۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

مسئلہ ارتداد: غور وفکر کے پہلو

✍ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

________________

ملک میں ہر طرف ان دنوں ارتداد کا شور ہے، پانچ چھ سال قبل بھی اس طرح کا ایک شور اٹھا تھا، بعض لوگ بڑے بڑے اعداد و شمار بیان کرنے لگے تھے اور میٹنگیں کر کے ایک مہم چلانے اور جلسے جلوس کرنے کا منصوبہ بنانے لگے تھے۔ میں نے اس وقت بھی اس طریقۂ کار کی مخالفت کی اور پھر بات آئی گئی ہو گئی تھی۔ آج کل ہر طرف شور بپا ہے، اس قضیہ کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے یہ آج کا نیا مسئلہ ہو، پہلے کبھی نہ رہا ہو اور صورت حال ایسی ہو گئی ہو کہ بس ہر دوسری بچی مرتد ہوئی جا رہی ہو اور غیر مسلموں سے شادی کر رہی ہو۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اس مسئلہ کو پیش کیا جا رہا ہے، اس سے خود ہمارے ذریعہ دشمن کا تعاون ہو رہا ہے، اس کی مہم کو ہم خود کامیاب کر رہے ہیں۔ اس سے ایک طرف اس کا کام آسان ہو رہا ہے، دوسری طرف قوم کے اندر احساس شکست جڑ پکڑ رہا ہے اور جب احساس شکست و احساس کمتری کسی قوم کے اندر پیدا ہو جائے تو پھر بربادی اس کا مقدر بن کے رہتی ہے، تیسرا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ وہ جو کسی طرح اور کسی درجہ میں مسلمان ہیں، قرآن کی تعبیر میں يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ والی جن کی صورت حال ہے، ان کے لیے ایمان سے نکلنا مزید آسان ہو رہا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کچھ تو بات ہے جو اس قدر ’’بڑی تعداد‘‘ میں لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ مبالغہ آرائی اگر موزوں اور بر محل ہو تو بلاغت کا حصہ ہوتی ہے ورنہ اس کے بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ آج کل جب سے حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کی تعبیر میں ’’مولویت‘‘ ذریعہ معاش بن گئی ہے ،تب سے عجیب صورت حال پیدا ہو گئی ہے، جو جس کام میں لگا ہوا ہے اس کو اس طرح مبالغہ کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ بس وہی اصل اور ضروری ہے، اس کے علاوہ سب عبث ہے۔ ہر کسی کو اپنے حلقہ کی وسعت، اپنی تنظیم اور اپنے کام اور اس کے ذریعہ اپنے تعلقات وسیع کرنے کی فکر ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ مقررین کا عجیب حال ہو گیا ہے، اشاعت و قبولِ اسلام کی رفتار بیان کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ آئندہ دو چار سال میں ساری دنیا مسلمان ہو جائے گی اور ارتداد پر گفتگو کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آٓئندہ چار پانچ سال میں ہندوستان میں سب مرتد ہو جائیں گے اور صورت حال یہ ہو جائے گی کہ ہندو گھروں سے عصمت مآب بچیوں کو اٹھا لے جائیں گے۔ یا للعجب!

خوب یاد رکھنا چاہیے کہ ارتداد کا مسئلہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جب لوگ مرتد نہ ہوئے ہوں، اسبابِ ارتداد اور اسلام کو خیر باد کہنے کے طریقے مختلف رہے ہیں۔ رسول اللہ ﷺکے دنیا سے جاتے ہی ایک بڑی تعداد نے ارتداد کا اعلان کیا اور پھر حضرت صدیق اکبرؓ نے ان سے جنگ کی، وہاں بھی اسباب مختلف تھے، صحابہ کے مد مقابل لشکر میں مرتدوں کے ساتھ لڑنے والے مختلف اسباب کی بنا پر جمع ہوئے تھے، یہاں ان اسباب کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔ بعد کے ادوار میں بلکہ اس دور میں جب اسلام دنیا کی یک قطبی طاقت تھا تب بھی یہ مسئلہ موجود رہا ، گرچہ اسباب مختلف رہے۔ بات یہ ہے کہ جس کے سینے کو ہی اللہ تنگ کر دے اس کا کیا علاج؟! ایسے سنگ اور تنگ دلوں کی تباہی کا تو قرآن نے خوداعلان کیا ہے۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَعَلَىٰ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ
أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔ (سورۃ الزمر: ۲۲)
(کیا جس شخص کا سینہ اللہ نے کشادہ کر دیا ہو۔ اس کا دل اسلام کو قبول کرنے کے لیے اور نبی ﷺ کے طریقے کی اتباع کرنے کے لیے کھل گیا ہو اور جس کو اللہ کی طرف سے نورِ بصیرت عطا کیا گیا ہو۔ وہ اپنے رب کے راستے پر چلتا ہو اور اسی پر عمل کرتا ہو، باطل کو پہچانتا ہو اور اس سے دور رہتا ہو تو یہ اس شخص کی طرح نہیں ہو سکتا جس کا دل سخت ہو۔ ایسا ہدایت یافتہ جس کا سینہ کھول دیا گیا ہو اور جس کا دل نیکی اور رشد و ہدایت سے معمور ہو، ایسا شخص اس گمراہ، منحرف اور گمراہیوں میں بھٹکنے والے کے برابر نہیں ہو سکتا، جس کا دل سخت ہو۔ اللہ کی یاد غافل ہو اور اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتا ہو۔ ایسے شخص کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ اس قسم کے لوگ ہدایت سے دور ہوتے ہیں ، انھیں کسی خیر کی توفیق نہیں ملتی۔)

اور بہت سے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا حال کچھ اس طرح ہوتا ہے!
