حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی: مشاہدات و تاثرات

تحریر : بدرالاسلام قاسمی

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

دیوبند میں مستقل اقامت ایک بہت بڑی نعمت ہے، جس کا اندازہ ہر اہل علم کو ہو سکتا ہے، اس گہوارۂ علم و ہنر اور شہ پارۂ تاریخ کی مرکزیت و مرجعیت مسلم ہے، دیوبند اور قرب و جوار کے باشندگان کو خواہ اس کا اتنا احساس نہ ہو، لیکن جوں جوں اس قصبے سے بُعد مکانی ہوتی ہے ویسے ویسے اس کی اہمیت، عظمت اور معتبریت کا اندازہ ہوتا چلا جاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے بہت سی ایسی ملکی و بیرونی عبقری شخصیات کی زیارت اور بسا اوقات استفادے کا موقع ملتا ہے جن کی ایک جھلک پانے کو لوگ تڑپتے ہیں، نگاہ شوق انھیں تلاش کرتی ہے اور عقیدت کے جذبات ان کی قدم بوسی کے لیے بے چین رہتے ہیں.

سن 2011 کی بات ہے، معلوم ہوا کہ معروف بزرگ، محبوب العلماء حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم دیوبند تشریف لا رہے ہیں، چہار جانب اس کا چرچہ ہوا اور دیوبند کی عظمت کو سمجھنے والوں نے اس خبر کو بعید از قیاس یا محض افواہ نہیں جانا. کیونکہ گزشتہ چند ہی سالوں میں اس سرزمین پر بہت سی عالمی شخصیات قدم رنجہ ہوئی تھیں، مثلاً امام حرم شیخ عبد الرحمن السدیس حفظہ اللہ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم وقفے وقفے سے تشریف لا چکے تھے جن کے استقبال میں عوام نے ان کی راہوں میں اپنی پلکیں بچھا دی تھیں. اگرچہ استقبال اور عقیدت میں ہونے والا غلو اور اس سے بسا اوقات ہونے والے مسائل بھی مہمانوں کے لیے کلفت کا سبب بنے، تاہم ایسے موقع پر اسے انگیز کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے. پیر صاحب کے بعد آیندہ ہی سال شیخ سعود الشریم بھی تشریف لائے اور یہاں ظہر کی نماز پڑھائی.

بہر حال! یہاں حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کا تذکرہ مقصود ہے، جن کی آمد 2011 میں ہوئی، راقم السطور کو اس موقع پر پہلی مرتبہ براہ راست آپ کے بیانات سننے کا موقع ملا، اگرچہ اصلاح نفس اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ان کی بہت سی کتابوں سے راقم نے استفادہ کیا تھا اور ان کی تحریروں کی اثر آفرینی کو محسوس بھی کیا تھا.
دیوبند میں آپ کی آمد ہوئی، دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تکمیلات کے طلبہ کو ان کی خدمت کی سعادت میسر آئی. امڈتی بھیڑ اور عقیدت و جذبات سے لبریز عوام کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ نظام بے حد ضروری تھا جو دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ کی جانب سے کیا گیا تھا.
یہاں ان کے متعدد بیانات ہوئے، مسجد رشید میں، دارالعلوم وقف میں، مستورات کے لیے مدنی آئی ٹی آئی میں. آگے چل کر اسی دورہ کے معروف و مقبول اور مؤثر خطبات دو جلدوں میں "خطبات ہند” نام سے شائع ہو کر مقبول ہوئے.

راقم کو آج بھی دارالعلوم وقف کے وسیع و عریض صحن میں ہونے والے اس عوامی اجلاس کا منظر یاد ہے، ان کی شیریں گفتگو، اسمائے حسنی کو پڑھنے کا ایک خاص طریقہ، اکابر دیوبند کے وہ واقعات جو آج تک ہم پڑھتے آئے تھے ان کی زبان سے جب وہی واقعات نکلے تو ہزاروں کے مجمع کو نم دیدہ کرتے چلے گئے، لہجے میں ایک خاص قسم کا اثر جو دل کو اپنی جانب کھینچتا، ہر واقعہ اور گفتگو کا بنیادی موضوع یہی کہ مخلوق کسی طرح خالق سے جڑ جائے، دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر عشق حقیقی سے اسے رونق بخشے. دعا کے وقت ہم نے مجمع کو بلا مبالغہ روتا، بلکتا اور تڑپتا دیکھا، ان کے وہ مواعظ آج بھی اہل دیوبند کو یاد ہیں. کئی لوگوں کی زندگی ان مواعظ سے بدلتی ہوئی خود میں نے دیکھی.

بیانات و خطبات اور خانقاہی سلسلے کے علاوہ ان کا قائم کردہ ادارہ ای معھد بھی بہت مقبول ہوا، دنیا بھر میں اس ادارے سے استفادہ کرنے والے مرد و خواتین موجود ہیں، بالخصوص عصری تعلیم یافتگان میں فاصلاتی تعلیم کا یہ سلسلہ بہت مؤثر اور مفید ثابت ہوا، راقم کئی ایسے افراد سے واقف ہے جن کی زندگی میں آپ سے مربوط ہونے کے بعد ہی انقلاب رونما ہوا.

آپ کی کتابوں اور بیانات میں در آنے والے بعض واقعات یا ضعیف روایات پر بعض اہل علم کو تحفظات ہو سکتے ہیں، تاہم جس شخصیت کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہو اور جس کی صدائے پُر خلوص نے لاکھوں قلوب بدلے ہوں ان کے مقام و مرتبے کے پیش نظر علمی تحقیقات اپنی جگہ، تاہم ان چند مقامات کو انگیز کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے.

آپ اگرچہ "باضابطہ” عالم دین یعنی "مولانا” نہیں تھے، تاہم آپ کی علمی، عرفانی اور اصلاحی خدمات نے انھیں عوام میں "مولانا” کے لقب سے ملقب کر دیا جیسا کہ ماضی میں مولانا عبد الماجد دریابادی، مولانا سید ابو الاعلی مودودی، مولانا ازہر شاہ قیصر وغیرہم جیسی کئی مثالیں موجود ہیں.

آپ کی تصنیفات و تالیفات اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ اگر ان پر مختصر ترین تبصرہ بھی کیا جائے تو اس کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے!

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آپ کی کچھ کتابوں پر مجھے تحقیق و تعلیق کی توفیق نصیب ہوئی، جن کے نام درج ذیل ہیں :
سورہ کہف کے فوائد (دو جلدیں)، سورہ حجرات کے فوائد، ایمان و یقین کے تقاضے، با ادب با نصیب، حیاء اور پاک دامنی، یہ تمام کتابیں مکتبہ النور دیوبند سے شائع ہو چکی ہیں، ان کے علاوہ ایک اور کتاب "تفسیری نکات” نامی ہے جس میں آخری دس سورتوں کی تفسیر ہے. آخر الذکر پر میرا کوئی کام نہیں ہے، تاہم چوں کہ یہ کتاب بھی مکتبہ النور سے شائع ہوئی ہے اس لیے اس کا ذکر یہاں مناسب سمجھا.

14 دسمبر 2025ء کو دارالعلوم وقف دیوبند میں منعقد عظیم الشان سیمینار میں یہ خبر آپ کے خلیفہ اور دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث، حضرت مولانا محمد سلمان بجنوری مدظلہ کے توسط سے پہنچی اور علماء و مشایخ کا یہ مجمع تڑپ اٹھا. انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعالیٰ آپ کی کامل مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، آپ کے شروع کردہ ہر تعلیمی و اصلاحی مشن کو آگے بڑھائے اور ہم جیسوں کو آپ کے نقش قدم پر چلائے. آمین

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