Slide
Slide
Slide

اسلام میں جرائم کی سزائیں

اسلام میں جرائم کی سزائیں 

 مختلف جرائم کی قرآنی سزاﺅں کے سلسلے میں کتاب اللہ سے دوری کے سبب یہ خام خیالی عام ہے کہ قرآن شریف میں موجود سزائیں بڑی سخت واقع ہوئی ہیں۔اِس خام خیالی کو راہ پانے کا موقعہ جن اسباب کی بنا پر ملا اُن میں دو اسباب بڑے اہم ہیں:

  •  اولاً: یہ کہ کتاب اللہ کی آیات میں مستعمل عربی الفاظ کے حقیقی مفہوم تک ہماری رسائی نہ ہو سکی۔
  • ثانیاً:  یہ کہ سزاﺅں سے متعلق ان احکامِ قرآنی کو ہم نے ماضی کی مسلم حکومتوں میں رائج قوانین کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔

 ایک انسان کی جانب سے کسی دوسرے انسان کے جسم کی بے حرمتی یا چوٹ پہنچانے، اُس کے جسمانی اعضاءسے اُسے محروم کر دینے، یہاں تک کہ اُس کے قتل ہی کا ارتکاب کر بیٹھنے جیسے جرائم کا قرآن شریف میں بڑی سنجیدگی سے نوٹِس لیاگیا ہے۔انسان کی قابلِ صد احترام جان کی توقیر کے ساتھ ساتھ اُس کے جسم کی عظمت Body Respect میں ایک ایک عضو کو وہ قدر و منزلت بخشی گئی ہے جس کا عصرِ حاضر کے قانونی معاشروں میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ظاہر ہے اس قدرومنزلت کا بجا طور پر یہی تقاضہ سمجھا گیا کہ ایک انسان کے ذریعے دوسرے انسان کے جسم کو پہنچائی جانے والی کسی بھی نوعیت کی چوٹ کو یا قتل کے ارتکاب کو کوئی معمولی جرم نہ سمجھا جائے اور یہ کہ اس جرم کے لیے قانونی نظام میں بڑی سخت سزا کا اہتمام کیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ کتاب اللہ میں اس کامفصل بیان بھی ساری دنیا کیلئے کر دیا گیا۔ ان سخت سزاﺅں کی مشیت بھی کتاب اللہ میں بیان کردی گئی ہے جسے سمجھنے کے لیے کچھ بہت زیادہ ذہنی مشق کی ضرورت بھی نہیں۔ حقیقت واضح طور پر سمجھ میں آ جاتی ہے کہ سخت سزاﺅں کے خوف سے انسانی معاشرہ صاف ستھرا رہے اور خود معاشرہ انسانی جسم و جان کی مکمل سیکوریٹی کا ضامن بن جائے اور اس معاشرے میں کسی بھی نوعیت کے تشددVoilence یا دست درازیوں کو کبھی سراُٹھانے کا موقع میسر نہ آئے۔

 عصر نو کا ایک قابل تعریف جذبہ ،حر ّیتِ انسانی ہے۔ دورِ حاضر حقوقِ انسانی Human Rightsکا چمپین گردانا جاتا ہے۔لیکن جسمانی چوٹ یا قتل عمد Intentional Murder جیسے گھناؤنے جرم کی سزاپر” قید بامشقت “کی تجویز حقوقِ انسانی اور احترامِ آدم کا حق مطلق ادا نہیں کرسکتی۔

  مختلف نظام ہائے قانون کے مابین تقابلی مطالعے پر مبنی ہمارا یہ مضمون اِسی سوال کے گرد گھومتا ہے کہ آیا انسانیت کش جرائم کی سزا کے سلسلے میں قانون کی بلند بانگ مروجہ جدید تجاویز، حقوقِ انسانی کی عظمت کو چار چاند لگاتی ہیں یا وہ تجاویز جن کی کرنیں وحیِ اِ لٰہی سے پھوٹی ہیں اور کائنات کے خالق کی ہر دور میں نازل شدہ کتابوں کی آیاتِ مبارکہ میں میں بیان کی گئی ہیں! سورۂ المائدہ کی آیت پینتالیس ہمارے مضمون کی بنیاد ہے ۔احتراماً ہم آیات کا عربی متن درج نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف ترجمے پر اکتفا کر رہے ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ حوالہ نمبر سے آیت مبارکہ کی تلاوت کتاب اللہ میں ضرور کرلیں:

” اور ہم نے التوراة اور الانجیل میں بھی فرض کیا تھا انسانیت پر ، کہ جرائم کی سزاﺅں میں جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت، اور اس طرح جسمانی تشدد کے تمام زخموں کی قانونی سزا۔ پھر وہ شخص جس پر تشدد کیا گیا، وہ معاف کردے مجرم کو بطور صدقہ ، تو وہ کفارہ Penance ہوگا مجرم کے جرم کا۔ اور جو اللہ کے نازل کردہ احکامات اور حدود کے مطابق فیصلے نہ کرے، تو ایسے ہی لوگ ظالم اور گنہ گار ہیں۔ “

 خالقِ کائنات نے اگرسارے انسانوں کومختلف قوتوں سے نوازا، مختلف صلاحیتیں بخشیں، ان کے لئے زمین کو جائے قرار بنایا، انہیں اِس کرّۂ ارض کے گوشے گوشے میں پھیلادیا تو ظاہر ہے یہ بے مقصد نہیں ہو سکتا۔قرآنی آیات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین پر متمکن ہر شخص ذاتی طور پرایک امتحان سے گزر رہا ہے۔ اور وہ امتحان یہ ہے کہ اسے بخشی گئیں متذکرہ صلاحیتوں اور قوتوں کااستعمال وہ انسانوں کی فوزو فلاح کے لیے کرتا ہے یا طاقت کے نشے میں سرشار ہوکر وہ دوسروں پر دھونس جماتا ہے! اس زمین پر وہ اپنی حیثیت کو پہچان کر جیتا ہے یا زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے زندگی گذارتاہے! اسی طرح دوسرے انسانوں کے اپنے اوپر عائد ہونے والے حقوق کو پہچانتا ہے یاان سے بے فکر ہوکر دوسروں کے حقوق پرشب خون مارتا ہے۔یہ ہے وہ امتحان جو مسلسل جاری ہے۔ قطعِ نظر اس سے کہ کوئی انسان اپنے بر سرِ امتحان ہونے کومانتا ہو یانہ مانتا ہو۔ دراصل اسی پر اس کی آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے جس کی اطلاع ہمیں رب تعالیٰ کی جانب سے دی جاچکی ہے۔ بلکہ ہر دور میں اپنے ہر نبی اور ہر رسول کے ذریعے ، اپنی ہر تنزیل، ہر صحیفے میں انسانیت کو فراہم کی جاتی رہی۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں بھی سدسٹھویں سورة کی دوسری آیت میں ارشاد فرمایا:

