خشوع و خضوع کے درجات

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری


خشوع کا ادنی درجہ استحضار ہے، نمازی کو یہ دھیان متواتر رہے کہ وہ رب کے حضور میں باریاب ہے، یہ درجہ سہل، آسان اور سادہ ہے، ہر مرتبے کا شخص اس کا اہل ہے، کوئی لیاقت درکار نہیں، کسی نمازی کی دسترس سے باہر نہیں، نماز بھر عبادت کا تصور ہم رشتہ رہے، یہ ریاضت ناخواندہ کے لیے بھی بازیچہ ہے اور نماز کی قبولیت، اجابت، شان رفعت اور پسندیدگی کے لیے کافی ہے، از اول تا آخر استحضار حاصل رہا تو نماز کامل اور مکمل ہوئی، جیسا کہ عرض ہوا یہ خشوع کا ادنی درجہ ہے، اگر مذکورہ کیفیت بھی پیدا نہیں ہوئی تو نماز مجرد رسم، عادت، معمول اور روٹین ہے اور اس محرومی کے ذمے دار ہم خود ہیں، اس ضمن کا مطالبہ انتہائی سہل تھا، اس میں نامراد رہ کر ہم نے ثابت کردیا کہ عبادت کو لے کر ہم سنجیدہ نہیں ہیں۔

دوسرا درجہ متعلقہ کلمات کے معانی کا ادراک واستحضار ہے، بشمول قرآن آپ مختلف ہیئتوں، حرکات اور سکنات میں جو کچھ دہراتے ہیں، ان کا مطلب تازہ بہ تازہ رہے، مناجات کے مضمون سے باخبر ہوں، عرض ومعروض معلوم ہو، یہ درجہ بھی مشکل نہیں، چندے تعلیم سے ہر شخص اس مقام کا اہل بن سکتا ہے، سورۂ فاتحہ اور دس سورتوں کا ترجمہ وتشریح جوئے شیر نہیں، تکبیرات وتسبیحات کا مفہوم مزید سہل ہے، التحیات بھی مختصر ہے، مذکورہ قراءت، کلمات اور تسبیحات کے معانی یاد کرنے ہیں اور یاد رکھنے ہیں، چوکنا رہنا ہے، خیال مربوط ومتعلق رہے، عمل اور تصور ہم رشتہ ہوں، دھیان بھٹکنے پر متنبہ رہے، قول، عمل اور ذہنی ارتکاز ایک لڑی میں جڑے ہونے چاہئیں، ایک راہ کے راہ رو اور منزل کے یکسو، یہ درجہ اہل علم سے خصوصی نسبت رکھتا ہے، عربی دانی کی وجہ سے وہ اس کے بہ ہمہ وجوہ اہل ہیں، اگر اہل علم کی نمازیں اس درجۂ خشوع سے عاری ہیں تو شرم ناک ہے اور دیدہ ودانستہ جرم بھی۔

تیسرا درجہ معرفت کا ہے، اس میں علم کا تڑکا شامل ہو جائے تو نئے جہان دریافت ہوتے ہیں، حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ ہماری انتہا حضرات علماء کی ابتدا ہے، ان کی نسبت یہ تواضع ہے؛ مگر اہل علم اور غیر اہل علم سالکین میں فرق حقیقت ہے، علم ومعرفت کا جوڑ عبادت کو معراج بناتا ہے، بندہ ترقی نہیں کرتا، پرواز کرتا ہے، ایسے ہی تخلیے کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ خاص اوقات ہمارا عروج بے نظیر ہوتا ہے، مقرب فرشتہ بھی ہم نوائی نہیں کر سکتا، قیام، رکوع، سجدہ اور جملہ دستور العمل محرم اسرار بن جاتے ہیں، پردے اٹھتے جاتے ہیں، قدسی مقامات سرعت گامی سے عبور ہوتے ہیں، ملکوتی سیر نئی منزلیں دریافت کرتی ہے، یہاں مقامات ومنزلیں لا متناہی ہیں، اس طرح یہ روحانی سیر بھی غیر محدود ہے، گویا عابدِ عرفان متواتر ترقی پذیر رہتا ہے، اس کی معراج بدستور بلند رو رہتی ہے؛ یہاں تک کہ وہ یقین کے سفیر سے ہم آغوش ہو جائے۔

خشوع خضوع عبادت کی روح ہے، اگر روح کے بغیر ہم معدوم محض ہیں تو عبادات کیسے اعتبار وشمار میں آسکتی ہیں؟ فقہا نے بھی خالی اور عاری نماز کو ضابطے کی حد تک تسلیم کیا ہے، رابطے میں وہ بھی مسترد مانتے ہیں، نیز بے کیف نمازیں دشوار گزار بھی ہیں، یہ تنبیہ خود قرآن میں ہے، وہ فرماتے ہیں کہ پھیکی نماز سخت گراں بار ہے، نماز کی خوش گواری خشوع والوں کے لیے ہے، حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے اسے پیٹرول سے تشبیہ دی ہے، پیٹرول کے بغیر گاڑی گھسیٹنا جاں گسل ہے، توانا شخص کے لیے بھی دور اور دیر تک دھکیلنا ممکن نہیں، آخر ماندہ ہوگا اور بیٹھ جائے گا، بے رنگ نمازی بھی بتدریج دور ہوتے ہیں اور دور ہی ہو جاتے ہیں، بے دلی کی نقل وحرکت سے طویل المیعاد نباہ مشکل ہے، رمضان سر پر ہے، ہر چیز تعلیم وتربیت سے ممکن الحصول ہے، تربیت کے مہینے میں خشوع خضوع کی مشق بھی ملحوظ رکھیں، اللہ تعالی سب کو الطاف وعنایات سے سرشار فرمائے، آمین۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