اقوام کا تاریخی کردار،مخصوص بیانیے سے بھرم پھیلانے کی کوشش
از: مولاناعبدالحمید نعمانی
اسلامی تہذیب و عقیدہ اور امت مسلمہ کے کردار میں ایک تاریخی تسلسل ہے، جب کہ دیگر تہذیب و عقیدہ پر تخیلات اور کہانیوں کے اثرات بہت زیادہ نظر آتے ہیں، اس تناظر میں اسلام اور امت مسلمہ اور دیگر میں افکار و اعمال کی تفہیم اور معاشرے کی تشکیل کے اسفار سے زندگی کا رشتہ قائم کرنے کے طریقوں کو الگ الگ اسالیب میں جاننے سمجھنے کی ضرورت، بہت سے لکھنے بولنے والے مختلف کو یکساں پیمانے سے افہام و تفہیم کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، حتی کہ آج کی تاریخ میں کئی سارے لوگ ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے مرکز میں آر ایس ایس کو رکھ کر دیکھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، ہندوتو اور سنگھ میں بہتر تبدیلی و اصلاح کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے، اس طرح سوچنے والوں کو ساتھ چلنے اور الگ ہوتے ہوئے دھاروں کی بہتر آگہی نہیں ہو پاتی ہے، مختلف قوموں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کا ادراک تاریخی کردار کو سمجھے بغیر نہیں ہو سکتا ہے۔
کیرن آرم سٹرانگ نے مسائل کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں اور دیگر کے متعلق جو تجزیہ کیا ہے اس سے بڑی حد تک معاملے کی تفہیم و تشکیل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، یورپ، مغرب اور بھارت میں اسلام کے متعلق بیانیے کو ایک جداگانہ رنگ و آہنگ میں اپنے زاویہ نظر سے پیش کرنے کا کام کیا جاتا رہا ہے، حالاں کہ اس سلسلے میں معروضی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر معقولیت و آزادی پر مبنی سماج کی تشکیل و تعمیر کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے، کیرن آرم سٹرانگ نے یہودیت کو اہمیت نہ دیتے ہوئے ہندو،مسلم اور عیسائی کے تناظر میں اپنی کتاب مختصر تاریخ اسلام (Islam:A Short History) میں تاریخی شعور و رویے کے حوالے سے لکھا ہے
- (1)ہندو روایت میں تاریخ کو جلد فنا ہو جانے والی غیر اہم اور غیر حقیقی تصور کرتے ہوئے رد کر دیا گیا ہے۔
- (2)ایک عیسائی کسی دیوار پر بنی شبیہ پر مراقبہ کرتا تھا،
- (3)جب کہ ایک مسلمان اپنے زمانے کے موجودہ واقعات اور ماضی کی تاریخ پر توجہ مرکوز کرتا تھا چناں چہ مسلمانوں کی خارجی تاریخ کا بیان محض ثانوی دلچسپی کا حامل نہیں ہو سکتا ہے، کیوں کہ تاریخ کو تقدس دینا اسلام کا ایک بنیادی وصف رہا ہے، ان کی مقدس کتاب قرآن نے انھیں ایک تاریخی مقصد سونپا ہے، ان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ ایسی عادلانہ برادری کی تخلیق کریں جس کے تمام افراد حتی کہ انتہائی کمزور اور بے بس لوگوں سے بھی مطلق احترام و اکرام کا برتاؤ کیا جائے،ایک ایسے معاشرے کو قائم کرنے اور اس میں جینے کا تجربہ انہیں الوہی ہستی سے آشنا کروائے گا کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہوں گے، (دیکھیں کتاب کے پیش لفظ کا صفحہ 9تا 12)
ہندو مسلم، عیسائی(اور یہودی کا بھی) ایک مخصوص انداز میں مطالعہ کر کے تاریخی تسلسل سے وابستگی کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے، کسی بھی سماج میں جہاں مسلم کمیونٹی کا وجود ہے اسے تہذیب و تاریخ کا حصہ تسلیم کرنا، انصاف و انسانیت کا تقاضا اور ایک آزاد مہذب ملک و معاشرے کی علامت ہے اس سلسلے میں بھارت کا بھی استثناء نہیں ہے، آزادی کو اعلی قدر کے طور پر اصولی لحاظ سے ایک تسلیم شدہ رجحان و رویہ مان لیا گیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کو کسی پر منحصر کر کے محکوم کے زمرے میں رکھ کر دیکھنا قطعی دھونس اور ظلم و زیادتی ہوگی، دنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمانوں کی طرف سے اکثریت یا موثر اقلیت ہونے کی حالت میں کسی فرقے کو زور زبردستی اپنے طرز فکر اور نظام حیات و روایت کا پابند بنانے کی کوشش نظر نہیں آتی ہے جب کہ دیگر فرقے اور مذاہب والے مختلف بہانے، حربے سے مسلمانوں اور اسلام کے تہذیبی و معاشرتی و عملی مظاہر پر روک لگانے کا کام کرتے نظر آتے ہیں، حجاب، اذان، قرآن سوزی، ضرورتا عام جگہوں پر عبادت(نماز) کی آزادی پر روک لگانے کی کوشش میں دیکھا جا سکتا ہے، بھارت، اسرائیل(قدس) وغیرہ میں کئی طرح کے معاملات، ماضی سے حال تک میں تسلسل کے ساتھ سامنے آتے ہیں، اس سلسلے میں ہندوتو، یہودیت، عیسائیت حتی کہ بودھ مت والے(میانمار، سری لنکا میں) بھی کئی طرح کے سوالات کی زد میں ہیں، ان سے توجہ ہٹاکر معاملے کو برعکس رنگ دینے کی کوششیں، مختلف قسم کے ایسے سوالات پیدا کرتی ہیں، جن پر ہندو، یہودی، عیسائی نمائندوں نے ابھی تک سنجیدہ توجہ نہیں دی ہے، بھارت میں ہندوتو کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر بھاگوت، کے آر ملکانی، اندریش کمار وغیرہ کا بھی اسلام اور مسلمانوں کے، ہندستانی سماج کا اہم حصہ اور معلوم تاریخ کے ابواب میں سے نمایاں باب ہونے کے باوجود جیسا کہ رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی معروف کتاب، سنسکرتی کے چار ادھیائے میں لکھا ہے، آزاد کردار اور وجود کی شناخت کو پورے طور سے تسلیم نہیں کرتے ہیں،اس طرح کے تقریبا سارے لوگ اسلام اور مسلمانوں کو ہندو روایت کا حصہ باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جناب اندریش کمار کے حالیہ ایک انٹرویو میں بھی یہی رجحان نظر آتا ہے، جب کہ وہ مسلم راشٹریہ منچ کی سرپرستی کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں، انھوں نے یک طرفہ طور سے مسلمانوں پر خود احتسابی کی ذمہ داری ڈال کر نہ تو ملک کی اکثریت سے تعلق رکھنے کا لحاظ کیا ہے اور نہ انصاف و دیانت کا کوئی بہتر ثبوت و نمونہ پیش کیا ہے، اندریش کمار، واقعہ یہ ہے کہ آر ایس ایس کے دیگر ہندوتو وادی لیڈروں سے مختلف نہیں ہیں، البتہ انہوں نے ان سے الگ جا کر یہ اہم اور قابل توجہ بات کہی ہے کہ کائنات کے خالق نے سب سے پہلا انسان بھی ہندستان کی سر زمین پر اتارا ہے، اس سے ماضی کے مسلم مولفین و محققین کے تاریخی بیان کی تصدیق اور حال کے مولانا ارشد مدنی کے بیانیے کی تائید کی راہ ہموار ہوتی ہے، اس صحیح بات کے ساتھ مزید کئی ایسی باتیں بھی کہی ہیں جن کا معقولیت، تاریخی کردار اور مختلف مذاہب و فرقے والوں کی آزادی و تہذیب اور وطن میں الگ موجود شناخت کے تحفظ و بقا کے منصفانہ عمل و رویہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، تحفظ گاؤ اور اس کے متعلق جذبہ پرستش کا بھارت کے تنوعات، تاریخی تسلسل اور پورے ملک کے باشندوں کی مجموعی روایات سے کوئی تعلق نہیں ہے،ہندی بیلٹ اور اس کے متصل علاقوں میں گائے سے متعلق بعد کے دنوں میں پیدا شدہ رجحان و روایت کو پورے ملک کے تمام باشندوں کی تاریخ و تہذیب اور روایت باور کرا کر مسلم علماء و عوام کو مورد الزام اور قصور وار ٹھیرانے کی کوشش، سب کی آزادی کے تحفظ کے منافی و غیر منصفانہ ہے، اس سلسلے میں گاندھی جی کا موقف،معقول ہے کہ گائے سے متعلق اپنے دھرم و روایت کو ہندو، مسلمانوں اور دیگر پر لاگو نہیں کر سکتے ہیں، دیس سب کا ہے اس کے پیش نظر، قانون بنا کر ذبیحہ گاؤ پر پابندی صحیح نہیں ہے۔
گاندھی جی کے اس منصفانہ و معقول موقف کو مسترد کر کے ملک میں الگ طرح کا ذہن پروان چڑھانے کا کام کیا گیا ہے، گائے کے سلسلے میں ساورکر کو گاندھی جی کی جگہ رکھنے کی کوشش اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے عمل کے باوجود ان کے معقول موقف کو مسترد اور نظرانداز کرنے کا سلسلہ جاری ہے، ہم نے راشٹر واد کے علاوہ کئی ساری ایسی باتیں جمعیۃ علماء ہند اور آر ایس ایس کے مابین مذاکرات میں جناب اندریش کمار سے 2004 میں کہی تھیں جن کا صاف جواب انھوں نے نہیں دیا تھا، ضرورت ہے کہ معقول و منصفانہ طور سے ملک کے تمام باشندوں اور مذاہب کی آزادی کے تحفظ کی بنیاد پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے نہ کہ یک طرفہ طور سے کسی کو اس کے تاریخی کردار سے الگ کر کے، مذہبی و تہذیبی آزادی کے خاتمے کی قیمت پر مخصوص قسم کے بیانیے کو آگے بڑھایا جائے۔