” وہی اللہ خالق ہے تمام مخلوق کا، اسی نے موت کو بھی پیدا کیا اور حیات کو بھی۔ اس طرح اے انسانو! وہ تمہاراامتحان لے رہا ہے کہ کون تم میں سے زیادہ اچھے اور نیک عمل Noble Deedsکرتا ہے۔ “

 اگرچہ انسان اس کرئہ ارضی پر زما نۂ دراز سے آباد ہے اور اپنی زندگی کے ڈھب کے اعتبار سے ایک سماجی یاSocial مخلوق قرار پاتا ہے۔وہ کرۂ ارض کے مختلف علاقوں اورمختلف ا دوار میں، مختلف انداز اور مختلف طرز زندگی کے ساتھ جیتاآیا ہے۔ مگر رب تعالیٰ چاہتا ہے کہ اُس کی زندگی مہذب ہوجسے انسانوں کی زندگی کہا جاسکے۔اس کے لیے وہ لازماً چند بنیادی اخلاقی اصولوں اور قوانین کی پابندی کو اپنے اوپر لازم کرلے اور ثبوت دے کہ وہ انسان ہے۔یہ بنیادی اصول اور قوانین بفضل ِ تعالیٰ ربِّ کائنات نے ہر نبی اور ہر رسول پر نازل فرمائے۔جس کاواحد مقصدیہ تھا کہ انسانیت کو امن و سکون میسر آئے اورامن و امان کی فضا میں اس کرۂ ارض پر اس کی زندگی شائستگی، سلیقہ شعاری اور ترقی پذیری کی طرف گامزن ہو جائے۔ جسے دیکھ کر لگے کہ یہ نیکو کاروں کی بسائی ہوئی بستی ہے اور یہ قافلہ ایک شائستہ مخلوق کا قافلہ ہے، جو اپنے رب کی مقرر کردہ منزل کی جانب خراماں خراماں بڑھ رہا ہے۔

 ہمیں اس حقیقت کا بھی اعتراف ہونا چاہیے کہ انسان کی فطرت میں کچھ منفی رجحانات و عوامل خالق انسانیت نے ودیعت فرمادئے ہیں۔ مثلاً غصہ، بغض وکینہ، نفرت وعداوت، تشدد و ضرر رسانی، طاقتور ہو تو کمزور پر ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔اور یہ سب اسی امتحان کی خاطرہوتے ہیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔یعنی امتحان یہی ہے کہ وہ ان پر قابو پا تا ہے یا ان منفی رجحانات سے مغلوب ہوکر دست درازی پر اُتر آتا ہے۔ یہی منفی عوامل ہیں جن پر کامیابی کے ساتھ کنٹرول اسے پُر امن دنیا بھی عطا کرتا ہے اور مغفرت والی آخرت کی سوغات بھی دیتا ہے۔اسے ہم عرفِ عام میں ایمان کی محنت یا اپنی ایمانداری کا ثبوت اور شہادت پیش کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔

 جیسا کہ عرض کیا گیاانسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ اسے سماج میں دیگر انسانوں سے رات دن واسطہ پڑتا رہتا ہے۔جذب و انجذاب اور عمل وردّعمل کا سلسلہ فطری طور پر انسانوں کے درمیان جاری رہتا ہے۔چنانچہ انسانوں سے معاملہ کرتے وقت اگر وہ اپنے مذکورہ منفی عوامل کوکنٹرول کرنے میں ناکام ہوجائے تو گمانِ اغلب یہی ہے کہ وہ اپنے طاقتور ہونے کی صورت میں اپنے سے کمزور انسان پر اپنی طاقت کا استعمال ِ بے جا ضرور کربیٹھے گا۔ انسانی تاریخ بھی اس حقیقت پر گوا ہ ہے۔ساتھ ہی تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ زخم خوردہ کمزور انسان موقع کی تاک میں رہتے ہیں کہ طاقتورسے انتقام لینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ اس طرح انسانی سماج مستقلاً تشدد اور امن کے بجائے خوف کے سائے میں زندگی گزارتا ہے۔

 تاریخ شاہد ہے کہ طاقتور جب بھی اقتدار حاصل کرلیتا ہے، تو وہ کمزوروں کے لیے قانون سازی کے معاملے میں عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔ کمزوروں کے لئے استحصالی قوانین اختراع کیے جاتے ہیں۔شہریوں کے درمیان کسی نہ کسی مسئلے کی بنیاد پر دراڑیں پیدا کی جاتی ہے۔ کبھی کالے اور گوروں کے نام پر، کبھی حاکم اور محکوم کے نام پر، کبھی اکثریت اور اقلیت کے نام پرتفریق بین الناس کاروگ گھیر لیتا ہے۔ اور با لآخر مذہبی بنیادوں پر پوری سوسائٹی کو جانبداری کے آرے سے چیر کر رکھ دیا جاتا ہے۔

  ہر دور میں انسانیت کے خالق نے اپنی کتابوں میں اور نبیوں کے ذریعے یہ بنیادی سبق بار بار دہرایا ہے کہ انسان بنیادی طور پر ایک ہی نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔اور یہ کہ انسانیت کا خالق یہ بات مطلق پسند نہیں کرتا کہ کسی بھی بنیاد پر کرۂ ارض پر اُس کی پیداکردہ انسانی نسل کے درمیان اس فطری اوربنی آدم والے تصور سے الگ کوئی تقسیم ہو۔کیونکہ یہی تقسیم قانون سازی کو عدم اعتدالی کی کھائی میں دھکیل دیتی ہے۔اسی لیے وہ چاہتا ہے کہ انسانی معاشرہ اول تو اپنے شہریوں کو کسی بھی نوعیت کی تقسیم سے بچائے رکھے ، تاکہ جب ان کے لیے قانون سازی کا مرحلہ آئے توقانون سازی کے پیشِ نظر صرف اورصرف ظلم و ستم کا سدّ باب ہو۔ اور کسی طاقتور کو کسی کمزور پرہاتھ اٹھانے کی جرات نہ ہو سکے۔ ہر فرد کی ذات اور شخصیت قابلِ احترام بن جائے۔ حرمتِ انسانی کی توہین کرنے والے قانون شکن مجرموں کو ایسی معقول سزائیں دی جائیں جو دوسروں کے لئے عبرت کا سامان فراہم کرنے والی ہوں۔ اسی سے عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گھبرائیں گے اورقانون کی بالادستی و برتری قائم رہے گی۔انسانی جسم و جاں کی متذکرہ حرمت کے پیش نظر کیا یہ ضروری نہیں ہوجاتا کہ قانون ساز ادارے اور انتظامیہ انسان کے خلاف تشدد کے سد باب کے لئے ان سزاؤں کو بغیر کسی رو رعایت کے جاری رکھیں جو انسانیت کے خالق نے تجویز فرمائی ہیں؟

 یہاں یہ بات ہم ضرور عرض کریں گے کہ سزاﺅں کوجاری کرنے میں بھی اعتدال کاد امن ہاتھ سے چھوٹ سکتا ہے۔ مجرموں میں سے کسی کو بوجوہ رعایت دینے کا خیال دامن گیر ہو سکتا ہے یا کسی کو جرم کے مقابلے میں زیادہ سخت سزا دینے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ تمام شہریوں کے لئے سزاﺅں کے یکساں قوانین وضع کئے جانے چاہئیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہو۔ چنانچہ اپنی آخری الکتاب ، قرانِ مجید کی دوسری سورت کی ایک سو اٹہترویں اور ایک سو نواسی ویں آیات میں ایک بنیادی حکم یہ دیا گیا ہے:

” اے لوگو جو ایمان لائے! فرض کردیا گیا تم پر قتل کے جرم میں قصاص کی سزاکا قانون۔ مجرم اگر مالی اور سماجی حیثیت سے اونچا اور آزاد ہو ، تو بھی اسے ویسی ہی سزا، اور اگرکمزور اور کم حیثیت کا ہو ، توبھی اس کو ویسی ہی سزا۔جرم اگر کسی خاتون نے بھی کیا ہو تو بھی اس کو ویسی ہی سزا۔پھر جس مجرم کی سزا میں اس کے بھائی (یعنی مدعی یا sufferer ) کی طرف سے رعایت یا معافی دی جائے ، تو اسے follow کیا جائے دستور کے مطابق سلیقے کے ساتھ ، اور ادا ئیگی اورpaymentsکئے جائیں احسان مانتے ہوئے۔ یہ conscessionsہیں تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت۔ مگر اسکے باوجود ، جو زیادتی کرے گا، تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔اور قانونِ قصاص میں تم انسانوں کی زندگی کی حفاظت کا راز ہے اے عقل والو! تاکہ تمہارا معاشرہ اللہ کے خوف اور قانون کے ڈر سے ایک conscious اورجرائم سے پاک معاشرہ بن سکے۔ “

 پھر ایک بیدار مغزمعاشرے کی انتظامیہ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے شہریوںمیں یہ احساس جگائے کہ کسی شہری کے ہاتھوں کسی دوسرے شہری کا قتل ایک سنگین جرم ہے ، جس کے ارتکاب سے اُسے بہر طور بازرہنا ہے، ورنہ قتل کے جرم کی پاداش میں خود اُسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔نیز یہ احساس بھی کہ قتل کی یہ سخت سزا خود اُن ہی کی حفاظت کے لیے نافذ کی جارہی ہے۔ قتل کے جرم اور سزا کی اس سپرٹ کو نہ صرف قرآنی احکامات میں اُجاگر کیا گیا ہے، بلکہ اس کرۂ ارضی پر انسانیت کے آغازہی میں یہ آسمانی احکامات جاری فرما دیے گیے تھے۔ مگر بڑا عجیب بلکہ افسوس ناک اتفاق یا المیہ یہ ہے کہ ہر دور میں انسانوں نے اپنے ہی جیسے انسانوں کا بے تکلّف خون بہانے کے لئے مختلف بہانے اورطرح طرح کی تاویلات تراشیں اور بے دریغ خون بہایا۔مہلک ہتھیارات اسی لیے ایجاد کیے گیے کہ جن سے قلیل وقت اور کم محنت میں اپنے ہی جیسے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا سکے۔ ایسا کرتے ہوئے اُسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں مل سکا کہ اُسے اِس کی کیا قیمت چکانی ہے!

  انسانی جان کے احترام اور اس کی قدر و قیمت کاتذکرہ قرآنِ حکیم میں جس تفصیل سے ملتا ہے، دنیاوی علوم کے دفتر اس سے خالی ہیں۔ سورۂ المائدہ کی بتیسویں آیت میں غور وفکر کے ذریعہ ہم ان حقائق کا ادراک کرسکتے ہیں:

 ” اس پہلے ہی قتل سے ہم نے یہ طے کردیا، اور اس کا حکم کتابی شکل میں بنی اسرائیل کو بھی دیا، کہ جس نے ناحق کسی دوسرے انسان کو قتل کیا، یا زمین میں فساد مچایا، توجیسے اس نے تمام انسانیت کا قتل کرڈالا۔ اور جس نے ایک انسانی جان بچائی، تو گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی اور انسانوں کے پاس ہمارے پیغام Also وقتاً فوقتاً کھلے بیانات کے ساتھ آتے رہے، مگر بے شک انسانوں کی بڑی اکثریت ا س کے باوجود زمین میں زیادتی کرتی ہی رہتی ہے۔ “

  حضرت آدم ؑ کے دو بیٹوں میں جب ایک مذہبی تنازعہ کھڑا ہوا تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کا قتل کرڈالا اور انسان کی موت کا اولین واقعہ پیش آیا۔یہ قتل دنیاکا سب سے پہلا انسانی قتل تھا۔

 دنیانہیں جانتی کہ ایک انسانی جان کی قیمت کوساری انسانی جانوں کے برابر قرار دے کر ہمارے رب نے حرمتِ نفسِ انسانی کو کیا بلندیاں عطا کی ہیں کہ جن کا تصور بھی ممکن نہیں۔ایک انسان سے مراد ایک شاہِ وقت بھی ہو سکتا ہے اورایک ادنیٰ فقیر بھی۔شاہ ہو کہ فقیر، مگر قیمت ایک ہی!یہ اتنی بڑی قیمت ہے کہ جس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

  دنیا کی وہ کونسی کتاب ہے یا دنیا کا وہ کونسا قانون ہے جس میں انسانی جان کی حرمت کو یہ بلندیاں عطا کی گئی ہوں! ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ہم خود انفرادی اوراجتماعی طورپر انسانی جان کے احترام کی مثالیں قائم کریں اور پھر دنیا کو بھی بتائیں کہ ربِّ کائنات نے ایک انسانی جان کی قدر و قیمت کوکس قدر بڑھا دیا ہے۔ کیا عجب کہ ان معروضات کو دیکھنے کے بعد کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی مقام پر کوئی قتل رک جائے اورہم بھی دنیا کے سارے انسانوں کی جان بچانے کے ثواب کے مستحق قرار پائیں۔

