۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مرحوم دہلی کالج اور ہمارا تاریخی نسیان

بقلم:محمد علم اللہ، نئی دہلی

گذشتہ دنوں ہمارے سینٹر کی استاد پروفیسر عذریٰ رزاق نے اوکسفرڈ یونیورسٹی کی ایک پروفیسر سے مجھے متعارف کروایا جو مرحوم دہلی کالج پر کام کر رہی تھیں۔ انھیں مولوی عبد الحق صاحب کی کتاب ‘مرحوم دہلی کالج’ کے کچھ اقتباسات کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کروانا تھا، لیکن ان کی اردو کمزور تھی تو انھیں مجھے کتاب کی عبارت پڑھ کر سنانی تھی اور مشکل جملوں کی تشریح کرنی تھی۔ میرے لیے یہ مشغلہ دلچسپ بھی تھا اور حیرت انگیز بھی کہ اردو میں اتنا نایاب خزانہ موجود ہے، تاہم وہ جگہ جگہ اپنی تحقیق کی بنیاد پر مولوی صاحب پر تنقید بھی کر تی تھیں اور بتاتی جاتیں کہ مولوی صاحب نے کئی چیزیں چھوڑ دیں اور اس کا حوالہ نہیں دیا ہے وغیرہ۔

اس مشق نے مجھے دو تین باتوں کے تئیں حساس کیا ایک تو یہ کہ ہمارے یہاں اچھے اچھے لوگ بھی تحقیق کے معاملے میں غچہ کھا جاتے ہیں۔ دوسرے لکھنا ایک  بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے ساتھ اتنی ہی بے احتیاطی برتی جاتی ہے۔

تاریخ بنی نوع انساں کا اجتماعی حافظہ ہے۔ یعنی گزشتہ ایام کا ایک ایسا دفتر جہاں ہمارے اعمال و افکار کی دستاویز سازی ہوتی ہے۔ کسی نے بجا فرمایا ہے کہ تاریخ کا کام محض خبر دینا نہیں بلکہ خبردار کرنا بھی ہے۔ ‘مرحوم دہلی کالج’ کے بارے میں مطالعے نے مجھے اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثے کے تحفظ اور اس کی قدر دانی کی طرف ہماری اجتماعی غفلت کے تئیں غور کرنے پر آمادہ کیا۔

اس نے مجھے پروفیسر جی۔ این۔ ڈیوی کے دانشمندانہ الفاظ کی یاد دلا دی، جو ہندوستانی تاریخ نگاری کی ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ان کی تصانیف کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ہم ادبیات، تاریخ اور ثقافت میں بھرپور روایات رکھنے کے باوجود، برطانوی استعمار کے اثرات نے ہمیں یہ باور کروایا کہ ہمارے یہاں کچھ نہیں ہے اور علم و دانش کے تمام اسباق ہمیں مغرب نے پڑھائے ہیں۔ 

نتیجتاً مغربی استعمار کی مرعوبیت ماضی سے اب تک ہمارے تمام طرزہائے حیات میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے کو بھی تہذیب و ثقافت کا شناخت نامہ یا جزو تسلیم کر لیا جائے تو اس بات کا اطلاق کم و بیش مرحوم دہلی کالج پر بھی منتج ہوتا ہے، جسے ہم نے بھلا دیا۔ حالانکہ اس کی بازیافت اگر کی جائے تو ہمارے ماضی کا یہ ایک تابناک استعارہ ثابت ہوگا۔

دہلی کالج اپنے گم گشتہ ماضی سے ہماری غفلت کی عبرتناک مثال ہے جو کبھی علمی جستجو کا مرجع و ماخذ تھا، لیکن اب یہ تاریخ کے کھنڈروں میں کہیں گم ہو چکا ہے۔ پروفیسر جی۔ این۔ ڈیوی کا یہ خیال کہ ہم اپنی روایات کو بھول چکے ہیں، اس تناظر میں گہرائی سے غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

مولوی عبد الحق نے درست لکھا ہے کہ کالج نہیں رہا مگراس کا کام زندہ ہے۔ اردو زبان و ادب کے بناؤ سنگار میں جو خدمات اس نے انجام دی ہیں وہ کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ اپنی زبان کو آج ہم جس ترقی یافتہ شکل و صورت میں دیکھتے ہیں اس پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کے گہرے اثرات ہیں۔ یہ پہلی درس گاہ تھی جہاں جدجدعلوم کی تعلیم اردو زبان کے ذریعے سے دی جاتی تھی۔

دو صدی پہلے اس کا خیال آنا اور اس پر عمل کرنا غیرمعمولی ہمت کا کام تھا۔ اس وقت بھی یہی اعتراض کیا جاتا تھا جو اب کیا جاتا ہے کہ اردوزبان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ مغربی علوم اور جدید سائنس کے بار کی متحمل ہو سکے۔ اُس وقت یہ اعتراض بہت کچھ بجا تھا مگر اس کے فکری معماروں نے ہمت نہیں ہاری، لکچروں کے ذریعے اور کتابیں ترجمے کر کر کے اپنا کام جاری رکھا، نیز جس اصول پر کام شروع کیا گیا تھا اسے صحیح ثابت کر کے دکھا دیا۔ وہ زبانیں جن کا آج دنیا میں طوطی بول رہا ہے اور جن کے خزانے علم و ادب سے معمور ہیں ان کی نسبت بھی چند صدی پہلے یہی کہا جاتا تھا جو آج ہماری زبانوں کے متعلق کہا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر زبان میں ہر قسم کے خیالات کو ادا کرنے کی قوت موجود ہوتی ہے بشرطیکہ ادا کرنے کے لیے کوئی خیال بھی دل میں ہو اور بے لوث اور پُرجوش کام کرنے والے بھی ہوں۔ ہمارے ملک میں دہلی کالج اس کی اولین اور کامیاب نظیر ہے جس کے بعد کسی دلیل و حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور یہی وہ درس گاہ تھی جہاں مشرق و مغرب کا سنگم وجود میں آیا، جہاں ایک ہی چھت کے نیچے، ایک ہی جماعت میں مشرق و مغرب کا علم و ادب ساتھ ساتھ پڑھایا جاتا تھا۔ اس امتزاج نے خیالات کے لین دین، معلومات میں اضافہ کرنے اور ذوق کی اصلاح میں جادو کا سا کام کیا اور ایک نئی تہذیب اور نئے دور کی بنیاد رکھی، اس نے  ایک ایسی نئی جماعت پیدا کی جس میں سے  پختہ، روشن خیال اور بالغ نظر انسان اور مصنف نکلے،ان کا احسان ہماری زبان اور ہمارے معاشرے پر ہمیشہ رہے گا ۔