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ (سورۃ الحج: ۱۱)
(بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسلام تو قبول کرتے ہیں، مگر شک و تذبذب میں پڑے رہتے ہیں۔ ان کو اپنے دین پر پختہ یقین نہیں ہوتا۔ وہ اپنے تر د و تذبذب کی وجہ سے اس طرح کنارے پر کھڑے ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسے کوئی دیوار کے کنارے پر کھڑا ہو۔ ایسے لوگوں کا دین دنیا کی منفعتوں کے تابع ہوتا ہے۔ اگر انھیں عافیت، دنیا کی دولت اور مال و اولاد حاصل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر جمے رہتے ہیں اور اگر کسی مصیبت میں پڑ جائیں، کوئی پریشانی آجائے، فقر میں مبتلا ہو جائیں تو اسلام سے بدشگونی لیتے ہیں اور منہ کے بل کفر میں واپس چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اس عمل سے اپنی دنیا و آخرت دونوں ہی تباہ کر دیتے ہیں؛ کیونکہ ان کے مرتد ہونے (اسلام سے پھر جانے ) سے ان کی مصیبت ختم نہیں ہوتی اور آخرت میں ان کا انجامم و ٹھکانہ جہنم ہوگی۔یہ آخری درجہ کی رسوائی اور انتہائی گھاٹا ہے۔)
در اصل سب سے بدترین حال مذبذب لوگوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ بہر حال دوہرے خسارے میں ہوتے ہیں۔ یہاں ان ہی لوگوں کو خطاب ہے،جو اسلام تو لائے لیکن ان کا اسلام حلق سے نیچے نہیں اترا۔ وہ دین کے دائرے میں داخل تو ہوئے مگر کنارے پر ہی کھڑے رہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی شخص کسی فوج میں شامل ہو مگر بالکل پیچھے اور کنارے رہے کہ موقع ملتے ہی کھسک لے اور کسی کو ہوا تک نہ لگے۔ ایسے پریشاں خیالوں کی دینداری و نیادی منفعتوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ دنیاملتی رہے تو یہ اسلام کے بندھن میں بندھے رہتے ہیں اور آزمائش کا دور چلے تو یہ چپکے سے سٹک لیتے ہیں۔ ان کا حال بڑا قابل رحم اور بدترین ہوتا ہے۔ اس لیے کہ انھیں نہ ہی دنیاہی ہاتھ آتی ہے اور نہ ان کی آخرت سنورتی ہے۔ کا فرخدا اور خدا کی شریعت سے بے پروا ہو کر اپنی دنیا میں مست ہوتا ہے۔ گرچہ اس کی آخرت تباہ ہوتی ہے؛ لیکن وہ دنیا تو بناہی لیتا ہے اور مومنِ صادق کو ایمان کے سبب دنیا میں بھی اس کا حصہ ملتا ہے اور آخرت کا اکرام وانعام تو ہے ہی۔ کسی وجہ سے اگر دنیا نہ بھی ملے تو آخرت کی دائمی نعتیں تو اس کے مقدر میں ہیں ہی؛ لیکن مذ بذب و پریشاں خیال شخص نہ دنیا کاہی رہتا ہے نہ عقبی کا۔ اس کا تر دد اور اس کی دنیا طلبی اسے خدا پرستی پر آمادہ نہیں ہونے دیتی اور دنیا کی طرف جاتا ہے تو اس کے لیے جس یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ حاصل نہیں ہوتی؛ کیونکہ دل و دماغ کے کسی نہ کسی کونے میں آخرت کا رجحان موجود ہوتا ہے اور کہیں نہ کہیں اخلاقی اصول اسے روکتے ہیں، اس طرح یہ محرومِ قسمت دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

قرآن نے تو پہلے ہی ان لوگوں کی نفسیات بتا دی ہیں۔ آج کل Ex Muslim قدیم مسلمان کے نام سے جو فتنہ بپا ہے اور ان کے ذریعہ ارتداد کو ہوا دی جا رہی ہے ان میں سے ایک بڑی تعداد وہ ہے جس کی نفسیات کو اس آیت میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے جانے سے بالکل دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی طرح کے احساس کم تری میں مبتلا ہونا چاہیے۔ یہ لوگ اسلام کا کوئی نقصان کرتے ہیں نہ اللہ کو کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں، بلکہ اپنی ہی قسمت پھوڑتے ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں قرآن کے اس بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے!