 مضمون کی ابتداءمیں سورة المائدہ کی پینتالیسویں آیت کے ترجمے میں ہم نے دیکھا تھا کہ کسی فردِ متنفس کو جسمانی ایذا رسانی یا Physical Hurt کے لیے دی جانے والی سزا کا ذکر ہے۔ اس آیت میں اس امر کی صراحت بھی ہے کہ قرآن شریف سے قبل بھی التوراة اور الانجیل جیسے صحیفہ ہائے الٰہی میں بھی ان ہی تعزیری سزاﺅں Capital Punishmentsکا قانون مذکور تھا۔شریعت اسلامی جو حضرت نوحؑ سے چلی آرہی ہے اور اس دور کے بعد جتنے بھی انبیاءاور رسل آئے اور جو بھی کتابیں نازل فرمائی گئیں، ان میں انسانی خون کی حرمت اور اس کی پامالی کی سزا میں وہی احکامات نازل فرمائے گئے جو رب تعالیٰ نے اپنی آخری الکتاب میں نازل فرمائے ہیں۔جس کا ذکر بیالیس نمبر کی سورت سورةالشوری کی تیرھویں آیت میں فرمایا ہے:

” شریعت بنادی اس(اللہ) نے تمہارے لئے اُسی دین کی جس کی وصیت کی تھی ہم نے نوح ؑکو، اور وہی چیز ہم نے وحی کی آپ کی طرف اور جس کی وصیت کی تھی ہم نے ابراہیم ؑ، موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑکو کہ قائم کرو دین کو اور نہ تفرقہ بازی کرو اس میں۔گراں گذرتا ہے مشرکین پر جس کی طرف تم دعوت دیتے ہو انہیں۔ اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف جسے وہ چاہے اور ہدایت دیتا ہے ہر اس کو جو اس کی طرف رجوع کرے۔ “

 حقوقِ انسانی اور عظمتِ انسانی کا احترام کرنے والی تمام تنظیموںکو unbiased ہوکر سنجیدگی کے ساتھ اِس قانون پر غور کرنا چاہیے اور اس قانون میں اُن پہلوﺅں کو تلاش کرنا چاہیے جو انسانیت کے لیے سراسر رحمت ہیں ۔یہ خود حقوقِ انسانی کی تنظیموں ہی کے مفاد میں ہے ۔ انہیں اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کیاعصرِ حاضرمیں اس قانون کے ذریعے ایک پر امن معاشرہ کی تشکیل دی جا سکے گی؟

  جب سارے انسانوں کا رب ایک ہی ہے ، جو انتہائی رحیم اور بے مثال منصف ہے، توفطرت اعتراف کرتی ہے کہ اُس کی نازل کردہ کتابوں میں درج اُس کے قوانین چاہے وہ کسی بھی زمانے سے متعلق کیوں نہ ہوں، مخلوقِ خداوندی کے حق میں رحمت و شفقت سے مملو ہونے چاہئیں۔ ان قوانین کو عظمتِ انسانیت کی کسوٹی پر کھرے اُترنا چاہیے۔اسی لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان کی باز یافت کی جائے۔ انہیں سمجھنے کا حق ادا کیا جائے اورعمل کی دنیا میں انہیں لاگو کیا جائے ۔ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ان قوانین کو ساری دنیا کے روبرو اس کی اصل اسپرٹ کے ساتھ پیش کریں۔

 ان قوانین کے مختلف پہلو ﺅں پر غور و فکر کے نتیجے میں کچھ اور نکات ہمارے سامنے آتے ہیں۔جیسا کہ ہم نے دیکھاآیتِ مذکورہ میں کہ ہر دور میں انسانوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ایک صحت مند معاشرے کے باشعور لوگ اپنے شہریوںکی حفاظت کی تمام تدابیر کریں۔سزاﺅں کے قلع قمع کے لیے قوانین وضع کیے جائیں تو اس لیے کہ انسانی جان و مال کی جرائم کے عادی انسانوں سے حفاظت ممکن ہو سکے۔ساتھ ہی یہ بھی ہو کہ ان قوانین کو منصفانہ طریقے سے تمام شہریوں پر بلا لحاظِ حسب و نسب، غربت و ثروت، حیثیت وحشمت، لاگوکیے جانے کا نظم کیا جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک ہی قسم کے جرم پر صاحب ِ مال و منصب کے لیے علاحدہ رویہ اختیار کیا جائے یعنی ان کے جرائم کی پردہ پوشی ہو رہی ہو، اور بے ضرر سزاﺅں سے کام لیا جارہا ہو اور دوسری طرف بے حیثیت اورغربت کے ماروں کے لیے علاحدہ رویہ یعنی اسی جرم کی سزا کے نام پر ان پر ظلم ستم کے کوڑے برسائے جارہے ہوں۔

 کسی بھی معاشرے میں تعزیری قوانین کے نفاذ یاگھناؤنے جرائم پر سزاﺅں کے اجراءکے لیے چار بنیادی اداروں کا موجود اور فعال ہونا لازمی ہے:

  • اولاً…ایک بااختیار انتظامیہ Administration ،
  • ثانیاً…ایک باشعور مقننہ legislature ،
  • ثالثاً…ایک غیر متعصب عدلیہ Unbiased Judiciaryاور
  •  رابعاً…سزاﺅں کے اعلان کے بعدقانون کے نفاذ کی وہ پوری مَشنری جسے Executive کہتے ہیں۔

وہ قانون قانون نہیں، جس میں مدعی خود ہی منصف بن بیٹھے۔ اسی طرح انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عوام نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا، خانہ جنگی، بدامنی، فساد اور کُشت و خون کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا۔

 متذکرہ آیت میں بیان کردہ تعزیری سزاﺅں Capital Punishments کی حقیقت پر ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ کتاب اللہ کاقانون، قانونِ زحمت نہیں بلکہ حاملِ رحمت ہے اور اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔آئیے ،کچھ اور پردے اٹھاتے چلیں۔

 پوری آیت ہمارے سامنے ہے۔اس آیت شریفہ میں پہلے تو انسانی جان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پھر جسمانی اعضاءمیں سے آنکھ، ناک ، کان اور دانت کو لیا گیا ہے اور ساتھ ہی دیگر جسمانی نقصانات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اب آیت کی جزئیات کی نزاکتیں ملاحظہ فرمائیں۔سب سے پہلے کہا گیا :

اَنَّ النَّفسَ بِالنَّفس:

 یعنی ”جان کے بدلے جان“ ۔مطلب صاف ہے۔ بدلے میں قاتل کی جان مراد ہے۔ یعنی جس نے جرم کیا،بس اسی کی جان بطور سزا مطلوب ہے۔ اس کے والدین کی نہیں، اس کی اولاد کی نہیں،اس کے خاندان یااس کے قبیلے کے افراد میں سے کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں۔ یعنی خون کا بدلہ بے شک خون، مگر صرف قاتل کا۔ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ سلم کے آخری خطبے کے ان الفاظ پر قربان جائیے:

” اَ لَا لَا یَجنِی جَان ٍ اِلَّا عَلٰی نَفسِہ وَلَا یَجنِی وَالِد عَلٰی وَلَدِہ وَلَا وَلَد عَلٰی وَالِدِہ (ترمذی شریف)۔ 

