از قلم: عبدالغفار صدیقی
”آپ کے داڑھی نہیں ہے،اس لیے آپ اقامت نہیں کہہ سکتے۔“ یہ الفاظ ایک ان پڑھ اور جاہل انسان کے نہیں ہیں بلکہ عالم،فاضل، حافظ،قاری اور امام مسجد کے ہیں۔یہ معاملہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے کم و بیش تمام مساجد کا ہے۔الا یہ کہ اقامت کہنے والا محلہ کا مال دار اور اثردار انسان ہو۔جس کے سامنے مولوی صاحب کے اندر لب ہلانے کی جرأت نہ ہو۔کہیں داڑھی کٹوانے والے کے پیچھے نماز ناجائز،کہیں اس کی اذان ناجائز۔ان فتووں نے داڑھی کو ہی اصل اسلام بنا دیا ہے۔جب کہ قرآن مجید میں داڑھی رکھنے یا نہ رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اگر داڑھی مسلمان ہونے کے لیے لازمی ہوتی تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ ضرور دیتا۔اس نے ہر اس چیز کا حکم دیا ہے جو کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔اس نے عقائد کی اصلاح کے لیے تفصیلی احکامات دیے۔اس نے اعمال صالحہ میں نماز،روزے،حج و زکاۃ کا حکم دیا،اس نے سماج اور معاشرے کو درست رکھنے کے لیے جرم و سزا کی تفصیلات بیان فرمائیں۔یہاں تک کہ گھر میں داخل ہونے،مذاق اڑانے،نام بگاڑنے،اعزہ و اقرباء سے روابط رکھنے کے احکامات و آداب تک کا ذکر کیا۔لیکن اللہ نے داڑھی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔سوائے اس کے کہ ہارون ؑ نے کہا کہ ”اے میری ماں کے بیٹے میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑو“۔کیا اس آیت سے امت محمدیہ ؐ کے لیے کوئی حکم مستنبط کیا جاسکتا ہے۔قرآن میں کسی امر کا حکم نہ ہونے کا مطلب ہے کہ وہ فرض نہیں ہے۔
قرآن کے بعد حدیث اور سنت کا مقا م ہے۔ داڑھی کے بارے میں سب سے مستند اور معتبر حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔”مشرکین کی مخالفت کرو،داڑھی بڑھاؤ،مونچھیں کٹاؤ“۔یہی الفاظ تھوڑے فرق کے ساتھ حدیث کی مستند کتب میں موجود ہیں۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ہمسایہ اقوام سے اختلاف کرنے کے لیے داڑھی بڑھائی جائے۔کہتے ہیں کہ یہود اود مشرکین داڑھی اور مونچھ دونوں بڑھاتے تھے،یا داڑھی منڈاتے اور مونچھ رکھتے تھے۔ان سے الگ شناخت قائم کرنے کے لیے یہ حکم دیا گیا۔اس طرح کے احکامات دیگر کئی معاملات میں دیے گئے ہیں۔کہیں کہا گیا:”یہود اور عیسائی خضاب نہیں لگاتے تم ان کی مخالفت کرو۔“(بخاری و مسلم)ان دونوں احادیث میں ایک جیسے ہی الفاظ کے ذریعہ دو الگ الگ حکم دیے گئے ہیں۔دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ ”یہود و نصاریٰ کی مخالفت کی جائے“ ایک میں داڑھی بڑھانے اور دوسری میں خضاب لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔مگر فتووں میں داڑھی کو فرض اور خضاب کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔اس پر ضرور غور کیا جانا چاہئے۔
