تعارف و تبصرہ: شکیل رشید ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز
پروفیسر شافع قدوائی کا تعلق یوں تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہے ، لیکن سچ کہا جائے تو ، مختلف جامعات کے طلباء ، جنہیں ادب و ثقافت اور میڈیا سے دلچسپی ہے ، اُنہیں اپنا ہی پروفیسر سمجھتے ہیں ۔ اِن دنوں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سرسید اکیڈمی کے ڈائرکٹر کے فرائض بھی ادا کر رہے ہیں ، اور اس حیثیت سے اُنہوں نے ، بانیٔ مسلم یونیورسٹی سرسید احمد خاں کی حیات و خدمات کو منظر عام پر لانے کے ایک ایسے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا کام شروع کیا ہے ، جِسے سرسید کے قدموں کی تلاش کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت ، سرسید نے جِن جگہوں پر طویل عرصہ قیام کیا تھا ، اُن تمام جگہوں پر اُن کی سرگرمیوں کو کھنگال کر مونوگراف کے طور پر پیش کرنا ہے ۔ اس سلسلے کی پہلی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ، ’ سرسید کا قیام بنارس ‘، ’ سرسید کا قیام میرٹھ ‘ اور ’ سرسید کا قیام مرادآباد ‘ ۔ پائپ لائن میں مزید مونوگراف ہیں ۔ شافع قدوائی اس تعلق سے ان تینوں مونوگراف کے مقدمے میں لکھتے ہیں : ’’ سرسید اکادمی نے ان شہروں ( جہاں سرسید کا قیام رہا ہے ) سے متعلق سرسید کے Engagement کی پوری تفصیل جس سے متعلق شناسائی عام نہیں ہے الگ الگ مونوگراف کی صورت میں قارئین کے سامنے پیش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔‘‘ اس منصوبے کے لیے نیک تمنائیں ۔ آئیں شائع ہو چکے تینوں مونوگراف پر سلسلہ وار نظر ڈالیں ۔
سرسید کا قیام بنارس
اسعد فیصل فاروقی
نوجوان محقق اسعد فیصل فاروقی کا تحریر کردہ مونوگراف ’ سرسید کا قیام بنارس ‘ صرف ڈیسک پر بیٹھ کر نہیں لکھا گیا ہے ، اس کے لیے اُنہوں نے بنارس کے اُن محلّوں ، گلیوں اور مقامات کی باقاعدہ خاک بھی چھانی ہے ، جِن سے سرسید کا نام وابستہ رہا ہے ۔ تلاش اُنہیں اس محلّے تک بھی لے گئی جہاں قیامِ بنارس کے دوران سرسید اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے تھے ۔ اسعد فیصل فاروقی لکھتے ہیں : ’’ بنارس میں سرسید کے گھر کی تلاش میں راقم الحروف نے ۲۹ ، جولائی ۲۰۲۴ء کو بنارس کا سفر کیا اور اُن علاقوں کا سروے کیا جہاں سرسید کی رہائش ہو سکتی تھی ۔ اس سفر میں یہ پتا چلا کہ ’ مور کوٹھی ‘ جس کا تذکرہ بطور سرسید کے گھر ’ آثارِ بنارس ‘ میں درج ہے ، اس کا اب نام و نشان نہیں ہے ، اب اس جگہ پر ایک نئی کالونی رضا کالونی تعمیر ہو چکی ہے ۔ راقم نے وہاں کے رہائشی لوگوں سے جب اس بارے میں استفسار کیا تو اُنہوں نے یہ بتایا کہ اس کوٹھی کا ایک دروازہ جس پر مور بنے ہوئے تھے ، حال کے برسوں تک موجود تھا ، دو تین برس قبل اس کو بھی منہدم کر دیا گیا ۔ اس سروے میں یہ بھی پتا چلا کہ ’ مور کوٹھی ‘ کا علاقہ اور اردلی بازار ایک ہی سڑک پر واقع ہے ، اور ان دونوں کا فاصلہ ایک ڈیڑھ کلو میٹر ہے ۔‘‘
کتاب بنارس میں سرسید کے سات برس چھ مہینے کے قیام پر مشتمل ہے ۔ وہ وہاں ’ بنارس سَب آرڈیننٹ جج عدالت خفیفہ ‘ کی حیثیت سے پہنچے تھے ۔ کتاب کے چار ابواب میں سات برس چھ مہینے کی سرسید کی سرگرمیاں تحقیق کے بعد جمع کر دی گئی ہیں ۔ اپنے ’ پیش لفظ ‘ میں فاروقی لکھتے ہیں : ’’ بنارس میں اپنی ملازمت کے اس طویل عرصہ میں سرسید نے بنارس کی ترقی میں عملی طور پر حصہ لیا تھا ، بنارس میں ملازمت کے اس اولین دور میں ہی سرسید ’ بنارس انسٹی ٹیوٹ ‘ کے ممبر بن گیے تھے اور وہ اس کی علمی و ادبی سرگرمیوں میں بھی شامل رہے تھے ۔ انہوں نے اپنی آمد کے فوراً بعد اس انجمن کے تحت ایک لیکچر بھی ہندوستان کی ترقی پر دیا تھا ۔‘‘ پہلے باب ’ بنارس کا تاریخی و ثقافتی پس منظر ‘ میں ، بنارس سے سرسید کی محبت کا ایک سبب اس شہر کی علمی ترقی کو بتایا گیا ہے : ’’ انہوں نے ( سرسید نے ) تعلیمی اعتبار سے بنارس کو دیگر شہروں سے ممتاز قرار دیا ہے اور اس کی تعلیمی حیثیت کی تعریف کی ہے ۔‘‘ مونو گراف کے دوسرے باب ’ سرسید بنارس میں ( ۱۸۷۰ء – ۱۸۷۶ء ) ‘ سرسید کی تین خوبیوں یا صفتوں کو اجاگر کرتا ہے ؛ سرسید کی علمی و تعلیمی سرگرمیوں سے انتہائی دلچسپی ، سرسید کا سماجی اور رفاہی کاموں میں پیش پیش ہونا اور سرسید کی شخصیت کا ہر طرح کی مذہبی شدت پسندی سے عاری ہونا ۔ یہ خوبیاں ہی تھیں جن کے سبب انہوں نے بنارس میں ہندی ادب کے ممتاز و معروف ادیب بھارتیندو ہریش چندر کے قائم کردہ اسکول کی ترقی پر بے پناہ خوشی کا اظہار کیا اور ’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ‘ میں اُس پر ایک تعارفی نوٹ بھی لکھا ۔ سرسید بنارس انسٹی ٹیوٹ کے ممبر بنے ، اُس کے جلسہ میں لیکچر دیا ، بنارس کی ترقی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، ہومیوپیتھک اسپتال کے قیام میں دلچسپی لی ، ورناکلر یونیورسٹی کے قیام کے لیے اعلیٰ افسر کو خط لکھا ۔ اس باب میں ’ ہندی اردو قضیہ ‘ کی تفصیلات بھی ہیں ۔ بھارتیندو ہریش چندر اس قضیہ میں ہندی کے حق میں پیش پیش تھے ، سرسید نے اردو کی وکالت کی ۔ معاملہ فرقہ وارانہ رنگ لے چکا تھا ، جِس پر سرسید کو افسوس تھا ، اس سلسلے میں انہوں نے بنارس کے کمشنر مسٹر شیکسپئیر سے گفتگو کرتے ہوئے ایک طرح کی پیشن گوئی کی تھی : ’’ اب مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ دونوں قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہو سکیں گی ۔ ابھی تو بہت کم ہے ، آگے آگے اِس سے زیادہ مُخالفت اور عِناد ان لوگوں کے سبب ، جو تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں ، بڑھتا نظر آتا ہے ، جو زندہ رہے گا وہ دیکھے گا ۔‘‘ بھارتیندو کی طرف سے اردو زبان کی جگہ دیوناگری رائج کرنے کی جد و جہد کے باوجود سرسید نے ایک مقدمہ میں کسی شہادت کے بغیر ان کی باتوں کو سچ مان کر مقدمہ کے دوسرے فریق سے ان کی صؒلح کروائی تھی ۔ تیسرا باب ’ سرسید بنارس میں (۱۸۷۶ء – ۱۸۷۰ء ) ‘ سرسید کی سرگرمیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اس باب میں مجوزہ محمڈن کالج ( جو اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے ) کے لیے سرسید کے عملی اقدامات کو کافی تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ درمیان میں سرسید لندن گیے تھے ، وہاں سے واپسی پر انہوں نے ’ کمیٹی خواستگار مسلمانان ہندوستان ‘ کا قیام ، خالص مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لیے ، کیا ۔ اس باب میں قحط زدہ گورکھپور اور بستی میں متاثرین کے لیے رفاہی کام کا بھی ذکر ہے ، نیز وہاں کے عوامی اور تعلیمی جلسوں میں شرکت کا بھی ۔ سرسید سماجی کاموں میں کس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اس کی ایک مثال ، ان کے ذریعے ’ پرنس آف ویلس اسپتال بنارس ‘ کی تعمیر میں تعاون ہے ۔ یہ باب کافی دلچسپ ہے ، اس میں ڈبلیو ڈبلیو ہنٹڑ کی کتاب کا سرسید کا جواب ، سوامی دیانند سرسوتی کا اپنے بنگلے میں لیکچر کرانا اور بنارس کے ہندوؤں سے ، جو سوامی کے مخالف تھے ، اُن کی صلح کرانا اور وہابیوں کے حق میں مضامین کا لکھنا جیسے کئی اہم باتوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔ آخری باب ’ بنارس میں سرسید کے شناسان ‘ کے عنوان سے ہے ، اور ان کے شناسان کے نام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے کیسے کروفر کے لوگ ، کیا ہندو ، مسلمان اور عیسائی ، ان کے شناسا تھے ، اور کیسے وہ سب سرسید کا احترام کرتے تھے۔
پروفیسر شافع قدوائی نے اس مونو گراف کے لیے اسعد فیصل فاروقی کی خدمات کو سراہا ہے ، وہ مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’’ سرسید اکیڈمی جواں سال محقق ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی کی ممنون ہے کہ انہوں نے تحقیقی ژرف نگاہی اور معروضی نقطہ نظر کو بروئے کار لاکر سرسید کے قیام بنارس کی پوری تفصیل مستند شواہد اور حوالوں کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔ ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے نہ صرف علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کی فائلوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا بلکہ موضوع سے متعلق دیگر اخبار جرائد و کتب کا بھی دقت نظری کے ساتھ جائزہ لیا ہے ۔‘‘ یہ مونوگراف سرسید کی حیات اور ان کے کارناموں کے لیے ہی نہیں اُس دور کی تاریخ اور کئی سلگتے مسٗلوں سے واقفیت کے لیے بھی پڑھا جانا چاہیے ۔ ۱۷۲ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۳۰۰ روپیے ہے ، اسے حاصل کرنے کے لیے ای میل pub_div@rediffmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