حلال ذبیحہ اور اس کے لیے سرٹیفکیٹ
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا عین تقاضا ہے کہ وہ کائنات میں بسنے والی تمام مخلوقات کے لئے ( جو غذا کی محتاج ہوں ) مناسب ِحال غذا کا انتظام کرے ، اسی لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے رزّاق ہو نے کا بار بار ذکر کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے بہت ہی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے کہ زمین میں جتنے بھی ذی روح ہیں ، کیڑے سے لے کر ہاتھی تک ، ان کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔
غور کیا جائے تو اس کائنات میں اکثر مخلوقات کی غذا تین طرح کی ہے ، جمادات ، یعنی وہ ٹھوس چیزیں جس میں عام طور پر نمو کی کیفیت نہیں پائی جاتی ، نباتات ، یعنی زمین سے اُگنے والی چیزیں ، حیوانات ، یعنی جاندار اشیاء ، بعض ذی روح مٹی اور پتھر کو اپنی غذا بناتے ہیں ، عام طور پر چرند و پرند کی غذا نباتات ہیں اور بہت سے حیوانات کی غذا دوسرے جاندار ہیں ، انسان اور جنوں کے علاوہ دنیا میں جو مخلوقات ہیں وہ مکلف نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظم کے دائرہ میں رہ کر کام کرتے ہیں ، ان پر تشریعی احکام کی پابندی نہیں ہے ، انسان کو قانونِ الٰہی کا پابند بنایا گیا ہے ، غذا کا تعلق چوں کہ جسمانی صحت و ارتقاء سے بھی ہوتا ہے اور اخلاقی کیفیات سے بھی ؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی غذا سے متعلق حلال و حرام کا تفصیلی قانون بھی عنایت فرمایا ۔
جمـــادات ، یعنی مٹی پتھر ، لوہا و غیرہ ، چوں کہ انسان کی قوتِ ہضم کے لحاظ سے موزوں غذا نہیں ہے اور اس سے اس کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، اس لئے ان اشیاء کے کھانے کو ناپسند کیا گیا ہے اور فقہاء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ؛ البتہ ازراہِ علاج کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے ، جیسا کہ یونانی دواؤں میں سونے چاندی کے اوراق اور ایلوپیتھک ادویہ میں آئرن ، کیلشیم و غیرہ کے اجزاء ڈالے جاتے ہیں ؛ کیوں کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ، اس لئے مٹی سے نکلنے والے اجزاء اس کے جسم کا حصہ ہیں اور ان کی مقدار میں توازن کو باقی رکھنے کے لئے ان جماداتی اشیاء کی بھی اس کو ضرورت ہوتی ہے ، جو نباتات و غیرہ کے واسطہ سے اسے حاصل ہوتی رہتی ہے ؛ لہٰذا بہ طور علاج جمادات کا استعمال بھی درست ہے ۔
نبـــاتات ،، یعنی زمین سے اُگنے والی اشیاء میں سے تین طرح کی چیزوں کو منع کیا گیا ہے : اوّل مہلک نباتات ، یعنی وہ پودے جو فوری طور پر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ، جیسے زہر ، دوسرے نشہ آور اشیاء ؛ کیوں کہ اس سے انسان کی عقل اور قوتِ فکریہ بھی متاثر ہوتی ہے اور اس کے اخلاق پر بھی خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ، ’’ کل مسکر حرام‘‘ نشہ آور اشیاء خواہ سیال ہوں یا جامد ، شراب کے نام سے پائی جاتی ہو یا کسی اور نام سے ، بہر صورت حرام ہیں ؛ کیوں کہ مفاسد کے اعتبار سے دونوں ہی برابر ہیں ؛ بلکہ بعض جامد منشیات ، سیال منشیات سے بھی زیادہ مضرت رساں ہیں ۔
تیسرے وہ اشیاء جو بہ تدریج صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور انسان کے لئے موذی امراض میں مبتلا ہونے کا سبب بنتی ہیں ، ایسی چیزوں کو حدیث میں ’’ مفتر ‘‘ یعنی جسم کے لئے ’باعث فتور ‘ قرار دیا گیا ہے ، اس کی مثال تمبا کو اور اس کے استعمال کی مختلف صورتیں — سگریٹ ، بیڑی ، گٹکا و غیرہ — ہیں ؛ کیوں کہ انسان اپنے جسم اور وجود کا مالک نہیں ہے ؛ بلکہ وہ اس کا امین ہے اور اس پر یہ بات واجب ہے کہ اس کی حفاظت و صیانت کا اہتمام کرے اوراحکام شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے جسم کو استعمال کرے ۔