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِى اللّـٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّـهُـمْ وَيُحِبُّوْنَهٝ ۙ اَذِلَّـةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِـرِيْنَۖ يُجَاهِدُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِـمٍ ۚ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ (المائدہ: ۵۴)
(اے مسلمانو! صاف سن لو کہ تم میں جو بھی اسلام سے پھرے گا اور کفر میں واپس جائے گا، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کو اس کی عبادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ اس سے بے نیاز ہے۔ اللہ ان کی جگہ پر اسلام کے لیے ان سے بہتر لوگوں کو لے آئے گا۔ جن سے وہ محبت فرمائے گا اور جن کی سر پرستی کرے گا۔ وہ بھی اللہ سے محبت کریں گے اور اسی کو اپنا کارساز بنائیں گے۔ اہل ایمان کے ساتھ ان کا رویہ تواضع ونرمی اور انکساری کا ہوگا۔ کفار کے سامنے وہ خود دار، غالب اور سخت ہوں گے۔ وہ راہ خدا میں اپنے جان و مال اور زبان و قلم کے ذریعہ جہاد کریں گے۔ ان کو کسی ملامت گر کی علامت کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ کسی مذاق اڑانے والے کی پرواہ کریں گے۔ کیوں کہ ان کا ایمان قوی ہو گا اور وہ اپنے اصولوں پر سختی سے قائم ہوں گے۔ یہ اللہ کا ان پر فضل ہوگا کہ ان کو جہاد، محبت اور مؤمنین سے گہری دوستی کی توفیق عطا فرمائے گا۔ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے جس کی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے۔ اس کے خیر کوکوئی روک نہیں سکتا۔ اللہ تعالی بڑے علم والا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون فضل واحسان کا مستحق ہے اور کون نہیں۔)

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ارتداد ایک الگ مسئلہ ہے اور بین مذاہب شادی ایک الگ مسئلہ، قرآن مجید نے ایک مسلمان کو نکاح کے متعلق جو ہدایات دی ہیں ان ہی سے یہ بات ظاہر ہے کہ بین مذاہب شادی معاشرہ کا ایک مسئلہ تھا اور ہے، جس پر قرآن نے اسی وقت قدغن لگائی اور صراحت سے یہ اعلان کر دیا کہ ایک مؤمن مرد اور عورت کا نکاح کسی مشرک و کافر سے نہیں ہو سکتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم شور و غوغا اور ہنگامہ آرائی اور جلسہ و جلوس تو پسند کرتے ہیں، لیکن ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کے لیے کسی مسئلہ پر غور و فکر نہیں کرتے۔ ذرا پیچھے لوٹ جائیے، زمیں داری کے زمانے کی تحقیق کیجیے تو شاید ہی کچھ خاندان ملیں جہاں دوسرے مذاہب کی عورتیں نہ آئی ہوں بلکہ کتنے قصے یوں مشہور ہیں کہ خواتین بٹھا لی جاتی تھیں بعد میں مسلمان ہوئی تھیں اور نکاح ہوتا تھا، یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم بھی جانتے ہیں اور ہمارے جیسے کتنے ہی لوگ جانتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ہر بات کہنے اور بیان کرنے کی نہیں ہوتی۔ یہ جو کچھ ہوتا تھا اس کی وجہ صرف سماج میں حاصل سیاسی، سماجی اور معاشی برتری کے سوا کچھ اور نہ تھی۔