 ” غور سے سنو! مجرم ہی کو جرم کی سزا دی جائے۔ کسی کے والد کے جرم کا بدلہ اُس کی اولاد سے نہ لیا جائے۔کسی کی اولاد کے جرم کا بدلہ اُن کے والد یا کسی رشتہ دار سے نہ لیا جائے۔ 

 اب قتل کی سزا پر ہی غور کیا جائے۔ مقتول کو انصاف عطا کرنے کے لیے قاتل کو عمر قید کی سزاسے انصاف کاادنیٰ سا بھی تقاضہ پورا نہیں ہوتا کہ جس پر ہم اور مقتول کے وارث مطمئن ہوجائیں۔اس نازک پہلو کو سمجھنے کے لیے ہم کچھ مثالوں سے کام لیں گے۔

 فرض کیا جائے کہ اگر ایک قاتل ایک ایسی عمر میں ارتکابِ قتل کرے جب وہ دنیا سے رخصت ہونے کے قریب ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے قاتل کی عمر قید کی سزا جلد ہی پوری ہوجائے گی۔ مگرایک قاتل صرف بیس سال کا نوجوان ہو تو ظاہر ہے اسے پچاس ساٹھ سال قید میں گذارنے ہونگے۔فرض کیا جائے کہ قاتل کو اپنے بارے میں علم ہوکہ وہ ایڈز یا کینسر کا مریض ہے اور بہت جلد اُس کی موت واقع ہونے والی ہے، اس بناپر اگر وہ کسی کے قتل پر آمادہ ہو جائے ،اس لئے کہ اسے دی جانے والی عمر قید کی سزا سے زیادہ وہ اپنے مرض کی وجہ سے زندہ بھی رہنا نہیں چاہتا،تو سزا کی معقولیت پر کیا سوالیہ نشان نہیں لگ جائے گا۔! کیا سزاؤں کا اس طرح misuseنہیں ہوگا؟ کیا عمر قید اس کے لئے مناسب سزا ہوگی؟ ممکن ہے سزا ئے عمر قید اس اعتبار سے اُس کے لیے بہت ہلکی ثابت ہواور وہ اپنی بچی کچھی قلیل سی عمرجیل کے بجائے اپنی علالت کی بنا پرہسپتال میں زیادہ آرام سے گذار دے۔مطلب ،سزا توعمر قید ہی کی ہوگی ، مگرقاتل کی زندگی کے آخری ایام بڑے مزے سے گزریں گے۔ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے جرم کی ہر وہ سزا جو آسمانی وحی سے ہٹ کر ہوگی، ہر انسان کے لیے نہ یکساں ہو سکتی ہے اور نہ اسے انصاف کے تقاضے پوری کرنے والی کہہ سکتے ہیں۔

 پھرآیت شریفہ میں دوسرا حکم ہے:

آنکھ کے بدلے آنکھ:

 یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آنکھ کے لیے یہاں واحد کاصیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ آنکھ کا بدلہ صرف اور صرف مجرم کی آنکھ ہے ۔آنکھیں نہیں۔بلکہ حدیث شریف میں تو یہاں تک صراحت ہے کہ اگر مجرم نے کسی کی بائیں آنکھ کو نقصان پہنچایا ہے ، تو یہ نہیں ہوگا کہ بطور سزا اس کی دائیں آنکھ سے بدلہ لیا جائے۔ بلکہ بائیں آنکھ کے نقصان کی سزا بائیں آنکھ ہی کو دی جائے گی۔ اگر خدا نخواستہ مجرم کی بائیں آنکھ ہی نہ ہو ، تو اس کی دائیں آنکھ کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ اور ایسے کسی کیس کو آخرت کی حتمی عدالت پر چھوڑ دیا جائے گا، جہاں ہر جرم کی انتہائی مناسب و معتدل سزا کا قانون مکمل اختیارات کے ساتھ نافذ ہوگااوراس عظیم عدالت کا واحد منصف اعلیٰ، اللہ رب العالمین خود ہوگا۔یہ ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے۔

 اب آیت کریمہ کا یہ حصہ دیکھیے:

ناک کے بدلے ناک:

غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں ناک کے بدلے صرف ناک ہے اور اس سے آگے کچھ نہیں! ایک ناک کو چھوڑ کو مجرم کے بدن کے دیگر اعضاءاُسی طرح محفوظ و مامون سمجھے جائیں گے، جس طرح دیگر شہریوں کے ہوتے ہیں۔آیت کے اگلے الفاظ ہیں:

کان کے بدلے کان:

 یہاں کان کے لیے پھر وہی واحد کاصیغہ ہے۔ یعنی دونوں کان نہیں اور نہ ہی کوئی اور دوسرا عضو۔کان کا بدلہ صرف اور صرف مجرم کے کان سے لیا جائے گا۔آگے کتاب اللہ کے الفاظ ہیں:

دانت کے بدلے دانت:

 یہاں بھی واحد کاصیغہ! یعنی دانت کے بدلے پوری بتیسی نہیں نکالی جاسکتی! صرف ایک دانت اور وہ ایک دانت بھی گواہوں کے بیانات، جرم کے ثبوت، مجرم کے اقبالِ جرم ، غرض کہ پوری قانونی کارروائی کے بعدہی ہدفِ سزا بنے گا۔ ان قوانین پر جنگل کے قانون کا فقرہ کسنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنگل میں صرف جنگلیوں کے قانون چلتے ہیں، جہاں ہرجانورخود ہی مدعی اور خود ہی منصف ہوا کرتا ہے۔یہ قانون انسانی معاشرے کی بھلائی کے لئے بنائے گئے ہیں۔اور انسانوں کو پیدا کرنے والااللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔

  آیت کے آخر میں کہا جارہا ہے کہ کسی بھی شہری کو کسی بھی نو عیت کی ایذا پہنچائی گئی ، اور جرم ثابت ہو رہا ہو تو قانون الٰہی کہتا ہے کہ مجرم کو بھی ویسی ہی سزا دی جائے۔ یہ حکم اس ہستی کا ہے، جو مجرم کا بھی رب ہے اور مدعی کا بھی۔ قاضی کا بھی رب ہے اور جج کا بھی ۔ بلکہ وہ تو رب العالمین ہے۔ مالک یوم الدین ہے۔ الرحمٰن ہے، انتہائی رحمت اور کرم والا ہے۔ہمارے معاشرے میں چہرے پر ترشہ (Acid)پھینکے جانے کے جرائم عام ہیں، لیکن اس آزاد معاشرے کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسڈ کے ماروں کے ساتھ انصاف کرنے میں کسی عدالت کو ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