حیوانات بھی غذا کا بہت بڑا ذریعہ ہیں ، جانور سے حاصل ہونے والا دُودھ نوع بہ نوع طریقوں پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا گوشت بھی نہایت لذت بخش اور انسانی جسم پر تیزی سے اثر انداز ہونے والی غذا ہے ، پھر قدرت نے انسانی جسم کو کچھ اس طرح بنایا ہے کہ اس کو نباتی غذا کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور لحمی غذا کی بھی ، اور ہضم کے اعتبار سے بھی اس میں ان دونوں طرح کی غذاؤں کو ہضم کرنے کی صلاحیت و دیعت کی گئی ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں طرح کی غذاؤں کی گنجائش رکھی ہے ؛ البتہ انسان کی جسمانی صحت اوراخلاقی مصالح و مفاسد کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ جانور حلال کئے گئے ہیں اور کچھ جانور حرام ، بنیادی طور پر کیڑے مکوڑے حرام ہیں ، درندہ ، چرند و پرند بھی حرام قرار دئیے گئے ہیں ؛ کہ انسان کہیں درندہ صفت نہ بن جائے ، بعض جانور اس لئے حرام کئے گئے ہیں کہ ان کے کھانے سے اخلاقی طور پر بے اعتدالی پیدا ہو جاتی ہے ، جیسے خنزیر ، ان کو چھوڑ کر بہت سے جانور ، اونٹ ، گائے ، بکرے ، مرغیاں و غیرہ کو حلال قرار دیا گیا ۔
لیکن ان حلال جانورں کے کھانے کے لئے بھی کچھ مہذب اُصول مقرر کئے گئے ، ان میں تین باتیں بنیادی ہیں ، جن میں سے دو کا تعلق عقیدہ و مذہب سے ہے اور ایک کا تعلق انسانی صحت اور اس کی جسمانی مصلحت سے ہے ، پہلا حکم یہ ہے کہ جانور کو ذبح کرنے والا مسلمان ، یہودی یا عیسائی ہو ، یعنی وہ فی الجملہ عقیدۂ توحید کا قائل ہو ، دوسرے ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا اور صرف اللہ کا نام لیا گیا ہو ، نہ غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور نہ قصداً اللہ کا نام لینے سے گریز کیا گیا ہو ، یہ شرطیں اس لئے رکھی گئی ہیں کہ اکثر اقوام میں اپنے معبودوں کی تقدیس کے لئے یا ان کے نام پر جانور قربان کرنے کا تصور رہا ہے ، اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جن مواقع کو لوگ مشرکانہ مقاصد کے لئے استعمال کیا کرتے تھے ، اسلام ان کا رُخ موڑتے ہوئے ان ہی مواقع کو عقیدۂ توحید کو راسخ اور مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے اور عمل کو باقی رکھتے ہوئے اس کے رُخ اور جہت کو تبدیل کرتا ہے ؛ کیوں کہ عقیدۂ توحید صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں ؛بلکہ کائنات کی واضح ترین سچائی ہے اور اس سچائی کا تقاضا ہے کہ خدا کی ایک مخلوق کو اور وہ بھی ایک جاندا ر استعمال کرتے ہوئے اس کی معبودیت اور کبریائی کا اعتراف کیا جائے ۔
تیسری شرط – جس کا تعلق انسانی صحت کے تقاضوں سے ہے – یہ ہے کہ جانور کو ایسے طریقہ پر ذبح کیا جائے کہ رگوں کا بہتا ہوا خون اچھی طرح نکل جائے اور جانور کو کم سے کم تکلیف پہنچے ،؛ چنانچہ جانور کے قابو میں ہونے کی حالت میں ذبح کا یہ طریقہ متعین کیا گیا کہ سانس اور غذا کی نالیاں اور دونوں شہِ رگ کٹ جائیں ، اگر جانور طبعی طور پر یا گلاگھونٹ کر یاکسی اور وجہ سے ذبح کئے بغیر مر جائے تو وہ حلال نہیں ، اس میں حفظانِ صحت کی رعایت بھی ہے ؛ کیوں کہ اس طرح مرجانے کی صورت میں خون جسم کے اندر منجمد ہوجاتا ہے اور صحتِ انسانی کے لئے سخت مضرت رساں ہوتا ہے ، دوسرا پہلو اس میں جانوروں کے ساتھ رحم کا بھی ہے ؛ کہ اگر ذبح کا ایک طریقہ متعین نہیں ہوتا تو لوگ مختلف بے رحمانہ طریقوں سے جانور کو نشانہ بناتے ، اسلام سے پہلے بعض مقامات پر لوگ جانور کا ایک حصہ کاٹ کر اسے اپنی غذا بنالیتے تھے ، عرب اونٹ کے کوہان کاٹ لیتے اور اسے تل کر کھاتے تھے ، بعض قومیں بھیڑ کی دُم کے حصہ کو کاٹ کر اور تل کر کھایا کرتی تھیں ، اسلام نے ان طریقوں کو منع کیا اور اسے مردار قرار دے کر ناقابل استعمال ٹھہرایا ؛ تاکہ جانوروں کے ساتھ ظالمانہ طرزِ عمل کا سد باب ہوسکے ۔
ان سطور سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں جانوروں کے شرعی طریقہ پر ذبح کرنے کی کیا اہمیت ہے؛ اس لئے فطری طور پر جو مسلمان گوشت کھاتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ شرعی طریقہ پر جانور ذبح کیا ہوا ہو، اگر کوئی شخص خود ہی جانور ذبح کرے تو اس کے لئے کسی اور کی تصدیق کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ وہ خود اپنے عمل اور حال سے واقف ہے؛ لیکن اگر وہ کسی دوکان سے اور مارکیٹ سے گوشت خرید کرے تو پھر ضروری ہے کہ کوئی معتبر شخصیت یاادارہ اس کی تصدیق کرے، اور اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں: ایک یہ کہ تصدیق کرنے والا شخص یا ادارہ ذبیحہ کے سلسلہ میں شریعت کے احکام سے واقف ہو، دوسرے: اس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ وہ اپنی باتوں میں امانت دار اور قابل بھروسہ بھی ہو؛ اسی لئے ایسے اداروں کی ضرورت پڑی جو تحقیق کے ساتھ حلال سرٹیفکیٹ جاری کرے، بعض اداروں نے اس ذمہ داری کو قبول کیا، عرب ملکوں میں تو عام طور پر حکومت کے نمائندے اس کام کو کرتے ہیں؛ لیکن دوسرے ملکوں میں پرائیویٹ ادارے اس کام کو انجام دیتے ہیں، اور پوری دنیا میں اس کا چلن جاری ہے، امریکہ، یوروپ اور مشرقی ممالک میں اس پر عمل ہے۔
اب معاشی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے، خود ہمارے ملک میں زیادہ تر حلال ذبیحہ فراہم کرنے اور بر آمد کرنے والی کمپنیاں برادران وطن کی ہیں؛ اگرچہ ان میں سے کئی نے کمپنی کا نام مسلمان کی طرح رکھ رکھے ہیں، اگر حکومت اس نظام پر پابندی لگانا چاہتی ہے تو یہ یقینی طور پر ایک غیر دستوری عمل ہوگا، اور مسلمانوں کے مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق سے ان کو محروم کرنے کی کوشش ہوگی، دوسرے: ملک کو معاشی اعتبار سے بھی اس کا نقصان پہنچے گا، حکومت کو اس تجارت سے جو کثیر زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہ متأثر ہو کر رہ جائے گا؛ اس لئے یہ تو بجا ہے کہ اگر کوئی کمپنی جھوٹی تصدیق کرتی ہو اور شرعی اصولوں کی رعایت نہ کرتی ہو تو حکومت اس کو روکے کہ وہ عوام کے ایک بڑے طبقہ کو دھوکہ دے رہی ہے؛ لیکن بلا تفریق وامتیاز اس کو منع کرنا، تصدیق نامہ جاری کرنے والی کمپنیوں کو اظہار رائے کی آزادی سے محروم کرنا،اور حلال فوڈ استعمال کرنے والوں کو کھانے پینے اور خوردنی اشیاء میں جو انتخاب واختیار کا حق دیا گیا ہے اس سے محروم کرنا ہوگا؛ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جو کمپنیاں تصدیق جاری کرتی ہیں، ان کے صحیح طریقہ پر کام کرنے کے سلسلہ میں ملی اور مذہبی ادارے جائزہ لیں؛ کیوں کہ اس سلسلے میں کثرت سے شکایتیں سننے میں آتی ہیں؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت علی الاطلاق اس کو روکنے سے گریز کرے؛ ورنہ یہ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا۔