ارتداد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ غور کیجیے تو ہماری اکثریت فکری و ذہنی ارتداد کا شکار نظر آئے گی، جس کو آپ الحاد کی ایک قسم سمجھ سکتے ہیں، مگر یہی چیز رفتہ رفتہ دین برحق کو خیر باد کہنے کی تمہید بن جاتی ہے، اس کی ابتدا بالعموم اسلام کی حقانیت، قرآن کی حقانیت، حدیث کی صحت و حقانیت میں شک پیدا ہونے سے ہوتی ہے، اسلامی احکامات پر، عبادات پر، نظام سیاست و جہاد پر اعتراضات کرنے سے ہوتی ہے، نظام نکاح و طلاق، پردہ اور مرد و عروت کی فطری و طبعی حیثیت میں فرق پر اعتراضات سے ہوتی ہے، مسلمانوں کی بد اعمالیاں اور معاشرے کی نا ہمواریاں، مذہبی طبقہ کی اخلاقی درشتگی اور داعیانہ مزاج کا فقدان، ان کے دین بے زار ہونے میں مدد کرتا ہے پھر اکثریت نام کی مسلمان رہتی ہے، جب کہ ایک تعداد رفتہ رفتہ دین سے نکل جاتی ہے، یہ معاشرے کے عمومی صورت حال ہے، جس کا مشاہدہ ہر مجلس میں اور ہر جگہ کیا جا سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کے اسباب پر غور کیا؟ کیا ہمارے پاس اس کے تدارک کا کوئی انتظام ہے؟ کیا ہم جس طرح تکفیر و الحاد کے فتوے دینے کا انتظام رکھتے ہیں، اسی طرح کا کوئی انتظام الحاد سے بچانے اور ان کے سوالات کا جواب دینے اور انھیں مطمئن کرنے کا ہمارے پاس کوئی انتظام ہے؟ یہاں ہم موضوع کی مناسبت سے مولانا دریابادیؒ کے سلسلے میں وہ بات نقل کرنا مناسب سمجھتے ہیں جو ان کے نواسے پروفیسر عبد الرحیم قدوائی نے ان کے حالات و کوائف پر اپنی انگریزی کتاب میں لکھا ہے۔ انگریزی سے اس کا ترجمہ’’دل جو تھا ظلمت کدہ ماہ منور ہو گیا‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ میں نے اس پر تبصرہ کیا تھا، اس تبصرہ کا یہ اقتباس پڑھیے:
’’ مصنف نے بڑی صفائی اور وضاحت کے ساتھ مولانا کی زندگی کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے جس کا تعلق ارتدادوالحاد،راہ حق کی جستجو نے اوربالآخر رجوع إلی الاسلام سے ہے، اس بحث میں ان اسباب و عوامل کا تذکرہ سب سے اہم ہے جو الحاد و ارتداد کا سبب بنے اور وہ اسباب جو پھر اسلام کی طرف واپسی اور صرف واپسی ہی نہیں بلکہ دفاع و اشاعت اسلام کی خاطر زندگی وقف کر دینے کا سبب بنے، واقعہ یہ ہے کہ ہدایت و ضلال کے لیے اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ کون کس گھر اور خاندان سے تعلق رکھتا ہے، مولانا دریا بادی علماء و صلحاء کے ایک اچھے، بااثر، دین دار اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن الحاد کی گود میں جا گرے اور۱۲؍سال کے طویل عرصے تک اسی دلدل میں پھنسے رہے، مصنف نے اس موقع پر بڑی صاف گوئی سے کام لیا ہے اور واضح کیا ہے کہ نا پختہ ذہن جب آزاد مطالعہ کرتا ہے تو اس طرح کے اثرات مرتب ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، بالخصوص جب مستشرقین کا تیار کردہ لٹریچر پڑھا جائے، جس کی بنیاد ہی پروپیگنڈہ پر ہے، جو منصوبہ بندی کے ساتھ تشکیک کی مہم برپا کرنے کے لیے، اسلامی نظام پر اعتماد متزلزل کرنے کے لیے، اسلامی تعلیمات کو غیر فطری قرار دینے کے لیے اور اسلام کی برگزیدہ شخصیات کی تذلیل و توہین کے لیے تیار کیا گیا ہے ، جس کے ذریعہ اسلام کی حقانیت، نبی اسلام کی صداقت اور کتاب اسلام کے اعجاز پر سوالیہ نشان لگائے گئے ہیں۔ آج کے عہد میں بھی اس کے نمونے اس طور پر نظر آتے ہیں کہ جب ناپختہ ذہن ان مسلم مصنفین کی تحریروں کا آزادانہ مطالعہ کرتے ہیں جنھوں نے اپنی تحریر و تحقیق کی بنیاد بدونِ اظہار مستشرقین کے ملغوبے پر رکھی ہے تو ان میں فکری اضطراب اور اسلام کے سرمایہ کے تئیں منفیت پروان چڑھتی ہے ۔ مصنف نے بڑی اہم بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ تو ایک سبب تھا کہ گھر میں کسی کو ایسی امید نہیں تھی اور کسی کو یہ خبر بھی نہ تھی کہ مولانا دریابادی کے ذہن میں کون سا طوفان برپا ہے، وہ آزاد مطالعہ کرتے جا رہے تھے اور مستشرقین کے پر فریب جال (جسے لوگ منطقی استدلال کہتے ہیں) میں پھنستے جا رہے تھے، ان کے ذہن میں نئے نئے سوالات پیدا ہو رہے تھے اور ان کے گھر، خاندان یا کالج میں کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا یا مطمئن کرنے والا نہ تھا، اس ضمن میں مصنف کے یہ مشورے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کی حرکات و سکنات اور فکری و مطالعاتی ارتقاء پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے، ماہرین تعلیم، اساتذہ، رہنمایان ملت اور علماء کو اس لٹریچر اور تشکیکی مہم سے مکمل واقفیت رکھنے کے ساتھ نوجوانوں سے مثبت و مضبوط تعلق رکھنے کی ضرورت ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان کے اندر حق کی جستجو ہوتی ہے، وہ تلاشِ حق میں سرگرداں ہوتا ہے خواہ کچھ دیر کے لیے بہک گیا ہو لیکن اندرون میں ایک تڑپ ہوتی ہے تو خدا کی طرف سے توفیق ارزانی ہوتی ہے، اسلام کے لیے سینہ کھول دیا جاتا ہے، ہدایت کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں، بلکہ کبھی تو ابتدا ایسی جگہ سے ہو جاتی ہے جس کا تصور بھی محال ہے، مولانا دریابادی کے معاملہ میں بھی ایسا ہی ہوا، مولانا کے اس بیان کو آپ بیتی سے مصنف نے نقل کیا ہے جس میں مولانا نے خود اعتراف کیا ہے کہ اللہ کسی کو بھی کہیں بھی راہ حق کی ہدایت دے سکتا ہے، مولانا نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے ان کے الحاد میں تزلزل اس وقت پیدا ہوا جب وہ کلکتہ کے سفر میں دو دن بنارس میں ٹہرے اور ہندوسنت و عالم بھگوان داس سے ملاقات کی، مولانا کے الفاظ ہیں کہ’’ ان کی روحانیت سے میرا الحاد کافی حد تک متزلزل ہو گیا۔ اگر میں اس عرصے میں ان سے نہ ملا ہوتا تو شاید میں طویل عرصے تک گمراہی میں گرفتار رہتا اور اپنے الحاد میں متشدد ہو جاتا ‘‘ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری ہے کہ بچپن کی تربیت اور گھر کے ماحول نیز والدین کی نیکی عمر کے کسی نہ کسی مرحلہ میں اولاد کے کام ضرور آتی ہے، مولانا دریابادی کے اندر ایک طوفان ضرور بپا ہوا اور وہ متضاد خیالات اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوئے لیکن اس پورے عرصے میں حرام اشیاء سے مجتنب رہے، بلکہ مصنف کے مطابق کبھی کبھی وہ غیر ارادی طور پر بحالت الحاد بھی اسلام کا دفاع کرتے رہے، اس سلسلہ میں ص ۴۴؍پر ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا گیا ہے…….۔۔۔۔۔۔۔آخری باب مولانا کا مقصد اور پیغام سے معنون ہے، بالفاظ دیگر یہ باب خلاصہ بحث ہے، اس باب میں مصنف کی جولانی فکر و قلم، اسلامی حمیت، فکری سلامتی و صلابت کے نمونے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان کے شعور و آگہی کا احساس بھی ہوتا ہے، چونکہ وہ خود قرآنیات سے شغف رکھنے کے ساتھ انگریزی لٹریچر کے پروفیسر رہے ہیں، مغربی فکر و تہذیب و تاریخ اور استشراق ان کے مطالعہ کے موضوعات رہے ہیں، اس لیے اس باب میں انہوں نے مولانا کی زندگی سے نتائج اخذ کرتے ہوئے مستقبل کے خطرات اور حال کے چیلنجز سے آگاہ کیا ہے، مصنف کے مطابق سوالات سے راہِ فرار اختیار کرنا ممکن نہیں بلکہ سوالات کا اطمینان بخش جواب دینا ضروری ہے، زمانہ کے پیدا کردہ سوالات اور چیلنجز سے واقفیت اور ان کے اطمینان بخش جواب کے بغیر کار دعوت ممکن ہی نہیں، بلکہ دعوت إلی اللہ کے لیے ضروری ہے کہ داعی ایمان مخالف رجحانات اور نئے زمانے کے شکوک و شبہات کو ملحوظ رکھے، ذہنی طور پر ان کے منطقی جواب کے لیے تیار ہو۔‘‘
اس وقت نو جوان بچوں اور بچیوں کے ارتداد اور ہندوؤں سے شادی رچانے کے جو واقعات پیش کیے جا رہے ہیں (جتنے پیش آ رہے ہیں اس سے زیادہ ہم اس کی تشہیر کر رہے ہیں) ان کے اسباب پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہماری ناقص سمجھ میں یہ باتیں قابلِ غور ہیں:
* گھروں میں دین بے زاری کا ماحول اور دین کی بنیادی اور اہم تعلیمات سے نا واقفیت۔ *توحید کی اہمیت و حساسیت اور ایمان کی نعمت اور قدر و قیمت سے عدم شناسائی۔
* شرک کے بودے پن، اس کی شناعت و ہلاکت سے نا واقفیت۔
* مخلوط تعلیم اور گھروں سے لے کر اسکولوں تک، نا محرم رشتہ داروں سے لے کر اجنبی لوگوں تک بلا حدود و قیود اختلاط۔
* غیر مسلموں کی سیاسی، سماجی اور معاشی برتری جو بظاہر ان کی تہذیبی برتری کا سبب بن جاتی ہے۔
* اپنی شخصیت، اپنے کردار، اپنی تاریخ، اپنے مذہب سے نا واقفیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساس کمتری۔

اگر ان سب کو مختصر کر کے پیش کرنا ہو تو یوں کہا جائے کہ ناقص مسلمانوں کی دین سے نا واقفیت اور ان کی بے اعتمادی ایک بنیادی سبب ہے، جب کہ دوسرا بنیادی سبب بلا حدود اختلاط ہے اور تیسرا بنیادی سبب دیگر مذاہب کے لوگوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی برتری ہے۔ضمناً اور بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں جن کو اسباب و عوامل کے درجہ میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن وہ سب ان ہی بنیادی اسباب کے ضمن میں آتی ہیں۔بالعموم ہوتا یہ ہے کہ ابتدا کہاں سے ہوتی ہے؟ اسباب کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ اس پر ہم غور نہیں کرتے، قدغن کیسے لگائی جائے؟ سدِ باب کیسے کیا جائے؟ اس پر نہیں سوچتے، البتہ جب بات انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور واقعہ رو نما ہو جاتا ہے تب ماتم کرتے ہیں، واویلا مچاتے ہیں اور لعنت ملامت کرتے ہیں، پوری ملت کو نہ صرف کٹہرے میں کھڑی کر دیتے ہیں بلکہ خوف و ہراس میں بھی مبتلا کرتے ہیں اور احساس کمتری میں بھی۔

اب تو حالات و واقعات نے یہ بھی ثابت کر دیا ہےکہ ظاہری طور پر دین دار نظر آنے والا/والی ضروری نہیں کہ فکری و قلبی طور پر مسلمان ہو، ٹوپی اور برقع یا نماز بظاہر اچھے اور دین دار مسلمان ہونے کی علامت ہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اب یہ چیزیں دین کے صحیح فہم اور اپنے عقیدے پر اطمینان و اعتماد کی علامت نہیں رہیں؛ کیوں کہ جب انسان کو یہی نہ معلوم ہو کہ وہ نماز کیوں پڑھ رہا ہے، کیسے پڑھ رہا ہے، کیا پڑھ رہا ہے، نماز پڑھ کے بھی وہ معاملات میں دھاندلی سے باز نہ رہتا ہو، جھوٹ فریب، حرام خوری اور حرام کاری سے اجتناب نہ کرتا ہو تو صاف مطلب ہے کہ دین کی شکل تو ہے لیکن دین کا فہم نہیں اور دین دل میں داخل ہوا ہی نہیں۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ بنیادی دینی تعلیم کا مضبوط انتظام کیا جائے، جو صرف رسمیات سے واقف نہ کرائے بلکہ دین کی حقیقت سے آشنا کرےاور بچپن میں ہی دین کو قلب و ذہن میں راسخ کر دے، اس پر اعتماد پیدا کر دے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اگر دین کی بنیادی تعلیم اور دین کے فہم سے کوئی نا آشنا ہے تو پھر وہ سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ ہمارے ملک کی معاشرتی و تہذیبی ساخت و نوعیت اور فضا ایسی شرک آمیز ہے کہ پھر رسمیں اور اس کے مشرک پڑوسی کے بود و باش میں کوئی فرق باقی نہیں رہ سکتا، اب تو ہر ہر جگہ شرک کے مظاہر اور مشرکانہ ناموں کو واضح کرنے کی ایسی مہم ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی شرک کی شناعت دل سے نکل جائے، اس کے لیے ضروری ہےکہ گھر کے ماحول کو اسلامی ماحول میں ڈھالا جائے، اسلامی تہذیب اور اسلامی رویّے اپنائے جائیں۔ گھر میں توحید کا چرچا ہو، شرک سے نفرت پر گفتگو ہو، قرآنی آیات اور نبوی آیات کے ذریعہ توحید سے محبت اور شرک سے بے زاری پیدا کی جائے، اپنی تہذیب، اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کی خصوصیات، برتری، شفافیت، حقانیت، عقلیت اور اپنے ماضی کا اس طرح تذکرہ کیا جائے کہ اس پر اعتماد بحال ہو۔ ہر بات اور ہر کام میں اللہ کے خوف، نبیﷺ سے محبت اور اسلام کے عادلانہ و شفاف نظام کا حوالہ ہو، شرک کے بودے پن، کفر کی احمقانہ روش اور بے عقلی پر گفتگو ہو۔

