حضرت مولانا ابرار الحق صاحب حقی ؒ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ
عالم اسلام کے مشہور بزرگ، روحانی پیشوا، داعی قرآن وسنت، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی بھی محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے 9 ربیع الثانی 1426ھ کی شب 16مئی 2006ء کو تقریبا نو بجے ہر دوئی میں داعی اجل کو لبیک کہا، ان کی عمر نوے سال تھی، اس طرح تزکیہ وتربیت کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا، ایک ایسا عہد جو سلوک و تصوف تعلیم و تربیت کے اعتبار سے زریں عہد تھا۔
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب قدس سرہ سے میری پہلی ملاقات دور طالب علمی میں ہوئی تھی، ملاقات کیا؟ کہنا چاہئے کہ میں نے دیکھا تھا، مجلس میں بیٹھا تھا، میں ان دنوں دارالعلوم مئو کا طالب علم تھا مدرسہ بیت العلوم سرائے میر ضلع اعظم گڑھ میں جلسہ تھا، بڑے بڑے علماء اور اکابر کے آنے کی خبر تھی، یاد پڑتا ہے کہ مولانا نظیر عالم ندوی بن مولا نا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ استاذ مدرسہ احمد یہ ابابکر پوران دنوں وہیں زیر تعلیم تھے، ان کے خطوط میرے پاس آتے رہتے تھے، اس لئے جلسہ کے بہانے مدرسہ بیت العلوم پہنچا، تقریر کیا ہوئی تھی؟ اب تو وہ یاد نہیں حضرت مولانا کے حوالہ سے بس اتنی سی بات یاد ہے کہ جب اذان کا وقت ہوا اور موذن نے اذان دی تو آپ بہت خفا ہوئے، ہم جیسوں کے لیے خفگی کی وجہ نا معلوم تھی، بعد میں لوگوں نے بتایا کہ حضرت کلمات اذان میں بے جا کھینچ تان کو پسند نہیں کرتے، بلکہ کھنچنے کی جو حد حروف مدہ اور غیر مدہ میں متعین ہے اس کی پابندی پر اصرار کرتے ہیں اور راگ سے جو اذان دی جاتی ہے اسے خلاف سنت قرار دیتے ہیں اور یہی خفگی کی وجہ ہے، ہندوستان کی جتنی مسجدوں میں اس وقت تک اذان سننے کا موقع ملا تھا اس میں ہر جگہ کھینچ تان کاہی طریقہ رائج تھا۔ اس لئے یہ بات عجیب وغریب لگی ہم نے حیرت کے کانوں سے سنا، اور دل پر ان کے متبع سنت کا ایک نقش قائم ہوا، حضرت کی بات عقلی اور نقلی طور بھی صحیح معلوم ہوئی۔
پھر زمانہ گزر گیا، میں دارالعلوم دیوبند چلا گیا، پھر وہاں سے لوٹ کر درس و تدریس میں لگ گیا۔ حضرت کے خدام اور خلفاء سے ملاقاتیں ہوتی رہیں ان کی شفقت و محبت سے بہرہ ور رہا خصوصا حضرت مولانا عبد المنان صاحب بانی و ناظم مدرسہ امدادیہ اشرفیہ راجو پٹی ضلع سیتا مڑھی سے بار بار ملاقات رہی، اور ان کی توجہات نے دل و دماغ میں ایک مقام بنالیا۔
غالبا 1995ء میں میرا سفر عمرہ کا ہوا، حضرت بھی مکہ المکرمہ میں مقیم تھے، اور بعد نماز عصر مجلس لگا کرتی تھی۔ کئی روز حاضری ہوئی، چپکے سے پیچھے بیٹھ جاتا، گفتگو سنتا، دل و دماغ منور ہوتے اور خاموشی سے اٹھ کر چلا آتا، کبھی اپنے کو متعارف کرنے کا خیال نہیں آیا، بزرگوں کی مجلس میں بولنے کی عادت بھی نہیں رہی، اور نہ کبھی ضرورت محسوس ہوئی، سو ہر مجلس میں چپ چپ ساہی بیٹھا رہا کبھی لب کھولنے کی نوبت نہیں آئی۔
حضرت سے آخری ملاقات ممبئی میں ہوئی تھی سلیم بھائی مرحوم اور اشفاق بھائی کی دعوت پر مکاتب کے جائزہ پروگرام میں شرکت کے لئے میری حاضری ہوئی تھی، میں ان دنوں مدرسہ احمد یہ ابا بکر پو ر ویشالی میں تھا اور وہیں سے جانا ہوا تھا۔ امارت شرعیہ کی نمائندگی مفتی سہیل احمد قاسمی کر رہے تھے، اس پورے پروگرام کا تاریخی لمحہ وہ تھا، جب حضرت مولانا وہیل چیئر پر خطاب کے لئے تشریف لائے طویل بیماری سے اٹھے تھے، اس لئے جسم پر فطری ضعف و نقاہت کا غلبہ تھا۔ اس کے باوجود آدھے گھنٹے سے زیادہ آپ نے خطاب کیا۔ قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھا اور پڑھایا جائے، اس کے وہ بڑے محرک اور داعی تھے، اسی نسبت سے تفصیلی خطاب ہوا، پوری تقریر تو یاد نہیں رہی، بس اتنا یاد ہے کہ حضرت نے بڑے سوز و کرب کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ آج مدارس والے مالی بحران کا شکوہ کرتے ہیں، میرے پاس بھی بڑی تعداد میں ایسے لوگ آتے ہیں، جب بھی میرے سامنے یہ تذکرہ آتا ہے تو معا ًیہ خیال آتا ہے کہ وہاں قرآن کریم کی تعلیم صحت کے ساتھ نہیں ہو پارہی ہے، قرآن کریم پر محنت کیا جائے اور اسے صحت کے ساتھ پڑھایا جائے، اور پڑھا جائے تو ادارہ میں مالی بحران نہیں ہوسکتا، آپ نے فرمایا کہ برسوں میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اس تجربہ کی بنیاد پر آپ کے سامنے بڑے اعتماد سے یہ کہہ رہا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا نے اسے اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا، آج نورانی قاعدہ کے ذریعہ تصحیح قرآن کی جو ملک گیر تحریک چل رہی ہے، اور جگہ جگہ مرکزی دفتر امارت شرعیہ کے ذریعہ جو کیمپ لگائے جا رہے ہیں اور جہاں کثیر تعداد میں معلمین تربیت کے لئے حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسی شمع فروزاں کی دین ہے، چراغ سے چراغ جلتے گئے، اور روشنی پھیلتی گئی، پہلے یہ حضرت مولانا کی آواز تھی، اور اب پورے ملک کے خدام قرآن کی آواز بن گئی ہے۔
مولانا کو محی السنہ کہا جاتا ہے- واقعہ یہ ہے کہ حضرت تھانوی کے مے خانہ کے اس درویش پر یہ لفظ سب سے زیادہ صادق آتا ہے، الفاظ کی معنویت صد فی صد دیکھنا ہو تو محی السنہ کی حیثیت سے حضرت کی ذات گرامی کو دیکھنا چاہئے، ہر کام میں سنت کا اس قدر اہتمام میری نگاہ میں کسی اورکے یہاں دیکھنے کو نہیں ملا۔ حضرت مولانا فطرتاً نفاست پسند تھے، یہ نفاست، لباس، وضع قطع، چال ڈھال ہی میں نہیں مسجد و مدرستہ کی تعمیرات تک میں نظر آتی ہے، وہ شعائر اسلام کو خوبصورت دیکھنا پسند کرتے تھے، علماء کی قدردانی ان کی فطرت تھی، ظاہری وضع قطع پر بھی خاصہ دھیان دیتے تھے، اصول کی شدت کیساتھ پابندی حضرت تھانوی کے یہاں سے ورثہ میں ملی تھی، پوری زندگی اسے برتتے رہے، اصول کی پابندی میں جو سہولت ہوتی ہے، اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں، جنہوں نے اس کا مزہ چکھا ہے، کچھ لوگ اس شدت پسندی پراعتراض کیا کرتے ہیں لیکن جس نے اس کا مزہ ہی نہ چکھا ہو اس کی تعریف کیا، تنقید کیا؟ حضرت شاہ صاحب کی ایک بڑی خصوصیت وقت کی پابندی تھی، کس وقت کون سا کام کرنا ہے؟ کس سے ملنا ہے اور کب ملنا ہے، سارے اوقات منضبط تھے، اس پابندی سے وقت کی حفاظت ہوتی تھی، اور اسی وجہ سے ان کے وقت میں بڑی برکت تھی، وہ تواضع اور انکساری کے پتلا تھے، ان کے تقوی کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، اور وہ مدح وذم سے بے نیاز اپنے کام میں مشغول رہتے تھے، انہیں نہ ستائش کی تمنا تھی نہ صلے کی پرواہ، انہوں نے خدا کی رضا کو اپنا مقصد بنالیا تھا اور یہ مقصد سارے امور پر حاوی ہو گیا تھا۔
بہر کیف ہر نفس کو آخر فنا ہے حضرت مولانا بھی چلے گئے، ہمارے لئے اتباع سنت، قرآن کریم صحت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے کی تحریک چھوڑ گئے، ایک اور چیز جس پر حضرت شاہ صاحب زور دیتے تھے وہ نہی عن المنکر ہے، فرماتے تھے امر بالمعروف کی تحریک تو چل پڑی ہے تبلیغی جماعت اس کام کو اچھے سے کر رہی ہے ضرورت ہے کہ نہی عن المنکر کو بھی تحریکی طور پر شروع کیا جائے، اور منکرات سے بچنے کا مزاج بنایا جائے، اللہ کرے ہم ان کاموں کی طرف توجہ دے سکیں، یہی حضرت شاہ صاحب کو بہترین خراج عقیدت ہوگا۔