غبار شوق : ہنرمندان سخن کا ارمغان

  • غبار شوق : ہنرمندان سخن کا ارمغان
  • مجموعہ کلام : احمد سجاد قاسمی ابن سابق مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولاناومفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی
  • تعارف وتبصرہ: عین الحق امینی قاسمی
  • اردو منزل،رحمانی نگر،خاتوپور،بیگوسرائے بہار

شعر وسخن گوئی سے عام طور پر علماء برادری کو خاصی دلچسپی نہیں رہی ہے ،وہ اردو کے پالنہار اور ادب کے کھیونہار تو ہیں ،مگر آزاد خیالی ،بے سمتی ،ظاہرپرستی،جامدعشق وعاشقی اور بے وجہ نازک احساسات کو راہ دینے کاارتکاب،ان کے بس کا روگ نہیں یا ان یاراں باصفا نے ذوق سخن کو اسٹیج آرائی کے ذریعے روٹی،کپڑا اورمکان کا ذریعہ نہیں بنایا؛مگر ذہن کے کسی حصے میں یہ بات محفوظ رہنی چاہئے کہ اشعار گوئی کو "حاصل زیست” نہ سمجھنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان نیکوکاروں نے اس طرف بالکل توجہ ہی نہیں دی،ہاں !یہ تو ہوا کہ انہوں نے خود کو ادیب وادب نوازکہلوانے کے حوالے سے” من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو "کا گروپ نہیں بنایا
؛بلکہ ہم دیکھتے کہ طبقہ علماءکی بہت سی نابغہ روزگار شخصیات نے حمدیہ و نعتیہ شاعری کے علاوہ صنف نظم و غزل کوبھی عظمتوں کا تاج بخشاہے،اسی لئے باضابطہ بھی اور بے طلب بھی اپنے فن میں فکری،تحقیقی،عشق حقیقی،اور علم و روحانیت سے بھرپور جہات کو راہ دی ہےجو نہ صرف معاصر شعراء کے ہم پلہ قادر الکلامی کا نمونہ ہے۔بلکہ استاذ شعراء کی فنی گہرائیوں سے بھی کم نہیں ہے۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ کم ہی صوفی خدامست ، عالم باعمل اور شب زندہ دار میکشوں نے شعرو سخن کی وادی پرخار میں آبلہ پائی کی جرئت وجسارت کی ہے۔ جہاں انہوں نے اردو ادب کورجال ورحال عطا کیا۔اگر چند نام سرسری طور پر پڑھ لیا جائےتوان میں بے شبہ حضرت شیخ الہند،مولانا قاسم نانوتوی،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،مولانا احمد حسن امروہوی، مولانا یعقوب نانوتوی ،مولانا فضل الرحمان عثمانی ،علامہ انور شاہ کشمیری،مولانا سید اصغر حسین دیوبندی،مولانا مناظر احسن گیلانی ،مولانا اعزاز علی امروہوی،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مفتی محمد شفیع عثمانی ،حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی،مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ،مولانا کفیل علوی اور ترانہ دارالعلوم دیوبند کے خالق مولانا ریاست علی ظفربجنوری وغیرہ کے نام ادبی دنیا کے لئے محتاج تعارف نہیں،جنہوں نے مختلف جہات میں سخن پروری کے باوجود کبھی داد وتحسین اور سپاس وشیلڈ کی دعویداری نہیں کی۔

