مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال

مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال ✍️ معصوم مرادآبادی _______________________ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا […]

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!
ٹرمپ کی جیت کے بعد۔!

ٹرمپ کی جیت کے بعد۔! از:ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز ___________________ ڈونالڈ ٹرمپ توقع کے مطابق دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوگئے۔ وہ 1897سے لے کر اب تک تاریخ میں ایسے دوسرے صدر ہیں، جو متواتر دوسری میعاد کے لئے منتخب نہ ہوسکے تھے۔ ٹرمپ گذشتہ الیکشن ہار گئے تھے، اور 2024کا الیکشن جیت گئے۔ اس سے […]

مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں
مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں

– مدارس سیکولرازم کے منافی نہیں ✍️محمد نصر الله ندوی ___________________ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چوڑ نے جاتے جاتے مدرسہ بورڈ کے حوالہ سے اہم فیصلہ دیا،مدرسہ ایکٹ 2004 پر فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے جو کچھ کہا،وہ بہت معنی خیز ہے،انہوں نے ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے فیصلہ کو پوری طرح […]

دفعہ 370 اور 35(A)کا خاتمہ

مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

 نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ 

پانچ اگست 2019کو مرکزی حکومت نے کشمیر میں صدر راج کے دوران دفعہ 370اور 35Aہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، لداخ اور جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے مرکز کے زیر انتظام کردیا تھا، اس سے وہاں کی عوام میں بے چینی تھی اور اس دفعہ کو رد کرنے کی قانونی حیثیت کو سماج کے مختلف طبقات نے چیلنج کیا تھا، مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف 23درخواستیں عدالت میں د اخل کی گئی تھیں، سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے جس میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر جوڑ، جسٹس سنجے کشن کنول، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس سنجئے کھنہ شامل تھے،نے اگست 2023سے عرضیوں پر سماعت شروع کئے، سولہ(16)دن میں سماعت مکمل ہوگیا اورعدالت نے 5؍ستمبر 2023کو فیصلہ محفوظ رکھا تھا، 11؍ دسمبر کو عدالت عظمی نے اپنا فیصلہ سنایا اور مرکزی حکومت کے ذریعہ اس کے رد کرنے کو قانونی طور پر درست قرار دیا، اور ریاست کو تقسیم کرکے مرکز کے تحت قرار دینے والے فیصلہ کو بھی صحیح تسلیم کیا، عدالت کے جج صاحبان کا رجحان یہ رہا کہ دفعہ 370اس وقت کے اعتبار سے عارضی انتظام تھا، ریاست کشمیر کے ہندوستان سے انضمام کے بعد اس کی داخلی خود مختاری ختم ہو گئی اور جس طرح دوسری ریاستوں پر ہندوستان کا دستور نافذ ہوتا ہے ویسے ہی وہاں بھی ہوگا، اس طرح جموں کشمیر ریاست کو جو خصوصی درجہ حاصل تھا وہ ختم ہو گیا، ظاہر ہے اس فیصلے پر کشمیری قائدین کی طرف سے منفی تبصرے آنے تھے وہ آئے اور آ رہے ہیں، سب سے سخت لہجہ محبوبہ مفتی کا ہے، جنہوں نے کشمیر میں بھاجپا کی شراکت کے ساتھ حکومت کیا اور جب حکومت گر گئی تو ان کا لہجہ بدل گیا، کشمیری قائدین اپنی جد وجہد جاری رکھنے کی بات کہہ رہے ہیں اور وہ حالات سے مایوس بھی نہیں ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے؛ لیکن اب اس دفعہ کی بحالی ممکن نہیں ہے، عدالت کے فیصلے کے مطابق اگر جلد ہی مکمل ریاست کا درجہ بحال ہوجاتا ہے اور اگلے سال 30؍ستمبر تک ریاستی انتخابات ہوجاتے ہیں تو بھی بڑا کام ہوجائے گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: