لیدرکاروبار،ایک بابرکت پیشہ

مفتی محمداشرف قاسمی

مہدپور،اُجین،ایم پی

قسط وار تحریر سے انتخاب:

پوکرن قلعہ کے گیٹ پرلیدر کی تمام دکانیں شایدغیر اہلِ ایمان کی تھیں۔اس لیے اس موقع پرلیدر کے سلسلے میں ہم مسلمانوں کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ لیدریاکھال ایک ایسامفید مال ہے جس کی افادیت کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ حتی کہ کھالوں کے ساتھ جانوروں کے بالوں کی افادیت کوبھی قرآن میں بیان کیاگیا ہے(سورہ نحل آیت 80/)اوراس آیت سے قبل پرندوں کابیان ہے۔ عام جانوروں کی کھالوں اور بالوں(روئین،اون اور بال)کے تذکرہ سے قبل پرندوں کے ذکرمیں پرندوں کے بال بھی داخل ہوسکتے ہیں ۔میں نے آج تک کسی مسلمان کونہیں دیکھا جوجانوروں کے بالوں کوقابلِ استفادہ بنانے کی فکرکرتاہو۔کچھ سالوں قبل ایک صاحب نے بندہ سے پوچھا کی:
’’خنزیر کے بالوں سے ٹوٹ برش بنانا اورفروخت کرناکیساہے۔؟‘‘
میں نے سوال سنتے ہی چھی چھی کی آوازنکال کر اظہارِنفرت کیا۔سائل نےحیرت سے پوچھا کہ:
’’آپ ایک عالم ہوکراس بال سے ایسی نفرت کااظہارکرتے ہو،جب کہ فقہ کی فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ اس کے بال کوجوتوں کی سِلائی کے لیے استعال کرناجائزہے۔‘‘
بعدمیں معلوم ہوا کہ موصوف کا کارخانہ ہے جس میں خنزیر کے بالوں سے ٹوٹ برش بنایاجاتاہے اور وہ برش کافی گراں بکتا ہے۔ پہلے وہ کارخانہ کسی محروم الایمان کے انتظام میں تھا۔نطول اورصیدلیہ میں بعض روغنی ادویہ کی کشیدکے لیے گھوڑے کے بالوں کااستعمال ماہراطباءکے یہاں مروج ہے۔جوقومیں محنت کرتی ہیں وہ اس طرح بالوں کو قابلِ استفادہ بناکر روپیہ کمارہی ہیں ۔
قربانی کی کھالوں کی فروختگی کی ممانعت اور اس سے استفادہ کےحکم میں نص وارد ہے :’’واستمتعوابجلودھاولا تبیعواھا ‘‘(مسنداحمدج ۴؍ص۱۵؍،نیل الاوطارج۵؍ص۱۹۱؍)۔
یعنی:
”قربانی کی کھالوں سے فائدہ اٹھاؤ اور اسے نہ بیچو“.
جس کامطلب یہ ہے کہ کھالوں سے فائدہ اٹھانااور اس کو کارآمدبنانے کی کوشش کرنانصِ قرآنی پر عمل اورمزاجِ شریعت کے مطابق کوشش وکسب ہے۔ یعنی کھالوں کاکام کرنا معیوب اورحقیر پیشہ نہیں ہے،بلکہ یہ ایک افضل پیشہ ہے۔حصرت قاضی اطہرمبارک پوریؒ نے لکھاہے کہ کئی ایک بڑے مشاہیرعلماء ومحدثین دباغ(چرم ساز)گذرے ہیں ۔ موصوف نے اپنی کتاب(مسلمانوں کے ہرطبقہ میں اورہرپیشہ میں علم وعلماء،ص۱۳۵؍تا۱۳۷؍ ط:شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند،۱۴۳۱ھ)میں سات ایسے بڑے علماء ومحدثین کے اسماء مع مختصرتعارف کے شمارکرائے ہیں۔اسی طرح موچی(خصاف) بھی پہلے چمڑے ہی کے جوتوں کی مرمت کیا کرتے تھے۔امام ابوبکراحمدبن عمر خصاف شیبانیؒ (وفات۲۶۱ھ)امام اعظم ابو حنیفہؒ کے تلمیذالتلامذہ ہیں، بہت سی کتابوں کےمصنف ہیں۔یہ موچی کاکام کرکے روزی کماتے تھے۔سندِحدیث میں ایک راوی خالدحذَّاء رحمہ اللہ کانام نامی آتاہے، وہ موچی کاکام تونہیں کرتے تھے،لیکن موچی کے ساتھ بکثرت اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے حذَّاء(جوتاسازیاموچی)ان کے نام کاحصہ بن گیا۔ مشہورکرکٹرعرفان پٹھان کے والدبڑودرا گجرات کی جس مسجدمیں موذن تھے ، اُس مسجدمیں کسی ایرانی عالم کے ہاتھ سے لکھاہواکافی بڑےسائزمیں قرآن کریم کانسخہ موجود ہے۔کاتب نےاس کے اوراق خودہی گھرپبنائے تھے۔ اس نسخے کودارالعلوم بڑودہ کی ذمہ داروں کی میزبانی ورہنمائی میں دارالعلوم بڑودہ کے نوادرات کے ایک کمرے میں بندہ نے دیکھا ہے۔ اس کودیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس کے اورق چمڑے کے ہیں۔یعنی ایک عالم نےاپنے گھرمیں چمڑوں پرمحنت کرکے اسےورق میں تبدیل کیاپھر اس پرقرآن کریم لکھا۔کھال کوورق میں تبدیل کرنے میں نہ اُن عالم کو ناگواری محسوس ہوئی اورنہ ہی بعد کے لوگوں کو،پھراب مسلمانوں کوکیاہوگیا ہے کہ وہ چمڑے پرکام(Works)کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں؟
اس تفصیل سے یہ بتا مقصودہے کہ ہمارے ملک میں مسلمانوں نے جو چمڑے کے کام کو معیوب سمجھ لیاہے وہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ اس لیے مسلمانوں کوچاہئے کہ ہرگھرمیں چمڑے پرکام کرناسیکھیں۔چاہے سیکھنے میں کتنی ہی کھالیں کیوں نہ خراب ہوجائیں۔کیونکہ اس طرح سیکھنے میں کم ازکم قرآن مجیدکے بیان کےمطابق چمڑے کو قابلِ استفادہ بنانے کی سعی کاثواب ضرور ملے گا۔ان شا ءاللہ
خاص طورپرجب کہ قربانی کی کھالوں سے استفادہ کاحکم ہے۔اس لیے اب اُسے بیچنے کا نظام موقوف کرکے اسے قابلِ استفادہ بنانے کی ہرمسلمان کوکوشش کرنی چاہئے ۔بالخصوص اربابِ مدارس کوچاہئے کہ اپنی نگرانی میں کچھ لوگوں کو کھالوں کوقابلِ استعمال بنانے کی تربیت دلائیں اور عیدالاضحی کے موقع پر کھالوں کو کہیں فروخت کرنے کے بجائے اپنے شہر وبستی ہی میں کھالوں سے بیگ،گرم کپڑے،کمبل، لحاف،چادر،خفین، جوتے اوربساط وغیرہ بنواکر مسلمانوں کو روزگارفراہم کریں اورکھالوں کی افادیت سے مدرسوں وملی اداروں کو سہارا دیں۔
مسلمانوں کے ذہن میں کھالوں پر کام(Works) کے تعلق سے جو منفی سوچ پیدا ہوئی وہ اسلام کے بجائے اسلام سے متصادم منووادی فکر سے پیداہوئی ہے۔ منووادی فکر یہ ہےکہ بغیر محنت کئے بیٹھ کروہ لوگ کھائیں اورعیش کریں اور عام لوگ رات ودن محنت کریں۔ محنت کرنے والوں کو باعزت معاشرے سے جدا رکھنے کے لیے الگ الگ انداز کے رسواکن ناموں سے اس فکرمیں موسوم کیاجاتاہے۔ اس سلسلہ کا ایک حصہ کھال پرکام کرکے کمانے والے بھی ہیں۔ان کی محنت سے بھرپور استفادہ کے باوجود انھیں ذلیل کرنے کے لیے’’ چمار‘‘لفظ ان کے ساتھ لگادیا گیاتاکہ اس لفظ میں ان کی تذلیل ہوتی رہے، جیسے اس وقت’’پنکچر چھاپ‘‘جملہ محنت کشوں اورحلال روزی حاصل کرنےوالوں کے لیے استعمال کیاجا رہا ہے۔
اس سے قبل بھی کھالوں کی اِفادیت پر تفصیلی وتحقیقی تحریریں لکھ چکاہوں وہ مفصل تحریریں میرےٹیلی گرام چینل پر موجود ہیں۔ گذشتہ سال(۲۵؍تا۲۷؍ستمبر) مباحثِ فقہیہ کے سیمینار(منعقدہ ادارہ فیض القرآن،ٹھکری باڑی دیناجپور،مغربی بنگال)کے لیے’’اجتماعی قربانی‘‘ عنوان کے تحت پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں کھال کی افادیت پربھی بندہ نے مضامین ضبط کیا تھا۔ اورشایدصرف بندہ کی تحریرکی وجہ سے تجاویز میں آخری تجویزکھال کی اِفادیت کے لیے طے ہوئی تھی۔ اس لیےیقین ہے کہ اربابِ مدارس اورعام مسلمان بندہ کی اس قسم کی باتوں پرضرورتوجہ فرما ئیں گے ۔
کسی کو خیال آسکتا ہے کہ یہ میں نے سفری تفصیلا ت سے غیرمربوط یہ باتیں کیوں لکھ دیں ؟لیکن قارئین یادرکھیں کہ میں اپنی اس قسم کی تحریروں میں کوئی نہ کوئی پیغام دینے کی ضرورکوشش کرتاہوں۔اس لیے اس پہلو پر یہاں چند سطورلکھ دیا.

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