Site icon

اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے

 مولانا محمد قمر الزماں ندوی

        اللہ کو تکبر، کبر، گھمنڈ، نخوت اور غرور پسند نہیں ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ بیان کر دیا کہ وہ کبر کرنے والے کو اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا ۔ اور انسان کو متنبہ کردیا  ۔ ولا تصعر خدک للناس ولا تمش فی الارض مرحا، ان اللہ لا یحب کل مختال فخور۔کہ لوگوں سے منھ پھیر کر بات نہ کر اور زمین پر اکڑ اکڑ نہ چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا۔۔ لقمان ۱۸ ۔

       کبر کی چادر اور تکبر کی رداء صرف خدا کو زیب دیتی ہے، یہ چادر اگر انسان اوڑھنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو خاک میں ملا دیتا ہے، اس کا سر نیچا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند عمل انسانوں کا غرور ، تکبر اور گھمنڈ ہے۔ حضرت ابو ہریرەؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:،، یقول اللہ عز و جل العز ازاری، و الکبر ردائی، فمن نازعنی فی واحد منھما فقد عذبتہ۔ مسند احمد ۲/ ۳۴۸ ۔   غلبہ میرا ازار اور تکبر میری چادر ہے، جو شخص ان دونوں میں سے کسی کے بارے میں مجھ سے نزاع اور جھگڑا کرتا ہے میں اسے عذاب دوں گا۔

   ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے گزشتہ قوموں میں سے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک قیمتی لباس پہن کر نفس پسندی اور کبر و عجب میں مبتلا ہوگیا، سر مٹکاتا ہوا نخوت و غرور سے چل رہا تھا۔ اللہ تعالی نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی جارہا ہے۔۔ مسلم شریف کتاب اللباس۔

  متکبر انسان عجب پسندی کا شکار ہوجاتا ہے، وہ ہر ایک کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ 

  انسان متعدد وجوہات اور اسباب کی بنیاد پر اس اخلاقی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے، کبھی انسان کو حسب و نسب اور ذات برادری اور خاندان کا غرور ہوتا ہے، کبھی اسے قد و قامت اور حسن و جوانی کا غرور ہوتا ہے، کبھی اسے مال و دولت کا نشہ ہوتا ہے اور اس پر تکبر کرتا ہے اور کبھی حکومت اور عہدہ و اقتدار کا غرور ہوتا ہے، کبھی اسے عقل و فہم اور علم و تحقیق کا غرور ہوتا ہے اور کبھی اسے اپنی عبادت اور زہد و تقوی کا غرور ہوتا ہے۔ بہر حال غرور اور تکبر جس وجہ سے ہو اور جس شکل میں ہو وہ شیطانی عمل ہے اور اللہ کی ناراضگی اور غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ 

 تکبر ابلیس کا شیوہ ہے اور تواضع و خاکساری، فروتنی اور جھکاؤ ماننا اور تسلیم کرنا یہ انسان کی فطرت اور عادت ہے۔ ابلیس اپنے کبر و گھمنڈ کی وجہ سے ملعون و مترود قرار پایا اور رائیندہ درگاہ ہوا۔ اسی تکبر کی وجہ سے رحمت الہی سے دور ہوا۔ اور دھتکارا گیا۔ تو وہ انسان کا ازلی دشمن بن گیا۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی کبر نخوت اور تکبر و گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اللہ کی رحمت سے دور ہوجائے۔ چنانچہ جب انسان تکبر کرتا ہے تو وہ ابلیس لعین اور شیطان مردود کا اتباع کرتا ہے اور اس کو خوش کرتا ہے، اس لیے اجو انجام ابلیس کا ہوا وہی انجام اس کے نقش قدم پر چلنے والے متکبر اور گھمنڈی انسان کا ہوتا ہے۔ 

  حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا،، جنت اور جہنم میں مباحثہ ہوا، جہنم نے کہا کہ میرے اندر بڑے بڑے ظالم اور متکبر و مغرور لوگ ہیں۔ جنت نے جواب دیا کہ میرے اندر کمزور اور مسکین لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت و جہنم کے مباحثہ کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے جنت تو میری رحمت ہے میں جسے چاہتا ہوں تیرے ذریعہ اپنی رحمت سے نوازتا ہوں، اور اے جہنم تو میرا غضب ہے تیرے ذریعہ جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں اور تم دونوں کا پیٹ بھرنا میرے اوپر ہے۔ 

   جنت سکون، امن و رحمت و سلامتی کی جگہ ہے اس کے حق دار وہی لوگ ہوں گے، جن میں عاجزی، انکسار، فروتنی اور تواضع ہے۔ گھمنڈی مغرور اور متکبر لوگوں کے لیے یہ جنت مناسب کسی طرح نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:تلک الدار الآخرة نجعلھا للذین لا یریدون علوا فی الارض ولا فسادا و العاقبة للمتقین۔( القصص ۸۳) 

  آخرت کا گھر تو ہم  ان لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے، جو زمین پر اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ ہی فساد چاہتے ہیں۔ اور انجام کی بھلائی تو تقوی والوں ہی کے لیے ہے۔ 

   دوستو بزرگو اور بھائیو! 