انہیں اتقیاو اولیاء،سخن سنجوں کے تاجدار اور خاموش کاروان فکر وفن کے پرتو،خوشہ چیں،مورث وامین اورپاسبانی کرنے والی ممتاز نام وکام کی حامل شخصیت جناب احمد سجاد ساجد قاسمی بھی ہیں جنہوں نے اپنے مجموعہ کلام کو ہنر مندان سخن کے لئے "غبار شوق” کاخوبصورت تحفہ عنایت کیا ہے۔
احمد سجاد پیشے سے استاذ رہے ہیں جب کہ طبیعت سے شاعر ہیں، رومی،حافظ،اور غالب و اقبال سمیت کبیر ،دنکر اور نرالاجیسے ہندی شاعروں سے بھی انہیں لگاؤ ہے ،وہ دینی اداروں میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور عصری اداروں کے فیض یافتہ ہیں،انہیں بزرگوں سے ڈوب کرعقیدت بھی ہے اور خوردوں سے محبت وشفقت بھی،وہ قدیم مزاج وذہن کے پیروکار تو ہیں ،مگر جدید فکر وفن سے نا آشنا بھی نہیں،انہیں حکمت وطبابت بھی آتی ہےاور ملک وقوم کی نبض شناسی بھی وہ بھلے سے کرلیتے ہیں،یعنی وہ کس سانچے میں ڈھلے ہیں!اگرالفاظ کی مدد لی جائے تو یوں کہئے!

"جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں ”

اجلاچہرہ ،بلندقامت ،سنجیدہ مذاق ومزاج ،تاباں علم وفن، قابل رشک تواضع وسادگی،لائق طلب خلق وخط اورمیانہ رفتار وگفتارمیں طرز کہن کے حامی ہونے کے ساتھ ہی وہ نہ صرف نظم و غزل کےشاعرہیں،بلکہ "دیدہ عبرت نگاہ” کی بات یہ ہے کہ وہ نثر میں بھی شاعری کرنے کا ہنر رکھتے ہیں.
ابھی گزشتہ چند برسوں میں جو انہوں نے "بات پرانی ” کے عنوان سے مستقل خامہ فرسائی کی ہے تو ان کے گرد نثری شاعری پر ہم پروانہ وارجمع ہوگئے اوریوں ہم خوردوں کی سمجھ میں بات آئی کہ وہ ہمارےمقبول ترین نثر نگار بھی ہیں ،جب کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی عدد کتابیں اور مضامین ومقالات کے مرتب،مؤلف اورجامع کی حیثیت سے اپنی حیثیت منوا چکے ہیں۔ان کے اندر کا کمال کہئے کہ وہ فراغت کے بعد اپنے تدریسی تقاضوں کی وجہ سےکم وبیش چالیس سال غیر اسلامی ماحول میں رہے ہیں،مگراس کے باوجود ان کا خمیر فکر وفن، میلا نہیں ہوا اور نہ اس پر اوس پڑا!

احمد سجاد اپنے شعری سفر کی روداد” قصہ میری شاعری کا ” بیان کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
” ہمارے بعض دوستوں میں شعر و سخن کا خاصہ ذوق تھا، میں نے بھی غزلیں کہنی شروع کر دیں، اور 1970ء میں تقریبا دس بارہ غزلیں کہیں ، ضیا نعمانی صاحب سے اصلاح لینے لگا۔ انھیں دنوں میرے ایک دوست نے ابا جان کے پاس ایک خط لکھا اور بغیر میرا نام لیے ایک سوال پوچھ لیا کہ طالب علمی کے زمانہ میں شعر و شاعری کرنا کیسا ہے؟ ابا جان نے جواب لکھا: شعر گوئی سے طالب علم کی یکسوئی زائل ہو جاتی ہے اور اصل مقصد ( درسیات کی تکمیل ) میں خلل آتا ہے، پھر شعر و شاعری کی بہ نسبت نثر کے ذریعہ خدمت علم و دین زیادہ انجام پائی ہے۔میرے دوست نے ابا جان کا وہ خط دکھایا، تو میں نے شعر گوئی ترک کر دی۔”
31 مارچ 2011ء کو ابا جان نے دنیائے فانی سے رختِ سفر باندھا، یہ حادثہ میرے لئے سب سے اہم تھا، میں نے محسوس کیا کہ ایک پل نے میری طفلی کی بے فکری کوختم کر کے بوڑھاپے کا اضمحلال مجھ پر طاری کر دیا۔ ابا جان کا مرثیہ "نیر تاباں ڈوب گیا "لکھا اور ایک ایک مصرعہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ لکھا ، میں سمجھتا ہوں یہی میری شاعری کا آغاز ہے”(غبار شوق,ص: 21تا26/)

غبار شوقع کا یہ ایڈیشن جو میرے ہاتھ میں ہے،فرید بکڈپودہلی سے شائع ہوئی ہے،پوری کتاب 205 صفحات پر مشتمل ہے،جس میں حمد و نعت کے علاوہ23/نظمیں۔57/غزلیں،19/ رباعیات اور 33/ قطعات اس مجموعہ کلام میں شامل ہیں۔کتاب کا انتساب مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانامفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی کی طرف ہے۔

کتاب پرخوبصورت پیش لفظ لکھ کرڈاکٹر ابوبکر عباد صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی نے موتی رولنےکا کام کیا ہے۔انہوں نےایک مجاہد آزادی اور علم پرور باپ کے برخوردار سپوت ہونے کا حق اداکرتے ہوئےنہ صرف شاعر وشاعری کے تاریخی نظریات وصفحات کو سامنے لادیا یے،بلکہ اپنے حسن قلم اورذوق سخن سے "غبار شوق” کو بھی دوبالا کیا ہے ۔موصوف ڈاکٹر ابو بکر عبادلکھتے ہیں:
” یوں تو انھوں نے نظمیں لکھیں ، غزلیں کہیں، شخصی مرثیے ، حمد و نعت اور مثنوی لکھیں ، منظوم خطوط لکھے اور تاریخ نگاری بھی کی لیکن ان کا رنگ نظموں میں نکھرتا اور ان سے کہیں زیادہ غزل کی شاعری میں کھلتا ہے۔بیشتر نظمیں انھوں نے شخصیات، مقامات اور حادثات کے حوالے سے لکھی ہیں۔ ایک دو کے علاوہ پوری نظمیہ شاعری یادوں کے دھنگ رنگ میں شرابور ہے ۔ خوابوں کی مانند بیتے خوشگوار لمحات ، دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے حسین اوقات، مقدس ہستیوں کی معیت میں گزرے روحانی ساعات اور رومانیت کی دھند میں ڈوبے ہوئے وہ مقامات جن سے شاعر کو گہرا جذباتی لگاؤ ہے۔
سجاد صاحب نے اپنی پوری غزلیہ شاعری میں شروعاتی جھجک اور تکلف کو نہ صرف بالائے طاق رکھ دیا ہے بلکہ اس تکلف اور جھجک کے محرکات یعنی مذہبی علم اور نظامی، تعلیم سے حاصل کی ہوئی لفظیات، خیالات، اصطلاحات اور روایات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی اور ہنر مندی سے استعمال بھی کیا ہے۔ عشق ، سیاست، تصوف اور تصورات پر انھوں نے عمدہ شاعری کی ہے۔ ان کی غزلوں میں کلاسک کی خوشبو بھی ہے اور جدیدیت کا رنگ بھی۔ انھوں نے پرانی باتوں کونیا طرز دیا ہے، اور نئی باتوں کو سلیقے سے شاعری کا حصہ بھی بنایا ہے۔(غبار شوق،ص:13تا16)

احمد سجاد کےکلام میں استعارے ،کنائے ،تشبیہ ،ندرت،جدت اور لف و نشروغیرہ جیسی خوبئ سخن اپنی تمام ترجمالیاتی فکرکے رچاؤ کے ساتھ آپ کو مل جائیں گی ،ان کے کلام میں جذبات،درد، الم،اشک،فکر،غم ،ندرت،جمالیات،اضطراب ،بے قراری،ذکاوت، حس اور ذہانت،جیسی جہتیں جابہ جا سخن آرائی کرتی ہوئی نظر آئیں گی ۔انہوں نے غالب ،اصغر،جگر،فانی اور حسرت موہانی جیسے عظیم شعراء کی زمینوں پر اشعار کہنے کی کامیاب کوشش کی ہے،بہ طور نمونہ کلام پیش ہیں موصوف کی نظمیہ وغزلیہ شاعری کے چند اشعار:جب جامعہ رحمانی کے حوالے سے گویا ہوئے تو عرض کیا:

یہ علم وہنر ،رشد وہدایت کا ہے مرکز
اخلاق جلیلہ کی محبت کا ہے مرکز
امت کو کبھی جب بھی کہیں چوٹ لگی ہے
اول یہیں تکلیف بھی محسوس ہوئی ہے

