پن اور آپار آئی ڈی: مدارس کے سامنے ایک نیا چیلینج

پن اور آپار آئی ڈی: مدارس کے سامنے ایک نیا چیلینج

تحریر: ابو معاذ

آج کل تعلیم کے میدان میں جو نئی اصطلاحات سننے کو مل رہی ہیں جیسے Personal Education Number (PEN) اور APAAR ID، وہ بظاہر تو نظام تعلیم کو مربوط اور ڈیجیٹل بنانے کی کوشش ہے، لیکن اس کے کچھ گہرے اثرات خاص طور پر دینی مدارس کے لیے نہایت چیلنجنگ ثابت ہو رہے ہیں۔

یہ نظام طلبہ کا ڈیٹا آدھار سے جوڑتا ہے اور ہر طالب علم کے لیے ایک منفرد شناخت نمبر جاری کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے اب ایک طالب علم بیک وقت دو اداروں (مثلاً مدرسہ اور اسکول) میں رجسٹر نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ کسی مدرسہ کے تحت رجسٹر ہو گیا تو وہ ہائی اسکول یا انٹرمیڈیٹ میں داخلہ نہیں لے سکتا۔

ماضی میں جب بڑے مدارس کی ڈگریوں کی سرکاری اداروں میں حیثیت کم ہونے لگی، تو طلبہ نے متبادل طور پر مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ اداروں سے عالم، کامل وغیرہ ڈگریاں لینا شروع کیں۔ جب مدرسہ بورڈ کی ڈگریاں بھی کمزور پڑنے لگیں، تو مدارس کے طلبہ نے ساتھ ساتھ ہائی اسکول اور انٹر کی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کر دی۔ابتدائی طور پر مدارس نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش کی، مگر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے انہوں نے ہائی اسکول و انٹر کی تعلیم کی اجازت دینا شروع کر دی۔لیکن اب PEN اور APAAR کے نافذ ہونے کے بعد یہ راستہ بھی بند ہوتا نظر آ رہا ہے۔

موجودہ صورت حال اور قانونی پیچیدگیاں

اگر کوئی مدرسہ حکومت سے منظور شدہ نہیں ہے تو اس میں پڑھنے والے بچوں کا PEN نہیں بن سکتا، جس کا مطلب ہے کہ ان بچوں کو آگے چل کر کسی بھی سرکاری یا باقاعدہ ادارے میں داخلہ نہیں مل پائے گا۔ کچھ مدارس ابتدائی یا ثانوی تک اسٹیٹ بورڈ سے منظور شدہ ہیں یا NIOS وغیرہ سے منظور ہیں۔ اسٹیٹ بورڈ سے منظور شدہ ہونے کی صورت میں آٹھویں کلاس تک تو مشکل نہیں ہے۔‌ لیکن عالمیت و فضیلت کرانے والے مدارس عالمیت و فضیلت تک کیسے اپنے بچوں کو اپنے یہاں روک پائیں گے۔ کیوں کہ ایسے مدارس اپنے یہاں درجہ آٹھ کے بعد رجسٹرڈ نہیں کرسکتے۔

ممکنہ حل

تعلیم سے متعلق main stream سے ہم ہٹ کر کچھ بھی کریں گے تو قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‌ اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے بچوں کے پاس کسی اسٹیٹ بورڈ یا نیشنل بورڈ کی مارکشیٹ ضرور ہوں۔ غیر پائیدار سہارے بنانے کے بجائے مضبوط ومستحکم بننے کی کوشش ہونی چاہیے۔

اس لیے مدارس کو کسی ریاستی یا قومی بورڈ سے دسویں اور بارہویں تک کی منظوری حاصل کرنی چاہیے تاکہ طلبہ کو ایک ہی جگہ دینی اور عصری تعلیم میسر ہو۔

اگر دسویں و بارہویں کی منظوری حاصل کرنا مشکل ہو، تو کم از کم آٹھویں جماعت تک کسی بورڈ سے منظوری ضرور حاصل کریں اور آٹھویں کے بعد طلبہ کو TC (Transfer Certificate) دے کر مشورہ دیں کہ وہ کسی منظور شدہ اسکول میں ہائی اسکول و انٹر کی تعلیم حاصل کریں اور ساتھ ساتھ مدرسہ میں غیر رسمی انداز میں تعلیم جاری رکھیں، جیسا کہ پہلے کیا جاتا تھا۔ ایسا کرنے میں ایک بات کا خیال کرنا ضروری ہے کہ مدرسہ سے نکلنے کے بعد مدرسہ کی ڈگری کا کہیں استعمال نہ کریں، ہر جگہ١٠ ویں و ١٢ ویں کی مارک شیٹ ملازمت یا داخلہ کے وقت استعمال کریں ۔

متبادل نظام کی ضرورت: (صرف ابتدائی تک دین کی تعلیم دینا کافی نہیں ہے)

نہ تو ہم دین کی تعلیم چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ١٠ ویں اور ١٢ کی مارکشیٹ چھوڑنا مناسب ہے۔‌ لھذا دین کی تعلیم دینے کے لیے سماج میں ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں طلبا ١٢ ویں تک تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ دین بھی سیکھتے رہیں۔ صرف ابتدائی تک دین کی تعلیم دینا کافی نہیں ہے۔ ایسا آپشن ہونا ضروری ہے جہاں طلبا کم سے کم بارہویں تک اپنی عصری تعلیم کے ساتھ دین سیکھ سکیں۔ مدرسہ میں جزء وقتی نظام بنایا جائے، مساجد میں انتظام ہو، بستیوں میں چند کمروں پر مشتمل اسلامی سینٹر بنے جیسے بھی ہو، جہاں ممکن ہو لیکن متبادل نظام بننا از حد ضروری ہے۔ معاشرے میں ایسے اسلامی مراکز یا ہاسٹلز قائم کرنے پر بھی غور ہو سکتا ہے جہاں طلبہ قیام کریں، وہاں ان کی دینی تعلیم و تربیت کا اچھا نظم ہو ، اور وہ کسی قریبی اسکول یا کالج سے عصری تعلیم حاصل کریں۔ یہ ماڈل مکمل اسکول قائم کرنے کی نسبت کم سرمایہ میں بن سکتا ہے۔سماج کو چاہیے کہ ایسے نظام کی تشکیل کی کوشش کریں جو موجودہ قانونی و تعلیمی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو، تاکہ نہ دین چھوٹے، نہ دنیا۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