Slide
Slide
Slide

تعلیمی ادارے تجارت بھی اور خدمت بھی​

تعلیمی ادارے تجارت بھی اور خدمت بھی

باتیں کم کام زیادہ یہ نعرہ ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی نے دیا تھا اور نوکر شاہی پر اس کا خاطر خواہ اثر بھی ہوا تھا۔

آج مسلمانان ہند بالخصوص ہندی بیلٹ شمالی ہند کے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں بات نہیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پرائیویٹائزیشن کے اس دور میں تعلیمی اداروں کا قیام اگر متوسط اور ادنیٰ طبقات کی قوت خرید کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جاۓ تو خدمت خلق بھی ہے اور منفعت بخش بھی۔اقلیتی اداروں کے لئے حکومت سے مالی تعاون بھی ملتا ہے ۔

تعلیم نسواں اور انگریزی تعلیم جیسے نعرے بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ اب لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں کم از کم گریجویشن تک تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور انگریزی کی تعلیم جتنی میسر ہو بچے حاصل کر رہے ہیں ‌۔ غیر دینی ماحول ، بے حیائی اور ارتداد کے امکانات کے سد باب کے لئے لڑکیوں کے لئے معیاری ہائی اسکول (2+10) اور کالجوں کا قیام میرے خیال میں دینی فریضے کا درجہ رکھتا ہے۔

ایک دوسرے کو الزام اور رد الزام سے کہیں بہتر ہے کہ ہم مناسب فیس کے ساتھ معیاری انگلش میڈیم اسکول کا جال دینی مدارس کی طرح پورے ملک میں بچھا دیں۔

دسویں جماعت تک تو لڑکیاں پڑھ لیتی ہیں انہیں مشکلات کا سامنا گیارہویں سے لے کر بی اے اور ایم اے کرنے میں ہوتا ہے۔ اس لئے غیر مخلوط کالجوں کا قیام نہایت ضروری ہے۔

ضروری نہیں ہر کام رفاہی  ہو ۔ موبائل ریچارج ہر طبقہ کے لوگ مہینے میں کم از کم تین چار سو روپے کا کراتے ہیں اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اگر وہ تعلیم کی اہمیت افادیت اور ضرورت محسوس کر لیں تو اپنے بچوں کی فیس کا نظم بھی کر سکتے ہیں۔ میں نے دیہی علاقوں میں متوسط اور ادنیٰ طبقات کے غیر مسلم بچوں کو ڈی اے وی اور ڈی پی ایس (فرنچائز) میں ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کر کے پڑھتے دیکھا۔ ان کے والدین سے بات کی تو ان کے اندر زبردست جذبہ دیکھا۔ نجی گفتگو میں ایک اور پرایویٹ اسکول کے پرنسپل صاحب نے بتایا یہ بیچارے پیٹ کاٹ کر بچوں کو پڑھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا کلکٹر بنے گا اور ہماری بیٹی ڈاکٹر۔۔۔۔۔

اس لئے تعلیم کے میدان میں انویسٹمنٹ آمدنی کا بہتر ذریعہ ہو سکتا ہے۔ صاحب استطاعت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے۔ ہوا  کے ذریعے۔Feasible study report ہوائی بات کر کے نہیں۔ 

 برادران وطن کے اعلیٰ تعلیم میں انویسٹمنٹ اور تعلیمی اداروں سے خدمت اور منفعت کے نمونے پیش کر کے مسلمانوں میں جو اصحاب ثروت ہیں ان کو راغب کیا جا سکتا ہے۔

بڑی ملی تنظیمیں جن کے پاس انویسٹمنٹ کے امکانات،  ذرائع اور وسائل ہیں وہ

 No Profit No Loss

 کی بنیاد پر یہ کام بحسن و خوبی کر سکتی ہیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: