حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب کی رحلت صاعقہ اثر

از:ـ شکیل منصور القاسمی

حق تعالیٰ شانہ کا نظام اجل ابدی اور حتمی ہے، اجل کا وقت کسی کے علم میں نہیں، اور زندگی کی یہ مہلت کب تمام ہو جائے، کسی کو خبر نہیں۔ ابھی ابھی ماہِ اپریل کے اواخر میں حضرت کی والدہ ماجدہ کی وفات پر تعزیت کے سلسلے میں حضرت سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی، حضرت نے ناچیز سے مزید دعاؤں کی درخواست کی تھی۔ کس کو گمان تھا کہ ایک ماہ کی معمولی مدت میں یہ گوہرِ نایاب بھی دارِ فانی سے کوچ کر جائے گا اور قافلۂ آخرت میں شامل ہو جائے گا؟
حضرت مرحوم اخلاق و تواضع کا پیکر، سادگی و حلم کا نمونہ، اور علم و حکمت کا روشن چراغ تھے۔ ان کی خاندانی نسبت یقیناً بلند و برتر تھی، مگر ذاتی نجابت اور باطنی شرافت بھی اپنی مثال آپ تھی۔ملک کے ایک عظیم ادارہ مظاہر علوم وقف سہارنپور کے قابل سربراہ اور لائق فخر متولی تھے۔

آج جب ان کی وفات کی خبر بجلی بن کر دل پر گری، تو یکایک دل بیٹھ سا گیا، اور آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔ اولاً تو یقین نہ آیا، مگر جب رفیقِ گرامی قدر، حضرت مولانا مفتی ابو الکلام قاسمی زید مجدہ ( استاذ حدیث مظاہر علوم وقف سہارنپور) سے تصدیق ہوئی، تو دل کو کرب و الم کی گہرائیوں نے آ لیا۔

حضرت مرحوم میرے اوائلِ تعلیم کے اساتذہ میں شامل تھے۔ میں نے ان سے ترجمۂ قرآن وغیرہ پڑھا ہے ، اور ان کے والدِ گرامی، حضرت مولانا محمد اطہر حسین نور اللہ مرقدہ سے “مرقات” کا درس پایا ہے۔ یہ ایک سعادت ہے کہ باپ اور بیٹے، دونوں علمی و روحانی شخصیات سے تلمذ کا شرف مجھے حاصل رہا۔
آج ان کی جدائی ایک عظیم علمی و روحانی خسارہ ہے۔ دل غم سے نڈھال ہے اور آنکھ اشکبار۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کے درجات کو بلند کرے، اور ان کے قائم کردہ ادارے کو دن دوگنی، رات چوگنی ترقی نصیب فرمائے۔احباب حلقہ سے حضرت کے لئے خصوصی دعائوں کی گزارش ہے ۔
إنا لله وإنا إليه راجعون

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