دارالعلو م دیوبند اور دیگر دارالافتاء سے یہی فتویٰ دیا جاتا ہے کہ داڑھی مونڈنا اور کاٹنا حرام ہے،ایسا کرنے والا فاسق ہے،اس کے ذریعہ اقامت و اذان صرف اسی صورت میں بکراہت درست ہے جب کہ کوئی دوسرا انسان اس کے لیے موجود نہ ہو۔ان فتووں کی روشنی میں داڑھی مونڈنے یا کاٹنے والا انسان مسلمان نہیں فاسق ہے۔ظاہرہے اگر وہ مسلمان ہوتا تو اذان و اقامت کہنے کی اسے اجازت ہوتی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ شخص مسلمان کے بجائے فاسق ہے تو اس کا نکاح پڑھانا اور اس سے مدرسہ اور مسجد کے لیے تعاون (چندہ) لینا کیوں کر جائز ہوسکتا ہے۔جن مساجد میں ایسے اشخاص کو اقامت و اذان کہنے سے روک دیا جاتا ہے ان مساجد کے ائمہ فساق کا نکاح کیوں پڑھاتے ہیں۔علماء مدارس ان سے چندہ کیوں لیتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ ائمہ مساجد اور ذمہ داران مدارس نہ صرف بغیر داڑھی والوں سے چندہ لیتے ہیں بلکہ ان مالداروں کی چوکھٹ پر گھنٹوں ہاتھ باندھے انتظار فرماتے ہیں جن کی جانب حرا م کاریاں منسوب کی جاتی ہیں۔آخر یہ دہرا معیار کیوں ہے؟۔جب کہ ایک انسان کو آپ اذان و اقامت کا اہل نہیں مانتے تو وہ کسی بہن بیٹی کے لیے اچھا شوہر کیسے ہوسکتا ہے۔اس کی کمائی حلال کیسے ہوسکتی ہے اور اس کا پیسہ کس طرح دینی کاموں میں استعمال ہوسکتا ہے،اس کی تو نماز جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہئے۔
دراصل برصغیر میں احادیث اور ارشادات رسول ؐ کو ان کے پس منظر سے الگ کرکے دیکھا گیا ہے۔داڑھی کا معاملہ بھی یہی ہے۔یہ ایک مسلمان کی پہچان ہے۔جس تکثیری معاشرے میں جس قسم کی داڑھی سے مسلمان پہچان لیے جاتے ہوں اتنی داڑھی کافی ہے۔جہاں شناخت کا مسئلہ ہی درپیش نہ ہو،وہاں بغیر داڑھی کے بھی مسلمان رہا جاسکتا ہے۔
جب ہم کسی عمل کو سنت کہتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ یہ کام رسول اکرم ﷺ نے کیا ہے۔بلاشبہ داڑھی رسول اکر مؐنے رکھی ہے۔ اس لیے اس کا رکھنا سنت ہے۔عین ثواب کا کام ہے۔لیکن صرف یہی سنت کیوں؟آپ ؐ کے جیسا لباس پہننا کیوں سنت نہیں ہے؟آپ ؐ کے مثل دسترخوان کیوں سنت نہیں جہاں ایک ساتھ دو سالن جمع کرنے کوناپسند فرمایاگیا ہے۔پھر سفر میں اونٹ اور گھوڑے کے علاوہ باقی ذرائع کا استعمال کیوں ناجائز نہیں؟پھر یہ لین دین اور امور تجارت میں جدید ذرائع کا استعمال کس طرح خلاف سنت نہیں ہے؟بس ہمارے علماء دین کو داڑھی،کرتے،پائجامے کی پیمائش میں ہی سنتوں کا خیال رہتا ہے۔جس زکاۃ کا بڑا حصہ وہ حیلہ تملیک سے ڈکار جاتے ہیں اس کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟جس چندہ خوری میں وہ کمیشن لیتے ہیں وہ کس حدیث رسول سے ثابت ہے؟تراویح کے نذرانہ کے طور پر بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ،نکاح خوانی کے عوض ہزاروں روپے لینا کس کی سنت ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ دین پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور عوام کو مرعوب و گنہ گار ٹھہرانے کی یہ ایک منصوبہ بند سازش ہے۔جس طرح اہل ہنود کے علماء نے وید کو سمجھنے سے روک دیا اسی طرح علماء اہل اسلام نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے پر پابندی لگا دی۔انھوں نے دنیا میں روحانی قیادت اور آخرت میں نجات کا ٹھیکہ اللہ تعالیٰ سے اپنے نام کرالیا ہے۔حضرت کی دعوت کیجیے،علماء کی دست بوسی فرمائیے،موٹا چندہ دیجیے، اور مست رہئے۔آپ چاہیں نماز نہ پڑھیں،روزے نہ رکھیں،تجارت میں دھوکا دیں،سودی لین دین کریں،اسلام دشمنوں کی پارٹی میں رہیں،آپ سچے مسلمان ہیں اس لیے کہ شیخ و واعظ کے آپ عقیدت مند ہیں۔