ماحول اور تعلیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات اور سوالات کے اطمینان بخش جوابات کے لیے علماء تیاری کریں۔ مفتیانہ تیور کے بجائے داعیانہ کردار اپنائیں۔ قصے کہانیاں سنانے کے بجائے قرآن و سنت و سیرت کو مستند انداز میں موضوع بنائیں اور اپنے امکان بھر کوشش کر کے معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں۔

غور کریں تو حیا باختگی اور بے پردگی کی ابتدا گھروں سے ہوتی ہے، ہماری خواتین میں کتنے فیصد ایسی ہیں جو اسلام کے نظام، پردہ کو سمجھتی ہیں یا اس کو سمجھ کر اختیار کرتی ہیں۔ کتنے فیصد ہیں جو پردے کے متعلق آیات کو پڑھتی ہیں یا جنھیں ان آیات کا مفہوم سنایا، بتایا اور سمجھایا جاتا ہے۔آخر کیا حکمت تھی قرآن کی کہ اس نے محرم و غیر محرم کی تفصیل بیان فرمائی، پردے کے تفصیلی احکامات دیئے۔کیسا فہم تھا حضرت عمرؓ کا کہ فرماتے تھے ’’اپنی عورتوں کو سورۃ نور کی تعلیم دو‘‘، کیا اختلاط کی شناعت کی ابتدا ہمارے مخلوط معاشرتی نظام سے نہیں ہوتی؟ یہ الگ بحث ہے کہ مخلوط فیملی سسٹم بہتر ہے یا علیحدہ معاشرتی نظام، گرچہ میں علیحدہ فیملی سسٹم کو ہی شریعت کے مزاج سے قریب سمجھتا ہوں۔کیا اعداد و شمار اور واقعات اس پر دلالت نہیں کرتے کہ بہت سے معاشقوں کی ابتدا اور کم از کم حیا کے رخصت ہونے کی شروعات ان رشتوں کے اختلاط سے ہوتی ہے، جو قرآن و سنت کی نظر میں غیر محرم قرار پاتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں بھائی بہن ….. وغیرہ جیسے ناموں سے معروف رشتے قرار پاتے ہیں اور پھر گھر میں آنے جانے والوں سے کس حد تک پردہ کیا جاتا ہے، لڑکی اور لڑکے کو بلوغ کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے کتنے والدین حیا کے مفہوم، پردے کے حدود، معاشرتی رویّوں، نفسانی و ہیجانی خطرات اور ایمانی حدود و قیود سے واقف کراتے ہیں، کتنے لوگ ان پہلوؤں سے نگاہ رکھتے اور توجہ دیتے ہیں، شادی کی محفلوں اور مخلوط اجتماعات میں جو تہذیبی ماتم بپا ہوتا ہے اور حسنِ بے حیا کی نمائش ہوتی ہے، اس سے کتنے ماں باپ کی پیشانی پر پسینہ آتا ہے۔ تہذیب جدید کی سڑاند کو جن لوگوں نے خوشبو سمجھ کر قبول کیا ، آج ان کا حال یہ ہے کہ خوشبو اور بدبو میں تمیز کرنے کے لیے جس سے بھی وہ محروم ہو گئے، قرآن تو صراحت کے ساتھ بیٹی، باپ، بھائی اور بہن کے مقدس رشتوں کے آداب و حدود بیان کرتا ہے اور یہاں حیا کے مفہوم سے عاری بے حیا باپ بیٹی اور بھائی بہن ایسے عریاں لباس میں ساتھ ٹہلتے اور رونقِ بازار و محفل بنتے ہیں کہ دیکھنے والا رشتوں کے تقدس کو چاہتے ہوئے بھی بھانپ نہیں پاتا۔ در حقیقت حیا کے رخصت ہونے کا عمل اس طرح شروع ہوتا ہے۔ زبانِ رسالت مآب نے تو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اگر انسان حیا سے محروم ہو جائے تو پھر جو چاہے کرے۔ انسان کے شتر بے مہار بننے سے صرف حیا ہی اس کو روک سکتی ہے۔ إذا لم تستحي فافعل ما شئت، جب دین سے نا واقفیت ہو ، گھر کے ماحول میں بے دینی و بے حیائی ہو اور حیا بھی رخصت ہو جائے تو پھر ارتداد و بین مذاہب شادی پر کیا ماتم اور کیسی واویلا!
