تبصرہ نگار: ڈاکٹر نورالسلام ندوی
عارف باللہ حضرت مولانا شاہ محمد عارف ہرسنگھ پوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے زبردست عالم دین، مصلح امت، خدا ترس اور صوفی باصفا تھے، حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی کے فیض یافتہ اور دست گرفتہ تھے، حضرت کے وصال کے بعد حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری علیہ الرحمہ سے بیعت کی، آپ کا شمار حضرت مونگیری کے سب سے ممتاز خلفاء میں ہوتا ہے، اللہ تعالی نے آپ کی ذات کو ستودہ صفات اور علوم ظاہری کے ساتھ علوم باطنی کا حسین امتزاج بنایا تھا، پوری زندگی دین وامت کی خدمت میں گزار دی، سماجی برائیاں، معاشرتی خرابیاں، غلط رسوم و رواج اور بدعات وخرافات کے خاتمے کے لیے جس طرح جانفشانی اور مجاہدہ سے کام لیا وہ آپ ہی کا حصہ تھا، جہالت و تاریکی کو مٹانے اور علم دین کی روشنی پھیلانے کے لیے مدارس و مکاتب قائم فرمائے، شمالی بہار کے زیادہ تر مدارس ان کی تحریک سے حوصلہ پا کر عالم وجود میں آئے، راہ حق و طریقت کے اس مسافر نے لوگوں کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لیے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گھوم گھوم کر دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا، بدعت و گمراہی کو دور کیا، گم کردہ راہوں کو راہ یاب کیا، مخلوق کا رشتہ خالق سے استوار کیا۔
زیر تبصرہ کتاب"حیات عارف” حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہر سنگھ پوری کی حیات و خدمات، ان کی مجاہدانہ زندگی، دعوتی سرگرمیوں، علمی کارناموں، اصلاح امت اور بدعات و خرافات کی سرکوبی کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر مشتمل ہے، جسے ان کے لائق وفائق فرزند حضرت مولانا عبدالمنان صدیقی ندوی نے تصنیف کیا ہے،کتاب ان کی زندگی میں زیور طباعت سے آراستہ نہ ہو سکی تھی، خانوادہ عارف کے ہی ایک روشن چراغ اور صاحب قلم عالم دین مولانا مفتی محمد نافع عارفی قاسمی نے اسے بیش قیمت اضافہ اور مقدمہ کے ساتھ ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔
حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہر سنگھ پوری کی تعلیم و تربیت جس انداز سے ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے وقت کے جن اکابر علماء،صلحا،اتقیا اور روحانی شخصیتوں سے کسب فیض کیا تھا اس کے اثرات ان کی زندگی پر نمایاں تھے، تصنع و تکلف سے پاک، سادگی و خاکساری کا مجسمہ، زہد و قناعت، صبر و رضا اور بلند اخلاق و عادات کا نمونہ تھا آپ کی ذات، شہرت و ناموری اور خد و حشم سے دور، اخلاق و روحانیت کے اونچے مقام پر فائز تھے، کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت والا نے کس طرح ایک دور افتادہ گاؤں میں رہ کر وسائل و ذرائع کے فقدان کے باوجود رشد و ہدایت کا چراغ روشن کیا اور ایک خطہ اور علاقہ کو منور کیا، شمالی بہار میں انہوں نے متعدد دینی ادارے قائم کیے، جہاں سے لا تعداد علماء و حفاظ پیدا ہوئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، شمالی بہار کی قدیم معروف درسگاہ مدرسہ رحمانیہ سوپول انہیں کی یادگار ہے،مصنف نے صاحب سوانح کی زندگی کے اہم پہلوؤں اور گوشوں کو اجاگر کیا ہے،ان کی خدمات، کارنامے، علمی، دعوتی، اصلاحی، کاوشوں کو بڑی خوبصورتی سے شرح وبسط کے ساتھ پیش کیا ہے، خانگی زندگی کے بھی ایسے پہلو سامنے لائے گئے ہیں جو عام نگاہوں سے اوجھل ہوتے ہیں۔
حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہر سنگھ پوری کی اس صلاحیت و خوبی سے کم لوگ آشنا ہونگے کہ آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے، یہ دیگر بات ہے کہ آپ نے اس کے لیے الگ سے کبھی وقت فارغ نہیں کیا، کتاب میں آپ کی شاعری پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے، آپ کے شعری سرمایے میں حمد، نعت، درود و سلام، منقبت اور قصیدے شامل ہیں، شاعری کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے شعر و سخن کا بہت عمدہ ذوق پایا تھا، کلام میں پاکیزگی،سلاست، روانی اور زور بیان پایا جاتا ہے۔