اگر دہلی کالج نہ ہوتا تو کیا ماسٹر رام چند، مولانا حیسن آزاد، مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ، ماسٹر پیارے لال جیسے لوگ پیدا ہو سکتے تھے؟ یہ لوگ اگر دلّی کالج میں نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟ ممکن ہے اس میں قیاس لگانے کی بہت کچھ گنجائش ہو۔ لیکن میں اس کا بار آپ پر ڈالنا نہیں چاہتا اور خود انہیں میں سے ایک بزرگ کا قول نقل کرتا ہوں۔ مولانا نذیر احمد ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اگر میں دہلی کالج میں داخل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘

وہ اپنے خاص انداز میں فرماتے ہیں کہ: ’ معلومات کی وسعت، رائے کی آزادی، ٹالریشن ’’درگزر‘‘ گورمنٹ کی سچی خیر خواہی، اجتہاد علی بصیرت، یہ چیزیں جو تعلیم کے عمدہ نتائج ہیں اور جو حقیقت میں شرطِ زندگی ہیں، ان کو میں نے کالج ہی میں سیکھا اور حاصل کیا۔ اگر میں کالج میں نہ پڑھا ہوتا تو بتاؤں کیا ہوتا؟ مولوی ہوتا، تنگ خیال، متعصب، اکھل کھرا، اپنے نفس کے احتساب سے فارغ، دوسروں کے عیوب کا متجسس، بر خود غلط :

’ترک دنیا بمردم آموزند   خویشتن سیم و غلہ اند و زند

’مسلمانوں کا نادان دوست، تقاضائے وقت کی طرف سے اندھا بہرا ’’صم بکم عمی فہم لا یرجعون‘‘، ’’ما أصابنی من حسنۃ فی الدین أوفی الدنیا فمن الکالج‘۔

مولوی عبد الحق نے کتاب کے خاتمے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے یعنی یہ کالج اس جدید عہد میں ہماری تہذیب و علم کی ترقی کے سلسلے میں ایک ایسی کڑی تھی جو کبھی جدا نہیں ہو سکتی۔ گو ہم اپنی غفلت یا ناشکری سے اس کا نام بھلا دیں مگر اس کا کام نہیں بھلا سکتے کیونکہ اتنی مدت کے بعد بھی ہم اسی راستے کی طرف عود کر رہے ہیں جس پر وہ گامزن تھا، وہی طریقے اختیار کر رہے ہیں جو اس نے کیے تھے اور انہیں اصولوں پر کاربند ہو رہے ہیں جو اس نے قائم کیے تھے۔ گویا اتنے عرصے کے بعد اس مرحوم نے جامعہ عثمانیہ کی جون میں دوبارہ جنم لیا ہو اور اس بھولی ہوئی داستان کو پھر تازہ کر دیا ہو۔‘

وہ یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں: ’ اب یہ ارباب جامعہ کا فرض ہے کہ اس قدیم سنت کو زندہ رکھیں، اپنی زبان کی جڑیں مضبوط کریں، مغربی علوم کو اپنی زبان کے ذریعے سے پھیلائیں۔ جدید سے جدید علم کے پڑھانے اور تحقیقات کرنے کا سامان بہم پہنچائیں۔ مشرقی زبانوں کی تعلیم صحیح اصولوں پر دیں تاکہ بجائے اس کے کہ ہم اپنی زبانوں کی تحصیل کے لیے یورپ جائیں اہل یورپ ان کی تعمیل کی خاطر ہمارے پاس آئیں۔ نئی چیزوں اور نئے خیالات کے لیے ہمیشہ دروازہ کھلا رکھیں۔ ہمارے پرانے طریقہ تعلیم میں جو عیوب تھے وہ خارج کریں، مگر اس کی خوبیوں کو رواج دیں تاکہ طلبا میں علم کا سچا شوق اور تحقیق و تلاش کی لگن پیدا ہو۔ نہ اپنے اسلاف سے شرمندہ ہوں اور نہ جدید علمی ترقی سے درماندہ-‘

جب ہم تاریخ اور فکری جستجو کے ذریعے اس سفر پر غور کرتے ہیں تو پیغام واضح ہے: ہمیں صرف تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے ورثے کی فعال طور پر حفاظت کرنی چاہیے۔ ’’مرحوم دہلی کالج‘‘  ہمارے لیے ایک مشعل راہ بنتا ہے، جو ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں ہماری ثقافتی اور تعلیمی میراث کی فراوانی ہمارے اجتماعی شعور میں گہرائی سے پیوست ہے۔ اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے ایک زیادہ روشن خیال اور افزودہ معاشرے کا دروازہ کھلتا ہے، جو اپنے ماضی کی گہری سمجھ اور روشن مستقبل کے لیے تیار ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: