شکیل رشید ( اڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
جس طرح حکومت مہاراشٹر کے کابینی وزیر کی حیثیت سے نواب ملک کی گرفتاری کی خبر کوئی بہت تعجب خیز نہیں تھی اسی طرح جمعرات کے روز ناگپور کی ریاستی اسمبلی میں آمد پر ان کے خلاف اٹھنے والے ہنگامے کی خبر بھی کوئی تعجب خیز نہیں ہے ۔ گرفتاری کا سبب نواب ملک کے وہ ’ انکشافات ‘ تھے جن سے ریاست کی بھاجپائی اور مرکز کی مودی سرکاریں بے نقاب ہوتی جارہی تھیں ، اور لوگوں کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ جلد یا بدیر نواب ملک کے خلاف کارروائی ہوگی ۔ اور اب آج جب نواب ملک ضمانت پر باہر ہیں ان کے خلاف ہنگامہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ کوئی ایسا بیان دے دیں کہ ان کی ضمانت رد ہوجائے اور انہیں دوبارہ جیل بھیجا جا سکے ۔
یہ انتقام کی سیاست ہے ، جس کا ان دنوں دوردورہ ہے ۔ نواب ملک نے اپنے انکشافات کی زد میں ریاست کے سابق وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس اور ان کی دھرم پتنی امرتا فڈنویس کو لیا تھا ، اور اب فڈنویس انہیں نشانہ بنا رہے ہیں ۔ فڈنویس نے ریاست کے ایک نائب وزیراعلیٰ ، این سی پی کے شردپوار مخالف دھڑے کے لیڈر اجیت دادا پوار کو ایک خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ نواب ملک کو ’ مہا یوتی ‘ سے باہر کیا جائے ۔ ’ مہا یوتی ‘ کا مطلب ریاست مہاراشٹر پر حکومت کرنے والی سیاسی پارٹیوں کا گٹھ جوڑ ہے ، یہ بی جے پی ، شیو سینا ( شندے ) اور این سی پی ( اجیت پوار ) پر مشتمل محاذ ہے ۔ نواب ملک جب گرفتار کیے گیے تھے تب این سی پی میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی تھی ، اور متحدہ این سی پی نواب ملک کے ساتھ کھڑی تھی ، لیکن اب این سی پی کے دو ٹکڑے ہو چکے ہیں ، ایک اجیت دادا کا گروپ ہے اور ایک شردپوار کا گروپ ۔ جمعرات کے روز جب نواب ملک ناگپور اسمبلی پہنچے تو ایک ایم ایل اے کے طور پر انہوں نے اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لیا ، اور اجیت دادا پوار کے گروپ کے ساتھ بیٹھے ۔ اس کے ساتھ ہی ان کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ۔ فڈنویس کا کہنا ہے کہ مُلک سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے ، اور نواب ملک پر مُلک کے خلاف بغاوت کا الزام ہے ، اس لیے ان کو ’ مہایوتی ‘ سے باہر کیا جانا چاہیے ۔ اپوزیشن نے بھی اجیت دادا پوار کے گروپ پر نشانہ سادھا ، اور نواب ملک کا نام لیے بغیر اُن کے حوالے سے نکتہ چینی کی ، یعنی نواب ملک دونوں ہی جانب سے ، حکمراں ٹولے کی ایک حلیف سیاسی جماعت بی جے پی کی طرف سے بھی اور اپوزیشن کی طرف سے بھی ، نکتہ چینی کی زد پر رہے ۔ اپوزیشن نےان پر نشانہ اس لیے سادھا کہ وہ اجیت دادا پوار کے گروپ کے ساتھ بیٹھے نظر آئے ، اور اِن دنوں یہ گروپ اپوزیشن کی نظر میں ، بالخصوص شرد پوار کی این سی پی کی نظر میں ، معتوب ہے ۔ فڈنویس کا نشانہ صرف ایک انتقامی کارروائی تھی ۔ یہ ہنگامہ ابھی فرو نہیں ہوا ہے ، دوسرے دن بھی نواب ملک کی اسمبلی آمد پر ہنگامہ جاری رہا ۔ اپوزیشن نے بی جے پی سے بالخصوص فڈنویس سے کچھ چبھتے ہوئے سوالات دریافت کیے ہیں ۔ ایک سوال بہت اہم ہے ، کیا حسن مشرف ، بھاؤنا گاولی ، پرتاپ سرنائک ، ارجن کھوتکر اور پرفل پٹیل کو کلین چٹ مل گئی ہے ؟ یہ سب بھی الزامات کے گھیرے میں ہیں ، ان پر ریاستی خزانے کو لوٹنے کا یعنی بدعنوانی کا الزام ہے ، وہ بھی ہزاروں کروڑ روپیے کی بدعنوانی ۔ یہ ابھی بھی ملزم ہیں ، لیکن ان کی اسمبلی میں آمد فڈنویس اور بی جے پی کو بے چین نہیں کر رہی ہے ، اور نہ ہی انہیں دیش بھکتی یاد آ رہی ہے ! بدعنوانی کا الزام ایک طرح سے مُلک سے بدعنوانی کا الزام ہوتا ہے –
لہذا گر نواب ملک مُلک کے قصوروار ہیں تو یہ سب بھی مُلک کے قصوروار ہیں ، پھر ان کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی جا رہی ہے ؟ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا گروپ کی ڈپٹی لیڈر سشما آندھرے نے نواب ملک کے خلاف سارے ہنگامے کی جو وجہ بتائی ہے اس پر توجہ دینا ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ نوان ملک کا تعلق اقلیت سے ہے اس لیے ان کے خلاف ہنگامہ مچایا جا رہا ہے ، اور سب دیش پریم کی بات کر رہے ہیں ، لیکن یہ دیش پریم جعلی ہے ۔ کئی سوال اٹھ رہے ہیں ، ایک تو یہ کہ اگر نواب ملک پر مُلک دشمنوں سے رابطے کا الزام ہے تو پرفل پٹیل پر بھی ایسا ہی الزام ہے ،ان کے معاملے میں کیوں دیش پریم یاد نہیں آ رہا ہے ؟ یہ بات نواب ملک کی گرفتاری کے وقت بھی کی گئی تھی اور آج بھی کی جائے گی کہ جب ایک ریاست کے کابینی وزیر کو ، ہرطرح کے اصول وضوابط کو نظرانداز کرکے ، اس کے گھر میں گھس کر آسانی کے ساتھ گرفتار کیا جاسکتا ہے تو عام شہریوں بالخصوص مسلمانوں اور دلتوں و پچھڑوں کے ساتھ پولس اور ایجنسیاں کیسا معاملہ کرتی ہوں گی ؟ اور دوسرا یہ کہ اس مُلک کا مسلمان چاہے جس قدر قوم پرست ہو جائے ، چاہے وہ جس قدر ہی بھائی چارے اور قومی یکجہتی کا ثبو ت دے ، اس کا نام دہشت گردوں ، داؤد ابراہیم اور انتہا پسندوں کے ساتھ نتھی کرنے میں ، نہ ہی مفاد پرست سیاست دانوں کو ہچکچاہٹ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے آقاؤں کے اشارے پر ناچنے والی ایجنسیوں کو ۔ آج پھر یہی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا نواب ملک کو ایک مسلم رہنما ہونے کی سزا دی جا رہی ہے ؟ نواب ملک کے بارے میں یہ دعویٰ ڈنکے کی چوٹ پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ ہی تو دہشت گردوں ، انتہا پسندوں اور مافیا سربراہوں کے ساتھی ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ملک وقوم کے مفادات کے دشمن ، لیکن ان کے بارے میں ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ۔ ابھی نواب ملک ضمانت پر ہیں ، ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم نہیں ہوئی ہے ، اور ان کا یہ حق ہے کہ وہ جہاں سے منتخب ہوئے ہیں اسمبلی میں وہاں کی نمائندگی کریں ۔ ابھی ان پر لگے الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں ، اس لیے انہیں ابھی بے قصور ہی مانا جانا چاہیے ۔ فیصلے تک ان کے خلاف اوچھی سیاست بند ہونی چاہیے ۔