کتاب بارہ ابواب پر محیط ہے، باب اول تانہم حضرت مولانا عبدالمنان صدیقی ندوی کے قلم سے ہے، دسواں باب جو علالت اور مرض وفات سے متعلق ہے، حضرت مولانا لطف الرحمن صاحب نے تحریر کیا ہے، اور آخر کے دو ابواب مرتب کتاب مفتی محمد نافع عارفی قاسمی کے قلم کی کاوش ہے، ابواب کے عنوان متعین نہیں کیے گئے ہیں، اگر ہر باب کا عنوان متعین کیا جاتا تو بہتر ہوتا،مرتب نے مقدمہ میں تحریر کیا ہے کہ کتاب گیارہ ابواب اور ایک ابتدائیہ پر مشتمل ہے، حالانکہ کتاب میں ابتدائیہ کے علاوہ کل بارہ ابواب ہیں،تیسرا باب دوسرے باب کا حصہ معلوم ہوتا ہے اس لیے اجازت بیعت کے لیے الگ باب سے باب قائم کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کتاب کے سر ورق پر صاحب سوانح کا پورا نام درج ہونا چاہیے،تاکہ کتاب دیکھتے ہی قاری کا ذہن حیات عارف سے عارف ہر سنگھ پوری کی طرف منتقل ہو جائے۔
صاحب سوانح کے ضمن میں جن شخصیتوں کا ذکر آیا ہے، مرتب نے ان پر تعارفی نوٹ لکھ دیا ہے، جو مختصر ہونے کے باوجود جامع ہے، اسی طرح جہاں جہاں قرآنی آیات، احادیث اور آثار آئے ہیں ان کی تخریج علمی اسلوب میں کی گئی ہے، جس سے کتاب کی اہمیت مزید دو چند ہو گئی ہے۔
یہ کتاب ایک عرصے تک مسودہ کی شکل میں مستور رہی، اب اسی خانوادے کی چوتھی نسل کے ذریعے منظر عام پر آرہی ہے، فاضل مرتب مفتی محمد نافع عارفی کا مطالعہ وسیع اور قلم پختہ ہے، تحقیق و تنقید کا ذہن پایا ہے انہوں نے، جو کچھ بھی قلم و قرطاس کرتے ہیں نہایت تحقیق اور مطالعہ کے بعد، ان کی متعدد علمی کتابیں منصہ شہود پرآچکی ہیں، کتاب کا مطالعہ مرتب کے علم و تحقیق کا پتہ دیتا ہے، موصوف کا طرز نگارش پرکشش اور شستہ ہے، ادب و بیان کی چاشنی پوری طرح عیاں ہے، انہوں نےمقدمہ کے علاوہ طویل ابتدائیہ بھی تحریر کیا ہے، جس کا عنوان ہے "کتاب سے پہلے” اس حصے میں انہوں نے بہار میں مسلمانوں کی آمد، متھلا دیس کی تاریخ، اس کی علمی حیثیت، ہر سنگھ پور کا تعارف و تاریخ اور خانوادہ عارفی اور تحریک مدارس پر عمدہ روشنی ڈالی ہے، یہ حصہ کافی معلوماتی اور دلچسپ ہے۔
کتاب 352 صفحات پر مشتمل ہے، پیش لفظ کے طور پر نائب امیر شریعت حضرت مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ تاثراتی تحریر ہے جو انہوں نے حضرت والا کے انتقال کے بعد مولانا عبدالمنان صدیقی ندوی کو بشکل خط لکھا تھا،اسی خط کا اقتباس کتاب کے بیک پیج پر دیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے "ولی، ولی را می شناسد” یہ مقولہ غلط تحریر ہو گیا ہے، اصل مقولہ ہے”ولی را ولی می شناسد” حرف زریں بقیۃ السلف حضرت الاستاذ مولانا محمد سعد اللہ صدیقی کا تحریر کردہ ہے، حرف چند حضرت مولانا محمد شاہد ناصری الحنفی اور تقریظ حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب کے قلم سے ہے، ان تحریروں کے مطالعے سے حضرت مولانا کی بلند قیامت شخصیت اور کتاب کی ضرورت و اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔
کتاب کی طباعت و کتابت معیاری ہے، سر ورق خوبصورت اور عمدہ ہے، کتاب طالبین و سالکین اور عام مسلمانوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے، اس میں اصلاح و تربیت کا بہت سامان موجود ہے، امید ہے کہ یہ کتاب شوق کے ہاتھوں سے لی جائے گی اور دیدہ و دل سے پڑھی جائے گی، قیمت 450 روپے ہے، اسے مکتبہ قاضی پھلواری شریف، پٹنہ اور معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور، دربھنگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے، امید ہے کہ کتاب مقبول عام ہوگی۔