آج کل جو واقعات پیش آ رہے ہیں، ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے، جن کا تعلق کالج و یونیورسٹی سے ہوتا ہے، یہاں بھی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم سے آپ روک نہیں سکتے، گھر کے ماحول میں صحیح دینی شعور کی پروش نہیں ہوئی، اختلاط ہیجانی کیفیت پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا ہی کرتا ہے۔ حدود و قیود کا علم پہلے سے نہیں ہوتا، توحید کی اہمیت اور شرک کی بے حیثیتی سے واقفیت نہیں، ہم وطنوں کی تہذیبی، سیاسی و سماجی برتری و خوش حالی ، بے اعتمادی میں مزید اضافہ کرتی ہے پھر اگر ان کی طرف سے ایسی کوئی مہم بھی ہو اور باقاعدہ تربیت بھی دی جا رہی ہو تو ان اسباب کے ہوتے ہوئے ایسے واقعات رونما ہونے سے کون روک سکتا ہے؟
ہم نے شذرات معارف کے صفحات میں دیکھا کہ آج سے آٹھ نو دہائیاں پیشتر علامہ سید سلیمان ندوی تعلیمِ نسواں کی خبروں پر اظہار مسرت کر رہے تھے، لیکن ساتھ ہی وہ کسی طور پر بھی ایسی تعلیم کے قائل نہ تھے جس سے تہذیب و حیا اور دین و عقیدہ سب رخصت ہو جائے، شاید یہی وجہ تھی کہ ۱۹۳۳ء میں پہلی بار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مخلوط تعلیم کی تجویز آتی ہے تو پُر زور مخالفت کرتے ہیں اور یوں مخاطب کرتے ہیں کہ ’’ہم اپنے طور طریق اور طرزِ تمدن کو خیر باد کہہ کر جن قوموں کی ریس کرنا چاہتے ہیں ، پہلے ان ہی سے پوچھنا چاہیے کہ آیا وہ اس کو اپنے تمدن کے حق میں زندگی سمجھ رہی ہیں یا موت؟‘‘ ظاہر ہے مغرب کا خاندانی نظام تباہ ہوا، اس پر اس کی غلطی واضح ہو گئی؛ مگر افسوس کہ جب اس نے رجوع اور سجدہ سہو شروع کیا تب ہم نے اس کی نقالی شروع کی۔آج جو ہنگامہ برپا ہے راقم سطور کی نظر میں اس کی بڑی وجہ دینی فہم سے عاری ہونا، گھروں میں غیر اسلامی تہذیبی رویوں کا راج اور مخلوط تعلیم ہے۔پھر سوال یہی ہے کہ آخر اگر نوے (۹۰) سال قبل ایک درویش خدا مست نے انجام سے باخبر کر دیا تھا تو اب تک ہم نے متبادل کیوں فراہم نہ کیا، قومی سطح پر ہم اس ناحیہ سے اس قدر ناکام کیوں رہے؟ ہم لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ ادارے کیوں نہ بنا سکے؟ ہم نے مغربی معاشرے کا مشاہدہ کرنے کے با وجود اپنے لیے خار کیوں چنے اور پوری قوم کو اختلاط کے جواز و عدم جواز کی بحث میں کیوں الجھایا؟ بجائے اس کے کہ دس کی جگہ بیس ادارے بناتے ۔ دس لڑکوں کے ہوتے تو دس لڑکیوں کے۔ مجبوری میں تحفظات اور پیش بندیوں اور شعوری تربیت کے ساتھ مخلوط ماحول میں تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اور کی گئی ہے۔ ہمارے سامنے با حجاب و با حیا اور مہذب خواتین کی کتنی ایسی مثالیں ہیں جو ہماری نسلوں کے لیے اپنے اپنے میدان میں آئیڈیل ہیں، لیکن یہاں مسئلہ ان مثالی کرداروں کا نہیں! مسئلہ تو اس اکثریت کا ہے جس کے کردار کے بگڑنے میں دیر نہیں لگتی، ماحول کا فساد جس کی زندگی اور دین و ایمان کو تار تار کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ سوچنا در اصل ان کے لیے ہے، تحفظات اور پیش بندی اور منصوبہ بندی ان کے لیے ضروری ہے جن کے ماحول کے سبب بگڑنے کی کوئی ضمانت نہیں۔
لکھنے کو تو ہم نے بہت کچھ لکھ دیا گرچہ اس طوالت کا بالکل ارادہ نہ تھا؛لیکن کون پڑھتا ہے اور دیوانے کی بڑ کون سنتا ہے، جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنی دنیا میں مگن ہیں اور جو بے وسائل ہیں دنیا ان ہی سے یہ سوال کرتی ہے کہ ’’آپ کیا کر رہے ہیں‘‘، پھر بھی ہم اس سوال سے گھبرا کر لکھنا اور بولنا چھوڑ نہیں سکتے۔ بقول سید صاحبؒ:
’’بہر حال جو کچھ ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا؛ تاہم ہماری چیخ پکار اگر سنگ دل کو رحم دل نہیں بنا سکتی ہے تب بھی جب تک جسم میں زندگی ہے چوٹ لگنے پر دل سے آہ! تو ایک دفعہ نکل ہی جائے گی۔‘‘

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: