آہ بڑے چچا مولانا محمد ادریس عزیزی عاصی بھی نہیں رہے : محمد قمرالزماں ندوی
آج مورخہ 28 / نومبر 23/ ء بروز منگل مطابق 13/ جمادی الاول 1445ہج بوقت سحر، سوا تین بجے میرے بڑے چچا استاد محترم مولانا محمد ادریس عزیزی عاصی صاحب ،جن کو ہم لوگ اپنے عرف میں بڑے ابا کہتے تھے ،اس دار فانی سے دار باقی کی طرف ایک سو تین سال کی عمر میں کوچ کرگئے ۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
وہ تقریبا ایک ڈیڑھ ہفتہ سے بے ہوش تھے اور کوما کی حالت میں تھے ۔۔تمل ناڈو کے سفر پر رہنے وجہ سے عیادت کے لیے بھی نہیں جاسکا ارادہ تھا کہ ایک دو دن میں گھر جائیں گے لیکن افسوس کہ اس پہلے یہ حادثہ پیش آگیا ۔
وہ اس وقت ہماری فیملی اور خاندان کے سب سے بڑے مربی اور سرپرست تھے، گاؤں میں ان کی عمر کے اور کوئی نہیں تھے، سوائے ہماری نانی جان کے جو ان سے چھ مہینے چھوٹی ہیں، اور الحمد اللہ نماز روزہ سب کرلیتی ہیں ۔۔ ہمارے والد مولوی عبد السلام مرحوم ان سے عمر میں کافی چھوٹے تھے ،ان سے بیس سال پہلے ہی انتقال کرگئے تھے ،اسی طرح منجھلے چچا حافظ محمد یونس صاحب مرحوم بھی اور کافی عرصہ پہلے اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ بڑے ابو مولانا محمد ادریس عزیزی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علم اور جسمانی صحت و قوت دونوں چیزوں سے بھر پور نوازا تھا ۔وہ پوری زندگی تندرست ،صحت مند رہے اور دوسروں کے لیے قابل رشک بھی ،تقریبا ایک سو تین سال کی عمر ان کو مل-صحت جسمانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے خوب رو اور شکیل و وجیہ دراز قد بنایا تھا ،جس مجلس میں ہوتے نمایاں اور ممتاز نظر آتے ۔۔
مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھے ،طبیعت میں ظرافت تھی، ہر مجلس میں میر مجلس ہوتے اور مجلس کو زعفران بنا دیتے تھے ، علاقہ میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے شاگرد پھیلے ہوئے ہیں ،سب ان سے محبت کرتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے علم و عمل سے بھرپور زندگی عطا کی ،انہوں نے بڑی نیک نامی حاصل کی اور اپنی ایک پہچان اور شناخت رکھتے تھے ۔ افسوس کہ میں ان کے جنازہ میں دوری کی وجہ سے نہیں پہنچ پا رہا ہوں ،جس کا مجھے بہت صدمہ اور قلق ہے، وہ میرے چچا ہی نہیں، مربی محسن اور مشفق استاد تھے ،مجھے مدرسہ حسینہ تجوید القرآن دگھی گڈا جھارکھنڈ میں ان سے باکورة الادب ،رحمت عالم اردو کی چھوتی اور بھی کئی کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل ہے ،وہ بہت محنت اور لگن سے پڑھاتے تھے ،اگر میں یہ کہوں کہ مجھے ابتدائی اردو لکھنے پڑھنے کا جو سلیقہ آیا اس میں ان کا سب سے زیادہ احسان ہے ۔
ہمارے چچا 1921ء میں سرزمین دگھی مہگاواں ضلع گڈا جھارکھنڈ سابق صوبہ بہار میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں مولوی محمد حبیب صاحب مرحوم سے حاصل کی ، پھر سنتھال پرگنہ کی سب سے مشہور دانش گاہ مدرسہ شمسیہ گورگاواں قیام 1901ء میں ثانوی تعلیم مکمل کرکے بہار کے مشہور علمی ادارہ مدرسہ عزیزیہ بہار شریف سے عالم فاضل کی ڈگری حاصل کی ،غالبا 1953ء یا 1952ء آپ کی سال فراغت ہے ۔۔ وہاں سے جب وطن لوٹے تو جلد ہی ضلع صاحب گنج بہار موجودہ جھارکھنڈ کے عبد اللہ پور میں ہائی اسکول میں ملازمت مل گئی ۔ لیکن جب 1952ء میں بڑے نانا جان مولانا جلال الدین صاحب قاسمی رح نے دگھی گاؤں میں مولانا حسین احمد مدنی رح کے نام پر ایک بڑا ادارہ مدرسہ حسینیہ تجوید القرآن کی بنیاد رکھی تو کچھ دنوں کے بعد ان کو ماہر اساتذہ کی ضرورت پڑی ،نظر انتخاب نانا جان مولانا علاء الدین صاحب عزیزی اور پڑے چچا محترم مولانا محمد ادریس صاحب پر پڑی اور ان دونوں کو مدرسہ ھذا میں خدمت کے لیے تیار کرلیا ۔ چچا جان سرکاری ملازمت چھوڑ کر اور آمنا صدقنا کہہ کر گاؤں کے مدرسہ میں تدریس کے لیے آگئے اور پہلے مدرس پھر نائب پرنسپل اور پھر پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوکر سبکدوش ہوئے ۔۔۔۔اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے تھے جب تک صحت مند رہے گھر گھر جا کر رشتہ داروں سے ملاقات کرتے اور اپنے گھر بلاتے ، سخی اور مہمان نواز خود اچھا کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے ، صحت کا ایک راز یہ بھی تھا کہ ہمیشہ بہترین خوراک استعمال کرتے ۔ انہوں نے مشترکہ خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے بھی بڑی خدمت کی اور سب کو لے کر چلے اور خوب ترقی دلائی میں اس خاندان کا ایک رکن ہوں ،جس کی وجہ سے ان کو تصنیف و تالیف کا موقع نہیں ملا، لیکن اپنے پیچھے انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں اپنے شاگردوں کو چھوڑا ہے ،جو علمی اور عملی میدان میں کام کر رہے ہیں جو یقیناً ان کے لئے صدقئہ جاریہ ہے ۔انہوں نے اپنے پیچھے ایک بھرا خاندان بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسا نواسی اور بھتیجہ بھتیجی اور دیگر عزیز و اقارب کی شکل میں چھوڑا ہے، جو ان کے لئے دعا مغفرت اور دعا خیر کریں گے ۔۔ راقم اس وقت مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہے ،دماغ میں ان کی زندگی کے بہت سے واقعات و تاثرات ہیں، جو کسی اور موقع پر ہم رقم کریں گے ۔ اس موقع پر ہم مولانا مرحوم کے اکلوتے فرزند اور اپنے سگے بہنوئی عزیزی ماسٹر محمد مطیع الرحمان عرف ماسٹر گلاب اور تمام وارثین متعلقین اور عزیز و اقارب کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اور ویسے تو ہم خود ہی تعزیت کے مستحق ہیں ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور تمام وارثین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
اخیر میں سب کی تسلی کے لیے موت کی حقیقت پر ایک مختصر تحریر بھی پیش کر رہے ہیں تاکہ ہم سب کو اس سے تسلی ہو اور موت کا استحضار رہے:
زندگی اور موت یہ دونوں الفاظ ہر انسان کے لئے اتنے مانوس ہیں کہ ہر کان اس سے آشانا اور ہر فرد بشراس سے واقف ہے ، موت اور زندگی کے بارے میں کسی کو بتانا اور سمجھانا نہیں پڑتا کہ دیکھئے بھائی موت بھی آتی ہے، اور انسان کی پیدائش کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ دنیا میں موت اور زندگی ہی وہ حقیقت ہے کہ آج تک کسی نے ان دونوں حقیقتوں کا انکار نہیں کیا، ورنہ آدم کی اس اولاد میں تو ایسے ایسے لوگ بھی گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں، جنہوں نے نہ صرف اللہ، بلکہ اس کے علاوہ رسول و رسالت ،تقدیر، حشر و نشر، جنت و جہنم اور عذاب قبر۔، وحی و الہام اور معجزہ کا بھی انکار کیا ہے ۔
اللہ تعالٰی نے زندگی اور موت کا یہ سلسلہ اس لئے جاری فرمایا تاکہ وہ بندہ کو آزمائے کہ کون بندہ عمل میں اچھا ہے ۔
الذی خلق الموت و الحیاۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا (سورہ ملک )
جس (خدا) نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں سے کون شخص عمل میں اچھا ہے ۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر انسان مجبور ہے کہ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی یہ دنیا اور کائنات کا ذرہ ذرہ فانی ہے ، بقا و دوام تو صرف موت و حیات کے خالق ہی کو ہے، اسی کا فرمان ہے : ہر ذی روح کو موت کا مزہ چھکنا ہے ۔ اسی لئے موت سے کسی کو مفر نہیں، وہ مقرر و معین ہے ، وقت پر ہی آتی ہے ،آنے میں نہ کبھی جلدی اور نہ کبھی دیر کرتی ہے ۔اس دنیا میں دائمی زندگی لے کر نہ کوئی آیا ہے اور نہ آئندہ اس کا کسی طرح کوئی بھی امکان ہے ،آمدو رفت کا نہ ختم ہونے والا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
اللہ تعالٰی نے انسان کے لئے زندگی اور موت دونوں کا یہ سلسلہ اس لئے جاری فرمایا ہے کہ اگر سارے انسان جیتے رہیں اور موت نہ آئے تو اس زمین پر چھلنا پھرنا دو بھر ہوجاتا ،رہنے کے لئے جگہ نہ رہتی ،اتنی وسیع و عریض زمین تنگ دکھائی دینے لگتی۔ اور اگر لوگ مرتے ہی رہتے پیدا نہ ہوتے تو ایک وقت آتا کہ دنیا انسانوں سے خالی ہو جاتی ۔ لیکن قدرت الہی ہے کہ موت و حیات دونوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی طرح یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔
علماء کرام نے لکھا ہے موت کسی بیماری کا نام نہیں، حالت کا نام ہے ، جس طرح انسان پر مختلف مراحل اور حالتیں پیش آتی ہیں بچپن ۔ جوانی بوڑھاپا ۔ اسی طرح موت بھی ایک حالت ہے ۔ موت بیماری نہیں ہے، اس لئے اس کا علاج بھی نہیں ہے ۔ علاج بیماریوں کا ہوتا ہے انسان پر طاری ہونے والے حالات کا نہیں، بچہ کو ہمیشہ بچہ رکھنے اور جوان ہونے سے روکنے کا کوئی علاج نہیں، جوان کو جوان باقی رکھنے اور بڑھاپا طاری ہونے سے روکنے کا کوئی علاج نہیں، اسی طرح موت کا کوئی علاج نہیں، اگر موت بیماری ہوتی، تو اس کا ضرور علاج ہوتا ۔ کیوں ہر بیماری کا اللہ تعالی نے علاج بھی پیدا کر دیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں نازل کی، مگر اس کے لئے شفا بھی نازل فرمائی ۔
موت کسی کو نہیں چھوڑتی، یہ خواندہ ناخواندہ ،مرد اور عورت ،چھوٹا اور بڑا دانا اور غیر دانا بوڑھا اور بچہ امیر اور غریب کسی میں فرق و امتیاز نہیں کرتی ۔ عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
یموت الراعی الضان فی جھله
میتة جالنوس فی طبه
بھیڑ بکری چرانے والا طب سے ناواقف ہوتے ہوئے اسی طرح مرتا ہے جس طرح جالینوس طب کی مہارت کے باوجود مرگیا ۔
کیوں کہ خلاق ازل نے اس دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ کل نفس ذایقة الموت ( ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے) کی حقیقت ہر ایک پر صادق آکر رہے گی، اس سے کوئی بھی فرد بشر حتی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات بھی مستثنٰی اور علحدہ نہیں ہے ۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مشہور ادیب اور شاعر ماہر القادری صاحب مرحوم نے اپنی کتاب "یاد رفتگاں” جلد اول میں ایک جگہ موت اور زندگی کے حوالے سے لکھا ہے :
فروغ شمع تو باقی رہے گا، صبح محشر تک
مگرمحفل تو پروانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
اس عالم کون و فساد میں موت ہر جان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ اللہ تعالٰی کی ذات کے سوا ہر شئ فانی اور آنی جانی ہے ،احتیاج اور فنا مخلوق کی صفت ہے، آدمی کوئی شک نہیں خلاصئہ کائنات اور اشرف المخلوقات ہے مگر وہ ۔۔ ضعیف البیان۔ بھی تو ہے ۔
کریں کیا اپنی ہستی کا یقیں ہم
ابھی سب کچھ ابھی کچھ بھی نہیں ہم
جس جان کے لئے کاتب تقدیر نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس میں کمی بیشی ممکن نہیں ،ایک لمحہ کے لئے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا- مگر
آدمی نشئہ غفلت میں بھلا دیتا ہے
ورنہ جو سانس ہے پیغام فنا دیتا ہے
اور
موت میں اور حیات میں وقفہ درمیاں کہاں
حافظ شیرازی نے بڑی سچی بات کہی :
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است
(یاد رفتگاں از ماہر القادری مرحوم)
"یاد رفتگاں” کے نام سے وفیات کا ایک دوسرا بہترین،شاہکار اور قیمتی مجموعہ علامہ سید سلیمان ندوی رح کا ہے اس کے مقدمہ میں جناب سید ابو عاصم ایڈوکیٹ (کراچی) نے موت اور زندگی کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بہت ہی پر مغز اور مبنی بر حقیقت ہے ۔
سید ابو عاصم صاحب لکھتے ہیں :
حکایت ہستی کے دو ہی اہم واقعات ہیں، پیدائش اور موت ،موت و حیات کا فلسفہ کائنات کے دوسرے اسرار کی طرح اب تک لا ینحل ہے ۔
فلسفی سر حقیقت نہ توانست کشود
گشت راز دیگرآں راز کہ افشا می کرد
کچھ لوگ متحیر ہیں اور کہہ اتھتے ہیں:
سنی حکایت ہستی تو درمیان سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
حالانکہ انہیں دونوں کے تصور پر عمرانیات کی بنیاد کھڑی ہے ،موت کی حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ زندوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے، اور اسی وجہ سے موت پر غم ایک فطری جذبہ ہے، مگر مسلمان کا غم دنیا کی تمام دوسری قوموں کے غم سے مختلف ہے،اس لئے کہ مسلمان اس کائنات اور کائنات سے ماوراء کے متعلق ایک خاص نظریہ اور تصور رکھتا ہے ،وہ موت کو زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھتا ،بلکہ ایک نئ زندگی کا آغاز سمجھتا ہے ۔ اس لئے اس کو غم عارضی فراق کا ہوتا ہے ،اس کے برخلاف دوسری قومیں موت پر غم اس لئے کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک محبوب کی ہستی فنا ہوگئ، ان اوراق میں موت پر فطری غم تو ضرور ہے لیکن ایک مسلمان کا غم ہے”۔ (مقدمہ یاد رفتگاں از سید سلیمان ندوی رح)