اسی طرح جب وہ شہر مئوگئے ہیں تو ماضی کی پوری داستان مانو سامنے ہو ،فرط محبت میں وہ بے ساختہ کہہ اٹھے

السلام اے کعبہ دل اور فردوس نگاہ
اے مئو اے علم وفن،قلب ونظر کی جلوہ گاہ
تیرے اندر دفن ہیں علم وہنر کے تاجدار
گوہر نایاب کتنے علم وفن کے راز دار

اور جب غزل کی طرف رخ کیا ہے تو ان کی زبان سےجوشعر ذوق سخن کی لب بوسی کے لئے موزوں ہوا وہ تھا:

بے تکلف کہہ رہاہوں میں بانداز غزل
بات جوکچھ بھی مرے دل کے نہاں خانے میں ہے

اسی طرح انہوں نے اپنے مخاطب سے کیا پرکیف وپرلطف بذلہ سنجی کی ہے:

آزمائش کی بھی کوئی حد ہے
تم بلا تے ہو اور نہ آ تے ہو
دعوا کرتے ہو عشق کا ساجد
حرف شکوہ زباں پہ لاتے ہو

معاشرے میں انداز زیست کی کیفیت کو جب انہوں نے آئینہ دیکھایا تب وہ یوں گویا ہوئے:

وفا کا مٹ گیا نام ونشاں زمانے سے
کوئی ملا نہیں اب تک وفا شعار مجھے
تمام عمر جو مجھ کو فریب دیتا رہا
اسی کے وعدے پر اب بھی ہے اعتبار مجھے

اسی طرح انسانی دلوں میں جب انہوں نے جھانکا تو جو کچھ بھی دیکھا،بس کہہ دیا:

لوگوں میں یہ جو نخوت وکبر وغرور ہے
بل ہے نگاہ میں مگر رسی تو جل گئی

ساجد خدا کا شکر ہے کہ کینے سے پاک ہوں
جو بات دل میں آئی ،وہ فورآ نکل گئی

محبت وجدائی کا لمحہ بھی کیا ہوتا ہے ،حد تو تب ہوجاتی ہے جب سب کچھ لٹ جانے کے باوجود بھی،نہ صرف دل وہیں اٹکا رہتا ہے،بلکہ کرب والم سہہ کر بھی یاد جب جب آتی ہے تو خون آنکھوں سے بہہ پڑتا ہے۔احمدسجاد نے اس پس منظر لفظوں کو کتنی خوبصورت زبان عطا کرنے کوشش کی ہے:

جان چھڑکنے والے یاروں سے بچھڑے یگ بیت گئے
یاد جب آجاتی ہے ان کی خوں آنکھوں سے بہتا ہے

دیدہ دلیری اس کی دیکھو جس نے مجھے برباد کیا
میرے ہی دل میں بستا ہے، آنکھوں میں وہ رہتا ہے

ساجد عالی ظرف ہے یارو حوصلہ اس کا دیکھو تو
کیسے کیسے رنج والم کو کتنی خوشی سے سہتا ہے

بہر کیف ! غبار شوق ایک قیمتی مجموعہ کلام ہے،جس میں الفاظ کی رعنائی بھی ہےاورمعانی کی پنہائی بھی ،یہ مجموعہ صرف عطرمجموعہ نہیں ،بلکہ اس میں زندگانی کے وہ اسباق بھی موجزن ہیں جس سے طول طویل حیات مستعار کا دورانیہ،جگمگاتا بھی ہے،مرجھائے ہوئے کو سمت و رفتار بھی عطا کرتا ہے اور فکر ونظر کوصیقل بھی کرتا ہے۔اہل علم کو غبار شوق ضرور پڑھنا چاہئے،واہیات وبے سمتی سے محفوظ قابل قدر یہ شعری مجموعہ نہ صرف مطالعہ میں رہنا چاہئے،بلکہ ہر سرہانے میں ہونا چاہئے تاکہ ہم صاحب کلام کو یہ اطمینان دلاسکیں:

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