        انسان اپنی دولت، طاقت، مال و زر اور عہدہ و منصب پر اتراتا ہے، فخر اور نشہ میں چور رہتا ہے، اپنے سے نیچے، اور کم والے کو حقیر و بے وقعت سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس فانی دنیا سے اس کا رشتہ کبھی نہیں ٹوٹے گا۔۔ لیکن اسے خبر نہیں کہ ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا سب سے اونچے اور بلند ہوجانے کی خواہش و آرزو، اپنے آپ کو سب سے زیادہ مضبوط و مستحکم، پائدار، وزنی اور قیمتی ثابت کرنے کی حرص اور ہوس، طاقت اور قوت کا نشہ اکثر اوقات انسان کو منھ کے بل گرا دیتا ہے، کیونکہ خلود زیبا صرف اس ذات برحق کو ہے۔ جس کا اعلان ہے "للہ الامر من قبل و بعد, پہلے اور بعد میں بھی سارا اختیار اللہ ہی کو ہے۔۔اور جو بندہ کو باور کراتا ہے الا لہ الحکم سن لو اسی کی بادشاہت اور حکمرانی ہے۔

   عاد و ثمود اور فرعون و شداد اور نمرود و ہامان کی داستانیں قدیم اور پرانی ہوچکیں، مگر سنت الہی کا کرشمہ ہر زمانہ میں نظر آتا ہے، ایک وقت تک کہ روس عالمی طاقت بنا ہو تھا، امریکہ کو بھی آنکھ دکھاتا تھا ، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ ستر سال سے زیادہ اس کی ہٹلری نہیں چلی اور تسبیح کے دانے اور تاش کے پتہ کی طرح وہ بکھر گیا اور طاقت و غرور اور اقتدار کا نشہ چور چور ہوگیا۔۔۔ کیمنیوزم اور لا مذہبیت نے دم توڑ دیا ،ایوان اقتدار سے سرخ جھنڈا اور پرچم ہٹا دیا گیا۔۔۔ فطرت کے خلاف بنایا گیا نظام اور قانون بے وقعت ہوگیا اور مارکس و لینن کی تھیوری اور آیڈیلوجی کے گن گانے والے کنارے ہو گئے اور دم دبا کر بھاگ گئے، میخائل گورباچوف نے تسلیم کرلیا کہ یہ قانون اور نظام فطرت کے قانون سے متصادم ہے اس میں انسانیت کی خیرخواہی اور بھلائی نہیں ہے۔

          تاریخ کے حوالے سے ہم یہاں دیدئہ عبرت نگاہ کے لیے دو  واقعات آپ حضرات کو سناتے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ جب وقت بدلتا ہے، تو بادشاہ کو بھکاری اور بھکاری کو بھی بادشاہ بنادیتا ہے، یہ وقت کی گردش نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔

     سابق شاہ ایران  ،،محمد رضا پہلوی،،نے اپنی تباہی اور ہلاکت سے صرف دو سال پہلے اپنی تاج پوشی کا جشن منایا تھا، تمام دنیا کے حکمراں جمع ہوئے تھے، ایک شہر آباد کیا گیا تھا، جہاں اس جشن کی تقریبات منائی گئی تھیں، اس میں اربوں ڈالر کے محلات تعمیر ہوئے تھے، ایران کے نہیں بلکہ یورپ و امریکہ کے ماہرین انساب و تاریخ کی مدد سے ایک مربوط تاریخ دکھائی گئی تھی کہ ڈھائی ہزار برس پہلے کی سلطنت ” کاکیواں””  کا تسلسل باقی ہے، اور محمد رضا پہلوی اس کے وارث ہیں اور اس کا نشان عظمت ،، شیر و شمس،، ہے۔۔ یعنی شیر کی طرح مضبوط اور شمس (آفتاب) کی طرح روشن، دنیا کو روشن رکھنے والے جس کے مقابلے میں کسی کا چراغ نہیں جل سکتا، جل جلالہ و عز شانہ کے الفاظ زبان سے نہیں کہے گئے تھے، مگر ہر قدم پر اس کا اظہار تھا، پھر کیا ہوا؟ اس جشن کی گونج ابھی باقی ہی تھی کہ غیرت حق جوش اور حرکت میں آئی۔۔ فاتی اللہ بنیانھم من القواعد۔ (النخل ۲۶) اللہ تعالیٰ نے ان کا بنا بنایا گھر  جڑ سے ڈھا دیا۔۔ تاج کیانی اور آریا مہر دونوں پیروں سے روند دئیے گئے۔ فخر علیھم السقف من فوقھم و اتاھم العذاب من حیث لا یشعرون۔( النخل ۲۶) اور پھر اوپر سے ان پر چھت آپڑی  اور ان پر عذاب اس طرح آیا کہ ان کو وہم و گماں بھی نہ تھا۔۔ کا منظر اس عہد کے انسانوں نے کھلی آنکھوں دیکھا، جہاں پناہ کو اس جہاں میں پناہ نہیں مل رہی تھی، ایران کی نئی حکومت نے پاسپورٹ بھی چھین لیا تھا، اب کوئی ملک سر چھپانے کی جگہ دینے کے لیے تیار نہ تھا، ان کے مشیر رائے دے رہے تھے کہ زمین تو نہیں فضا میں جہاں پناہ آریا مہر بسیرا لے لیں، ہوائی جہاز خود ایک محل ہے، اس کو ایندھن بھی فضا ہی میں پہنچوایا جاسکتا ہے، اس کی نوبت نہیں آتی، کیونکہ مرحوم انور سادات نے دو گز زمین دیدی۔

        شاہ ایران کے علاوہ ایک اور حکمران تھے، ،، ہیلا سلاسی، ایتھوپیا کے بادشاہ، یہ بھی ڈیڑھ ہزار برس پہلے مسیحی سلطنت کے وارث تھے، اپنی بیٹی کی شادی کی تو پیرس سے اتنا بڑا کیک بن کر آیا جو جمبوجٹ کے طول (ڈھائی سو قدم) کے برابر تھاتھا، آٹھ لاکھ ڈالر اس کی تیاری میں صرف ہوا، چارٹر پلین سے عدیس ابابا لایا گیا، اس کے بالائی اوپری حصے میں ذرا شگاف پڑ گیا، اس کے لیے ماہرین کانفکشری بلائے گئے، مزید دو لاکھ ڈالر میں اس کیک کی مرمت ہوئی، کہا گیا کہ مسیحیت کی تاریخ میں ہیلاسی ,,امر,, (خالد ہمیشہ باقی رہنے والا) ہوگئے، مگر اس کے ٹھیک تیرہ ماہ بعد اسی عدیس ابابا کے افریقی باشندوں نے یہ بھی دیکھا کہ جیل خانہ کی چھوٹی سی گاڑی پر قصر شاہی سے نکال کر شہنشاہ عالی وقار کو باہر لایا گیا اور راستے میں نوجوان آوازیں کس رہے تھے،،چور چور،، پھر اس کے بعد،،خلود،، کا دعویٰ کرنے والی شخصیت اندھیروں میں چھپ گئی، فما بکت علیھم السماء و الارض۔( الدخان ٢٦) نہ اس پر آسمان رویا اور نہ زمین۔۔ 

یہی سرزمین تو وہ ہے جہاں شاہی سواری گزرتی تھی اور دو رویہ جاں نثار قوم دست بستہ کھڑی رہتی تھی، کھڑی ہی نہیں رہتی تھی بلکہ باقاعدہ سجدہ ریز ہو جایا کرتی تھی۔( اداریہ تعمیر حیات /۱۰/ دسمبر ۱۹۹۶ء از مولانا عبد اللہ عباس ندوی رح) 

         آج بھی جو لوگ اقتدار کے نشہ اور عہدہ و منصب کے زعم میں چور ہیں اور اپنی اکثریت اور طاقت و قوت کے نشہ  میں کمزوروں اور اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ عاد و ثمود کی طرح کا انجام اب نہیں دہرایا جائے گا اور گردش ایام کا قہر اس پر نہیں آئے گا۔۔ ضرور آئے گا کیونکہ خلود زیبا صرف ذات حق کو ہے، اور سنت الہی کا کرشمہ ہر زمانہ میں نظر آتا ہے۔ 

  اس لیے انسان کو کبھی بھی اپنی، طاقت، قوت، دولت، جمعیت، جھتہ، جماعت و حکومت اور سلطنت و اقتدار پر گھمنڈ، نہیں کرنا چاہیے ،اترانا نہیں چاہیے اور نہ ہی طاقت اور حکومت کے نشے میں چور ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ ساری چیزیں وقتی اور عارضی ہیں، ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا اور سب سے مضبوط اور طاقت ور ہونے کی آرزو اور سب سے پائیدار ، مضبوط اور طاقت ور ہونے کی ہوس انسان کو اکثر منھ کے بل گرادیتی ہے، کہ خلود زیبا صرف ذات حق کو ہے، عاد و ثمود اور لوط کی داستانیں پرانی ہوچکی، مگر سنت الہی کا کرشمہ ہر دور اور ہر زمانہ میں نظر آتا ہے، ظلم اور اتیا چار والی حکومت زیادہ دن نہیں چلتی، ایسے خکمراں اور سلاطین جلد اپنی عبرت اور انجام کو پہنچ جاتے ہیں، اور داد عیش دینے والے بادشاہ اور  و طاوس و رباب میں بدمست حکمراں دوسروں کے لیے دیدہ عبرت بن جاتے ہیں۔ 

        پوری دنیا کے سامنے آج سری لنکا کی مثال موجود ہے کہ کس طرح ملک قلاش ہوگیا، لوگ دانے دانے کے محتاج ہوگئے، لوگ چیں بجبیں ہوگئے اور مجبور ہوگئے کہ وہ حکمران وقت کو ان کے شاہی محلوں سے کھدیڑ دے اور ان کو ذلیل و رسوا کرکے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دے، یہ وہی راجا پکشے ہے، جس نے تملوں کے ساتھ مل کرسری لنکا کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی حد کردی دی تھی، مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش اور ان کے مذہبی مقامات کو خاکستر کردیا تھا، ان کی معشیت کو تباہ کر دیا تھا، آج وقت بدلا ہے تو  اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو بھکاری بنا دیا، یہ وقت کی گردش نہیں تو اور کیا ہے، آج راجا پکشمے جلا وطنی کی زندگی گرازنے پر مجبور ہے، ایک مسلم ملک سے ہی رحم اور پناہ کی بھیک مانگ کر مالدیپ میں زندگی گزا رنے پر مجبور ہوگیا ہے، وہ منظر بھی کتنا عبرت ناک ہے کہ لوگ اس کے راج محل میں گھس کر اس کے شاہی بستروں پر آرام کر رہے تھے اور سوئمنگ پولوں میں بھوکے پیاسے رہ کر بھی مستی کر رہے تھے، تلک الایام نداولھا بین الناس کی کھلی تصویر تھی دنیا کے نگاہوں کے سامنے۔

     اس لئے دنیا کے حکمرانوں کو سبق لینا چاہیے اور طاقت اور حکومت پر اترانا نہیں چاہیے، وقت بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، دونوں سپر پاور روس اور امریکہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے کہ ایک چھوٹے سے نہتے ملک نے اوقات میں رہنے کا درس دے دیا اور بتا دیا کہ انسان کی طاقت سے بڑ کر خدا کی طاقت ہے، اور تکبر کی ردا اور چادر صرف خدا کو زیب دیتی ہے۔ 

      فرعون و نمرود،ہامان،قارون و شداد ہلاکو خاں اور چنگیز اور مسولینی کا نام تو آپ سب کی نظروں سے گزرا ہوگا ان کی طاقت و قوت نخوت و غرور اوران سب کی عیش پرستی، ظم و زیادتی کا حال بھی آپ سب نے پڑھا ہوگا، فرعون و نمرود تو خدائی کا دعودار تھا، شداد نے اپنی جھوٹی جنت بھی بنائی تھی، قارونی خزانوں کی چابیوں سے لدے پھندے اونٹوں کو بوجھل قدموں سے چلتے داستان بھی آپ سب نے سنا ہوگا اور شداد کو اپنی ہی جنت میں دھنستا دیکھ کر آپ کا بھی دل دہلا ہوگا، فرعون کے غرق ہوتے لشکر کا قرآنی بیان بھی سنا ہوگا۔ دولت و طاقت اور حکومت و اقتدار کے پجاریوں کا یہ انجام ہمارے اور آپ کے ڈگمگاتے قدموں کو ہمیشہ سنبھالتا رہتا ہے۔ ان نامیوں کے نشان کیسے کیسے مٹ گئے، قرآن مجید میں بھی جابجا اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس لیے عبرت کی نگاہ کو کھول کر رکھنا چاہیے اور خدائی نظام اور ضابطہ پر انسان کی نظر  ہمیشہ رہنی چاہیے۔ کیونکہ الہی ضابطہ ہے، و تلک الایام نداولھا بین الناس۔

Exit mobile version