت  کچھ اور ہوتی ہے مگر یہی دلچسپی جنون کی حد میں داخل ہو جاۓ تو نشہ بن جاتی ہے ۔

آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جنھیں کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رہا یا جنھوں نے کتابیں نہیں لکھی وہ عالم اور اہل دانش کی فہرست میں شمار نہیں ہوتے !۔حقیقت یہ ہے کہ یہ جو آج ہم لکھ پڑھ رہے ہیں اس کی ایجاد ان لوگوں نے کی ‘جو لکھے پڑھے نہیں تھے۔ مگر انہوں نے اس کائنات میں قدرت کی تخلیق کردہ چیزوں پر غور کیا ۔لوگوں سے اپنے موضوعات پر بحث و مباحثہ کیا اور پھر اسے اپنے حافظے میں محفوظ کر لیا ۔کتابیں انہیں موضوعات کو محفوظ کرنے کا اسی طرح ایک بہترین ذرائع بنیں جیسے کہ آج کے دور میں کمپیوٹر اور پی ڈی ایف اور پین ڈرائیو وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔

اسی تعلق سے اپنے دور کے دو مشہور عالم مولانا روم اور شمس تبریز کی پہلی ملاقات کا ایک دلچسپ واقعہ اور مکالمہ ہے۔ لیکن میں یہاں اس واقعے کا تذکرہ اس لئے نہیں کر سکتا کیوں کہ ہم لوگوں کی مادہ پرست ذہنیت اس وقت ہر چیز کو جدید ٹیلیسکوپک تجربات اور سائینسی نظریے سے ہی قبول کرنے کی عادی ہو چکی ہے اور وہ حکمت اور  روحانی علوم کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔جیسے کہ قرآن میں کچھ واقعات کا ذکر سورہ کہف میں آتا ہے ۔جدید انسانی سائنس اسے کبھی قبول نہیں کرے گی اور شاید اسی لئے قرآن نے بھی بہت سے قدیمی واقعات کو اہل علم کیلئے استعاری زبان میں چھپا دیا ہے ۔ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا روم علم کے معاملے میں تحریر و تصنیف کے مجاہد تھے اور بیشک ان علماء میں سے تھے جن کے قد تک پہنچنا ہر کسی کی بساط نہیں لیکن شمس تبریز کا علم بحث و مباحثہ اور غور و فکر پر مبنی تھا اور اس کا اعتراف مولانا روم کو بھی رہا ہے کہ شمس تبریز علم کا سمندر تھے ۔مولانا روم نے اسی علم کی وجہ سے شمس تبریز کو اپنے گھر میں الگ سے رہائش کا بندوبست کیا ۔ان کی شادی کروائی ۔ان کے شدت پسندانہ مزاج کو برداشت کیا اور جب وہ کسی بات پر ناراض ہو کر شہر چھوڑ گئے تو ان کیلئے کافی عرصے تک بے چین رہے ۔لوگوں سے ان کے بارے میں در یافت کرتے رہے اور ان کے غم میں رباعیاں لکھیں ۔

خیر علم بھی ایک نشہ ہے ۔خدمت خلق اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی سوچ بھی اکثر نشے اور جنوں کی حد اختیار کر لے تو انسان خود کو بھی بھول جاتا ہے اور پھر کوئی اسے کیا کہتا ہے ۔اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے اسے اس کا بھی خیال نہیں رہتا اور وہ شخص صرف اپنے اس نشے میں ہی مست رہتا ہے ۔فرق اتنا ہے کہ لوگوں کا تعلق رحمنٰ سے ہو جاۓ۔ تو ان کے جنون سے بھی دنیا کو فائدہ پہنچتا ہے ۔لوگوں کی سوچ میں شیطانیت داخل ہو جاۓ تو ایک قلیل گروہ بھی کافی ہے دنیا کو نقصان پہنچانے کیلئے ۔آج تو اکثریت کی سوچ میلی ہو چکی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ وہ اپنی تدبیر اور سائینسی تجربات سے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔انسان کچھ نہیں کر سکتا۔انسان کی ساری ترقی قدرت کے اصول کے بغیر صرف ایک کھیل اور تماشا ہے ۔کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کیسے ایک زلزلے کے جھٹکے نے گجرات کے شہر بھج ۔بھارت میں نیپال اور حالیہ دنوں میں  پاکستان افغانستان اور جاپان کو ہلا کر رکھ دیا اور ترکی کے زلزلے سے بھی اگر انسان کے ذہن سے جدید ترقی کا نشہ نہیں اترا۔  اور یہ دنیا حرام حلال کی تمیز کے بغیر اسی طرح ترقی کرتی رہی؛ تو ایک دن وہ اپنی اسی ترقی کے ملبے میں دفن ہو چکی ہو گی ۔کاش دنیا عاد و ثمود اور یونان و روم جیسی ترقی یافتہ قوموں سے سبق لیتی ۔اگر صرف طاقت کے نظریے اور جدیدیت کو ہی تہذیبوں کی بقاء کا ضامن قرار دیا جاۓ ؛تو یونان اور مصر کی ترقی یافتہ تہذیبوں کو زوال نہیں آنا چاہئے تھا ۔مگر جب انسانی ترقی فطرت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہو تو اس کا زوال یقینی ہے اور ماضی کی یہ ترقی یافتہ قومیں اسی سبب سے تباہ ہوئیں ۔یقین کر لیجئے اب اٹھارہویں صدی کی جدید ترقی اور مادہ پرستانہ تہذیب کا اپنا رخ اور رویہ بھی بہت ٹھیک نہیں ہے ۔قرآن نے یوں ہی یہ بات نہیں کہی ہے کہ

جب زمین ہلا دی جاۓ گی ۔اور زمین اپنے خزانے اگل دے گی ۔انسان حیرت سے کہے گا آخر تجھے آج ہو کیا گیا ہے ۔

کاش دنیا ہوش میں آتی ۔کاش ہمارے ذہنوں پر سے غیر فطری ترقی کا نشہ اتر سکتا ۔

Exit mobile version