 کتاب اللہ میں بیان کردہ ان سزاﺅں کی برکت یہ ہے کہ کوئی شخص چند سال جیل میں رہنے کی قیمت پر کسی دوسرے انسان کوزندگی بھر کے لئے ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک ، کان وغیرہ سے محروم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکے گا ۔اس کے علم میں اچھی طرح رہے گا کہ کسی بھی انسان کے جسم کے اعضاءخود اس کے جسم کے اعضاءہی کی طرح ہی قابل احترام ہیں۔ وہ اس حقیقت کا ادراک کرکے رہے گا کہ کسی بھی انسان کوجسمانی طور سے معذور کر نے کے نتیجے میں اُسے چند سال کی جیل نہیں بلکہ اسے بھی بطور سزا اسی قدرمعذوری دی جائے گی اوراس کی بچی ہوئی زندگی بھی اسی طرح معذوری میں گزرے گی۔اس کا جسم اس کے جرم کی گواہی بھی دیتا رہے گااور اُسی سکے اور Same Coin میں اپنے جرم کی قیمت اُسے ادا کرنی ہوگی ۔اُسے اس حقیقت کو جاں گزیں کرنا ہوگا کہ چندسال کی جیل جیسا سستا معاملہ اُس کے ساتھ ہونے والا نہیں ہے۔اُسے بہر حال اپنے غصے پر قابو رکھنا ہوگا اور اپنے ہاتھ پاﺅں اور اپنے ہتھیاروں کوبے قابو ہونے سے روکنا ہوگا۔

 پھراگر جرمانہ اور تاوان ادا کرکے جرم کی سزا سے بچنے کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا اور اسے عین انصاف کا تقاضہ سمجھا جائے گا توہوگا یہ کہ مالی اعتبار سے کم حیثیت کے لوگ تو قانون شکنی کی جرات سے باز رہیں گے۔ البتہ مالدار لوگ اپنے حریفوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے اپنے مال کا سہارا لینے کی سہولت پیدا کر لیں گے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی رقم ادا کرنے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوگا۔اس طرح کیاپیسہ انسانی زندگیوں سے کھیلنا نہیں شروع کر دے گا؟ اور انصاف پرحاوی نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں گے اور کیا انسانی حریت کی عظمت قائم ہوسکے گی؟

   آسمانی کتابوں کی تعزیری سزاﺅں کے اس انداز اور رُخ کودیکھ کر دل پکا ر اٹھتا ہے کہ انسانیت سوز جرائم کی سزاﺅں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اس پر اطمینان کا ہم اظہار کرتے ہیں تو گویا ان کے سخت ترین ہونے کی ہم بھی غیر شعوری طور پر توثیق کر رہے ہوتے ہیں۔لیکن غور سے دیکھا جائے تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ

ہے عبرت کیا کسی آفت میں تم بھی دیکھ تو لیتے

مشیّت رب کی اس زحمت میں تم بھی دیکھ لیتے

عزیز بلگامی

 ان سزاﺅں میں زبردست رحمت کا پہلو صاف نظر آتا ہے۔مگر اس کے لئے کتاب اللہ سے اپنا براہ راست تعلق استوار کرنا ہوگا۔ کتاب اللہ کی روح کو مسلمانوں کے مختلف خاندانوں اور بادشاہوں کی سلطنت اورحکومت اور ان کے قوانین کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے، احادیثِ مبارکہ سے سمجھنا ہوگا۔مثلاً…ایک آنکھ کے بدلے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہی آنکھ کا تذکرہ ہے ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔رحمت کا پہلو یہی ہے جس کا ادراک صاحبِ عقل کے لیے مشکل نہیں ۔ورنہ اگر کوئی کسی مجرم کے لیے کسی اور سزا کی تجویز کے ساتھ اس کی آنکھ کو بچانے کی فکر کرتا ہے اور اسے انسانی حقوق کی پاسداری سمجھتا ہے تو گویا وہ دو ذمہ داریاں Risk اپنے سر لے رہا ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ مظلوم کو انصاف سے محروم کردیتا ہے اور وہ دوسرے یہ کہ وہ انسانی معاشروں میں آنکھوں کی بصارت کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔یہ کوئی انصاف نہیں ہواکہ اگر کسی صاحبِ حیثیت یا صاحبِ اقتدار کی آنکھ کوکسی فردِ بے مایہ کی طرف سے کوئی نقصان پہنچے تواس کی کھال کھینچ لی جائے ۔اور اگرکوئی بڑا آدمی کسی کم حیثیت والے کی آنکھ پھوڑ دے توچندسالوں کی قیدکے بعد اُسے اپنی آنکھوں کی سلامتی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیاجائے۔

  انسانوں کے رب سے یہی توقع قرین ِانصاف ہے کہ ہر دورمیں تمام انسانوں کے لیے ایک ہی حکم دیا جائے، چاہے وہ کسی بھی حیثیت کے مالک کیوں نہ ہوں۔جس کا جتنا قصور ہوگا، سزا بس اُسی قدر ہی۔سزاﺅں میں کسی کے لئے کوئی رو رعایت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ کم حیثیت والے کی سزا میں کوئی زیادتی بھی کسی صورت نہیں ہوگی۔اسی طرح ایک قتل کے جواب میں کئی کئی قتل نہیں ہوں گے اور مجرم ہی سزا کا مستحق گردانا جائے گا نہ کہ اس کے والدین یا اولاد یا خاندان یا رشتہ دار یا ہم قبیلہ یا ہم مذہب ۔ان میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ مجرم کے دیگر رشتہ داروں کے انسانی حقوق، شہری حقوق، اُن کے وقار و آزادی کے سلسلے میں کوئی امتیاز برتا جائے گانہ کسی سے کوئی انتقام لیا جائے گا۔ستراویں سورة کی تینتیسویں آیت کے آخری الفاظ کس قدر واضح ہیں:

 ”…………………….. پس قتل(کی سزا) کے معاملات میں زیادتی  مطلق نہ کی جائے۔ مقتول کے مقدمے کی اور اس کے ورثاءکی فریاد رسی کی جائے۔ “

 ہماری گفتگو کا ایک اور پہلو رہ جاتا ہے کہ کیا قتل کی سزا میں کہیں کوئی تخفیف کی بھی گنجائش ہے؟

یہ ایک منطقی اور اہم سوال ہے۔ ظاہر ہے کہ رب کائنات کے قانون میں مخلوقِ انسانی کے لیے رحمت کی بات ہو رہی ہو تو ہمیں جستجو کرنی پڑے گی کہ کیا فی الواقع کوئی تخفیف یا رعایت ہے ؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ہے ؟