علماء اکرام کے اسی رویہ نے نہ جانے کتنے نوجوانوں کو دین سے بیزار کردیا۔ایک انسان کو جب آپ یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ تم داڑھی نہ رکھنے کے سبب فاسق ہو تو وہ ساری عمر احساس گناہ کا بار لیے جیتا رہتا ہے۔ایک طرف رسول خدؐا کا یہ حکم سنایا جاتا ہے کہ: ”اللہ تمہاری صورتوں اور جسموں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل کی کیفیت دیکھتا ہے“ اور ”اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“ دوسری طرف داڑھی،اور پائجامے کی تراش خراش پر جنت و جھنم کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔آخر یہ کیسا دین ہے؟
داڑھی کے ضمن میں کہاجاتا ہے کہ تم جس قوم کی مشابہت اختیار کروگے تمہارا شمار اسی میں ہوگا۔بلاشبہ اسی میں ہونا چاہئے۔لیکن کس قسم کی مشابہت،مشابہت فی الظاہر یا فی الباطن۔یہ حدیث کا محض ایک ٹکڑا ہے۔پوری حدیث کا ترجمہ یہ ہے ”ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔کہ میں تلوار کے ساتھ جہاد کروں حتیٰ کہ صرف اللہ، جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کی جائے۔ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا، اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔“(سنن ابن ماجہ)اس حدیث میں آپ ؐ فرمارہے کہ مجھے جہاد کا حکم ہوگیا ہے،اب مجھے مال غنیمت حاصل ہوگا،جو لوگ میری مخالف ہیں وہ شکست کھائیں گے اور ذلیل ہوں گے اور جو بھی ان کے ساتھ ہوگا اس کا انجام بھی شکست و ذلت پر منتج ہوگا۔
داڑھی کے باب میں نہ جانے کہاں کہاں سے حدیثیں اور واقعات درج کردیے گئے ہیں،یہاں تک کہ بعض مضامین میں قرآن کی آیات اس طرح لکھی گئی ہیں کہ عام قاری سمجھے کہ قرآن سے داڑھی رکھنے کا حکم ثابت ہے۔ایک کتاب میں قاضی ابو یوسف ؒ کی جانب یہ قول منسوب کیا گیا ہے۔:”یعنی جس شخص کی داڑھی بڑی ہوگی اس کی معرفت چمکتی رہے گی۔“(اسلام میں داڑھی کا مقام صفحہ 35)ذرا قاضی جی کے اس قول کی روشنی میں آپ اپنے مسلم معاشرے کے لمبی داڑھیوں والے کی عقل و حکمت کا امتحان لیجیے اور دیکھیے ان کی داڑھیوں سے کس قدر معرفت چمک رہی ہے۔
جس معاشرے میں والدین کا احترام نہ ہو،جہاں اکرام انسانیت مفقود ہو،جہاں پڑوسی بھوکا ہو،جہاں مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ہی محفوظ نہ ہوں،جہاں ارتداد سرہانے کھڑا ہو وہاں ہم ایک ایسی سنت پر لوگوں کو اقامت و اذان اور دیگر امور شرعی انجام دینے سے روک دیتے ہیں جس کی حیثیت اسلام میں شعائر و شناخت کی ہو۔
میری رائے ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ؐکے ہر حکم کو اس کے پس منظر میں رکھ کر سمجھا جائے۔داڑھی ایک مسنون عمل ہے۔مردوں کو داڑھی دی ہی اسی لیے گئی ہے کہ رکھی جائے۔مقدار کا تعین جب شارع نے نہیں کیا ہے تو آپ اپنے قیاس کے گھوڑے کیوں دوڑاتے ہیں۔ آپ کی انھیں بے جا پابندیوں کی وجہ سے ایک بڑی تعداد چھوٹی داڑھی رکھنے کی سعادت سے بھی محروم ہے۔داڑھی اسلام کا ہزارواں رکن ہوسکتا ہے مگر مکمل اسلام نہیں۔