 ہمیں معلوم ہے کہ دنیا کے تمام قانونی نظاموں میں اصولی اعتبار سے یہ بنیادی باتیں تسلیم کر لی گئی ہیں کہ قوانین مظلوم کی داد رسی کے لیے اور انصاف دلانے کے مقصد سے وضع کیے جائیں۔عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ کسی مجرم کے ساتھ کسی بنیاد پر کوئی مخصوص رعایت نہ کی جائے۔سزائیں جرم سے مناسبت رکھنے والی ہوں۔سزائیں بھی مکمل قانونی کارروائی کے بعد اورانتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی سرکردگی میں دی جائیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔لیکن ان ساری اصول پسندیوں کے درمیان ایک اہم چیز غائب نظر آتی ہے او ر یہیں کتاب اللہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔جب ہم کتاب اللہ سے براہ راست رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تعزیری جرم و سزا کے اس پورے مرحلے میں گنجائش کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جس سے دنیا آج تک ناواقف ہے۔ دنیا کے کسی قانون میں اس اہم گنجائش کا پتہ نہیں چلتا۔

 ہم نے دیکھا کہ تعزیری سزاﺅں پر عمل درآمد کے لیے انتظامیہ اپنے جملہ اداروں اورکارندوں کے ساتھ چاق و چوبند رہتا ہے اور اسے رہنا بھی چاہیے۔عہدہ، حیثیت، منصب، اثر و رسوخ میں سے کوئی چیز مانع ہو نہ ان سے اثر قبول کرکے کسی بھی مجرم سے رعایت کا اُسے حق حاصل ہو۔ چاہے کوئی مجرم حکومتِ وقت کے اعلیٰ ترین عہدے پر ہی فائز کیوں نہ ہویا وہ صاحبِ حیثیت و منصب ہی کیوں نہ ہو۔غرض کہ انتظامیہ سے جڑے تمام شعبوں کو مکمل اختیار ہوتا ہے کہ انسانی زخموں کی جو سزا ہے اُسے پوری قوت کے ساتھ لاگو کرے۔مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بااختیار عصری قانون میں ایک اختیار ایسا بھی ہے جو انتظامیہ یا ان کے جملہ شعبوں کو حاصل نہیں یا عصری قانون اس کے بارے میں خاموش ہے۔ اور وہ ہے مجرم کی سزا میں کوئی رعایت یا تخفیف یا Concession کااختیار۔ یہ صرف کتاب اللہ ہے جو ایسے کسی اختیار کی بات کرتی ہے اور صراحت کے ساتھ بتاتی ہے کہ کسے یہ اختیار دیا جائے۔

 کتاب اللہ میں مجرم کی سزا میں رعایت یا تخفیف یا Concession دیے جانے یا مکمل طور پرمعاف کردیے جانے کا اختیار صرف اور صرف اسی شخص کودیا گیا ہے، جس کے خلاف جرم یا دست درازی کاارتکاب ہوا ہو۔یعنی قانون اور اس کے اداروں کو سزا لاگو کرنے کا اختیار تو ہے مگراسے معافی کا نہیں۔جس شخص کی آنکھ، کان یا اسی طرح کے اعضاءکو مجرم نے نقصان پہنچایا ہے، اگر وہ مظلوم شخص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یا کسی اور وجہ سے مجرم کی قانونی سزا میں کسی تخفیف یا معافی کا خواستگارہو تو نظامِ قانون کے لیے لازم ہوگاکہ وہ نہ صرف اس کی خواہش کااحترام کرے بلکہ اپنی قوتِ نافذہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پر عمل درآمد کرائے۔ معاشرے میں اعلیٰ انسانی ہمدردی کو فروغ دینے کی ایسی مثال شاید ہی کہیں ملے۔

  کیا اس سے زیادہ بھی کوئی اور شئے انسانیت کے لیے رحمت اور تحفظِ زندگی کی ضمانت بن سکتی ہے؟ قانون نے تو آنکھ کے بدلے آنکھ کی سزا جاری کردی جو شہریوں کے درمیان مساوات و اعلیٰ انسانی اقدار کا ضامن ہے،اس لیے کہ قانون کو تو حق اور انصاف کی پاسداری اور شہریوں کے درمیان مساوات کو بہر حال قائم کرنا ہوتا ہے۔یہ مقام تو وہ ہوتا ہے کہ جہاں کسی قانون کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ مجرم کی سزا میں تخفیف ، رعایت اور معافی کی گنجائش بھی ہو سکتی ہے۔مگر کتاب اللہ کہتی ہے کہ ہاں! ایک گنجائش ضرور ہے کہ خود وہ شخص جو نقصان کاہدف بنا ہے ، اور زندگی بھر کے لیے اپنے جسم کے ایک حصے کو گنوانے پر مجبور کر دیا گیا ہے، بس اُسی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ مجرم کی سزا میں کوئی تخفیف ، کسی رعایت کا اظہار کرے۔ قانون کے رکھوالوں پر لازم ہوگا کہ وہ اس کی خواہش کے احترام میں اُس کی پُشت پر ایک قوت بن کر کھڑے ہو جائیں۔ عدل و انصاف کی یہی کیفیت انسانیت کے اعلیٰ اخلاق اور حریت و مساوات کے اعلیٰ ترین اقدار کے قریب ہو سکتی ہے۔ افسوس کہ اس طرح کے کسی Concession کی کوئی گنجائش استغاثہ کی طرف سے رکھے جانے کی کوئی نظیر ہمیں موجودہ قوانین میں کہیں نظرنہیں آتی ہے۔

 اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قتل کے معاملے میں قاتل کی پھانسی یا گردن زدنی یا Electric Chairکی سزا کو کون معاف کرے گا؟ جبکہ مقتول اس دنیا سے جا چکا ہوتا ہے! اس سلسلے میں ربانی قانون ایک حیرت انگیز رعایت انسانوں کے لیے پیش کرتا ہے جس کی مثال دنیا کے کسی قانون میں نہیں ملتی۔

رب کائنات نے فرمایا :

”… پھر جس مجرم کی سزا میں اس کے بھائی (یعنی پہلے وارث یا خاندان کے ذمہ دار)کی طرف سے رعایت یا معافی دی جائے ، تو اس کی پیروی کی جائے دستور کے مطابق Systematically اور ادائیگی اور Payments کئے جائیں احسان مانتے ہوئے۔۔ “

  یعنی ایک قاتل کی معافی اورجان بخشی، صرف اور صرف اس کے first affected اور worst sufferer ، چاہے مقتول کے والدین ہوں، یا اس کی بیوہ ہو ، یامقتولہ کا شوہر ہو یا اولاد ہو یا جو قریب ترین رشتہ دار ہوں، یا برادری کے لوگ ہوں، صرف و ہی کرسکتے ہیں۔ دیگر اداروں یا افراد کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ قاتل کی سزاکے لیے کی جانے والی رحم کی درخواست کو منظور کریں اور اس کی سزا میں کسی تخفیف و رعایت کے حقدار بن جائں۔ظاہر ہے کسی جج، کسی قاضی، کسی سربراہِ حکومت ، کسی صدر مملکت کا اس جرم میں کوئی ذاتی نقصان کہاں ہوا ہوتا ہے کہ وہ مجرم کی سزا میں معافی کے اعلان کا استحقاق حاصل کرلے! نقصان تو اُن بوڑھے والدین کا ہوا ہے جن کا بیٹا ان سے چھین لیا گیاہے۔ نقصا ن تو اس یتیم معصوم بچے کا ہوا ہے، جس کے سر کواس کے اپنے والد یا والدہ کے سایۂ عاطفت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ نقصان تواُس بیوہ کا ہوا ہے جس کا سہاگ چھین لیا گیا ہے۔ نقصان تو اس شخص کا ہوا ہے جس کی محبوب بیوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔معاف تو وہ کریں، کسی دباﺅ کے بغیر۔ اگر وہ ہر جانہ یا compensation کےلئے تیار ہوں بطورِ صدقہ، تو وہ ضرور کریں اپنے رب کی رضا اور خوشی کی خاطر۔ معافی کے اس عمل میں کسی بیرونی دباؤ کا رول اگر نہ ہو تو حکومتِ وقت اور اس کے قوانین کو اس کا تعاون کرنا چاہیے۔اسی طرز عمل میں human rights کی حقیقی قدر شناسی تلاش کی جاسکتی ہے۔ایسا ہی قانون انسانیت کے اعلیٰ جوہر سے قریب تر ہوسکتا ہے۔اور اسی سے انصاف کے تقاضے پورے کیے جانا ممکن ہو سکے گا۔اور اسی قانون میں انسانی جذبات کا کما حقہ لحاظ رکھا جا سکے گا۔ یہ قانون ارحم الراحمین کے قانون کے سوا کس کا ہوسکتا ہے؟

 جہاں تک مال کی شکل میں ہرجانے کے عوض قاتل کی جان بخشی کامعاملہ بنتا ہے تو اس کی بھی ترغیب ہمیں ملتی ہے کتابِ الٰہی میں۔ مگر اسے طے کرنے کا پورا اختیار وارثوں کو دیا گیا ہے۔ حکومت اور عدالت کو نہیں۔وہ کسی فریق پر اس سلسلے میں کوئی دباﺅ نہیں ڈال سکتی ۔نہ ہی مجرم یا اسکے رشتہ دار یا قبیلے والے اس طرح کا کوئی دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اگرفریقین کے درمیان آزادانہ ماحول میں بغیر کسی جبر کے compensation طے ہوگیا، توانتظامیہ اسے Good Social Norms کے تحت انجام دینے میں اپنا رول ادا کرے۔مجرم جومال کے ذریعہ یا کسی اور صورت میں compensate کررہا ہے تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ مظلوم کے رشتہ داروں پر کوئی احسان کر رہا ہے یا وہ تاوان ادا کر رہا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ اس طرح اس پر احسان کیا گیا ہے تاکہ اس کی جان بخشی ہو جائے۔اس سلسلے میں وہ ہر اُس شرط کی پابندی کرے جو سزا کے عوض اس کی جان بخشی کے لیے طے کی گئی ہیں۔

 اب سوال یہ ہے کہ قانون یا حکومت کسی کی جان کی قیمت کیسے لگا ئے ؟ اگر قانون میں پہلے ہی سے جان کی قیمت مقرر کی جائے تو ظاہر ہے جس کے پاس یہ قیمت ادا کرنے کی طاقت ہوگی وہ بلاتکلف کسی کی بھی جان لے گا۔اور پھر قیمت ادا کرکے اپنی جان کو بچا لے گا۔پھر تویہ انصاف کہاں ہوا؟ یہ تو صریحاً بے انصافی کہلائے گی۔کیونکہ انسانی جان کی کوئی قیمت دنیا میں ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح ہر آنکھ اور ہر کان بیش قیمت ہے ۔اسی لیے قانونِ الٰہی کا منشاءیہ ہے کہ مجرم کے وہ سارے انسانی اعضاءلیے جائیں، جو اس نے دوسروں سے چھینا ہے۔اس نے اگر انسانی جان چھینی ہے تواس کا معاوضہ بھی وہ اسی سکہ میں فریا دی کو ادا کرے جو ظاہر ہے مجرم کی جان ہے۔ ان سزاﺅں کے بدل دئے جانے سے انصاف کے تقاضے بری طرح مجروح ہونگے۔

 یہی وہ پہلو ہے جس پر کوئی بھی باشعور انسان بے اختیار پکار اٹھے گا کہ واقعی یہ قانون ارحم الراحمین، رب العالمین نے اپنے حبیب ، رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا ہے۔ اس سے زیادہ رحمت والا قانون اس دنیا میں کہیں نظر نہیں آتا۔ کاش کہ دنیا اس قانون کی روح کو، اس کی گہرائی اور حقیقت کو ایک باراور دریافت کرتی اور انسانوں کی حفاظت کے لیے عمل میں لاتی۔اس میں سزاﺅں کے ساتھ معافی و تخفیف کے جو اعلیٰ معیار طے کئے گئے ہیں، وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یہ رب ِکائنات کا قانون ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کے صحرا میں یہی قانون آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اتارا گیا تھا۔اس قانون میں دنیاکے لئے امن ، آشتی اور رحمت کاپیغام موجود ہے۔

 ہم دعوت دیتے ہیں خود اپنی ذات کو، اہل کتاب کو، اقتدار اور حکومت کے تمام ذمہ داروں کو، انسانی عدالتوں کے سربراہوں کو، انسانیت کے بہی خواہوں کو کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پرقانون الٰہی کے مطالعے کی طرف براہ راست پلٹیں۔ خالقِ کائنات کے آخری کلام، قرآنِ حکیم کی آیتوں میں وہ ساری ہدایات موجود ہیں جن پر عمل آوری اس دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنا سکتی ہے اور انسانیت کے سارے مسائل کو حل کرکے اس زمین کو حقیقی سکون سے ہم کنار کر سکتی ہے۔ جو لوگ ظلم و زیادتی کرتے ہیں، ناحق دوسروں پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اُ ن کے لیے آخرت کی درد ناک سزائیں تو تیار ہیں ہی،اور وہ اللہ رب العالمین کا اپنا معاملہ ہے۔لیکن دنیا میں بھی انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اس سے بچنے کے لیے انسانوں کو اس سلسلے میں قانون سازی اور اس کا نفاذ کرنا ہوگا جس میں خود اُس کی اپنی فلاح مضمر ہے۔ ضروری ہے کہ انسانوں پرظلم و ستم اور زیادتی سے انسان اپنے آپ کو روکے اور اپنے دل میں آخرت کی سزا کاخوف جاں گزیں کرلے۔ اپنی نفرت ، اپنے غیظ و غضب، اپنے انتقام اور اپنے غصے کو قابو میں رکھے اور انسانوں پر بیجا ہاتھ اٹھانے سے باز رہے ۔ اسی میں ایک انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: